Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”آپ نانو کو جاکر کہیں کہ میں نے آپ کے یہاں رہنے پر کوئی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کیا۔”
”حالانکہ تم میرے یہاں رہنے کو ناپسند کرتی ہو۔”
”میں نے آپ سے ایسا کب کہا۔”
”تم نے کہا نہیں مگرپھر بھی تم میرا یہاں رہنا پسند نہیں کرتی۔”
”آپ غلط کہہ رہے ہیں۔”
”علیزہ میں کوئی بچہ نہیں ہوں اور صحیح غلط تم سے بہت اچھے طریقے سے سمجھ سکتا ہوں۔ تمہیں یاد ہے اس دن جب میں تمہیں پرفیومز دکھا رہا تھا ،اور میں نے اپنا فیورٹ پرفیوم تمہیں دکھایا تو تم نے اسے گرا دیا۔”
علیزہ کا رنگ اڑ گیا تھا۔ ”میں نے جان بوجھ کر پرفیوم نہیں گرایا تھا۔ میرے ہاتھ ….. !”
”علیزہ میں بے وقوف نہیں ہوں،نہ ہی مجھے بے وقوف سمجھو۔” وہ بات کرتے ہوئے بے حد پر سکون تھا۔
”اسی طرح اس دن پلانٹس کی کٹنگ کرتے ہوئے، میں نے تم سے کہاں یہ میرا فیورٹ پلانٹ ہے اور تم نے اس کی سب سے خوبصورت شاخ کاٹ دی۔” اس بار وہ کچھ بول نہ سکی ، عمر واقعی بے وقوف نہیں تھا۔



”میں نے بہت پہلے تمہیں بتا دیا تھا کہ میں یہاں تمہاری جگہ لینے نہیں آیا ہوں۔ تھوڑے عرصہ کے لئے آیا ہوں پھر واپس چلا جاؤں گا۔ مگر اس کے باوجود مجھے محسوس ہوا کہ تم میری طرف سے اپنا دل صاف نہیں کر پائیں۔ شاید تمہارے دل میں میری طرف سے کچھ خدشات تھے، اور میں کوشش کے باوجود انہیں ختم نہیں کر پایا۔ اس لئے میں نے بہتر یہی سمجھا کہ یہ جگہ چھوڑ دوں۔ بس اتنی سی بات تھی اور میں نے گرینی سے بھی ان سب باتوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا۔ انہوں نے جب میرے باہر جانے کے فیصلے کے بارے میں بہت اصرار کیا تو میں نے ان سے صرف اتنا کہا کہ تم میرے یہاں رہنے کو پسند نہیں کرتیں۔ اس سے زیادہ میں نے ان سے کچھ نہیں کہا۔”
وہ بہت سنجیدگی سے اسے بتاتا جا رہا تھا۔ وہ ایک بار پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیاتھا۔ وہ سرخ چہرے کے ساتھ اسے دیکھتی رہی۔ وہ اب اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔
”پلیز ! آپ واپس آجائیں!”
عمر نے ایک گہری سانس لے کر اسے دیکھا تھا۔” آئی ایم سوری۔”
”علیزہ ! میں یہاں سے ناراض ہو کر نہیں گیا۔ اپنی خوشی سے گیا ہوں اور اکثر آتا جاتا رہوں گا۔”
اس نے نرمی سے کہا۔



”پلیز آپ واپس آجائیں……جب تک آپ واپس نہیں آئیں گے نانو کا موڈ ٹھیک نہیں ہوگا۔ آپ سمجھتے نہیں ہیں وہ۔۔۔۔۔”
عمر نے اسے کچھ الجھی ہوئی نظروں سے دیکھا وہ بے حد پریشان نظر آرہی تھی۔
”میں دوبارہ کوئی ایسی حرکت نہیں کروں گی جس سے آپ کو شکایت ہو۔” وہ اس سے نظریں نہیں ملا رہی تھی۔
”علیزہ ! میں واپس نہیں آسکتا۔” اس نے مایوسی سے عمرکو دیکھاتھا۔
”جہاں تک گرینی کی بات ہے تو وہ تم سے بہت محبت کرتی ہیں۔ وہ تم سے ناراض نہیں ہو سکتیں۔”
”ہاں ! وہ تو مجھ سے بہت محبت کرتی ہیں، مگر پھر بھی یہ گھر میرا نہیں ہے میرا تواب کوئی گھر ہے ہی نہیں۔”
عمر نے اسے اپنے دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھتے ہوئے دیکھا تھا اور وہ جان گیا تھا۔ وہ کیا چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ چند لمحوں تک وہ اسے حیران پریشان آنکھوں پر ہاتھ رکھے سسکیاں بھرتے دیکھتا رہا، پھر وہ اس کے قریب آگیا تھا۔
”علیزہ ! کیا ہوا ،رونے والی کیا بات ہے؟”
اس نے بچوں کی طرح اسے چمکارتے ہوئے اس کے چہرے سے ہاتھ ہٹانے کی کوشش کی تھی۔ مگر چپ ہونے کی بجائے وہ یکدم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔ وہ ساکت کھڑا اسے دیکھتا رہاتھا پھر اس نے کندھوں سے پکڑ کر اسے بیڈ پر بٹھا دیاتھا۔
”ٹھیک ہے میں واپس آجاتا ہوں لیکن تم یہ رونا بند کردو۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!