Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

سب نے کھانا شروع کر دیا تھا۔ نانو باری باری انکل جہانگیر اور عمر کو ڈشز سرو کر رہی تھیں۔ عمر سر جھکائے ہوئے ایک لفظ کہے بغیر پوری سنجیدگی سے کھانا کھاتا رہا۔اس نے ایک بار بھی انکل کی طرف دیکھنے یا انہیں مخاطب کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ دوسری طرف انکل جہانگیر بھی بہت خاموشی سے کھانا کھانے میں مصروف تھے۔ علیزہ کھانا کھاتے ہوئے باری باری انکل جہانگیر اور عمر پر نظر دوڑاتی رہی۔
عمر نے سویٹ ڈش کھانے کے بعد پلیٹ کھسکا کر نیپکن اٹھا لیا تھا، اور وہ منہ پونچھ رہا تھا۔ جب نانو نے اسے مخاطب کیا تھا۔
”عمر ! اب تم میرے کمرے میں چلنا مجھے تم سے اور جہانگیر سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔”
علیزہ نے یکد م اس کے چہرے پر تناؤ دیکھا۔
”مجھے اس وقت کسی سے کچھ بھی بات نہیں کرنا ہے میں بہت تھک چکا ہوں اور جو واحد چیز میں اس وقت چاہتا ہوں وہ نیند ہے۔ جہاں تک آپ کی بات سننے کا تعلق ہے تو وہ میں صبح سن لو ں گا اور اس کے علاوہ مجھے کسی دوسرے کی نہ تو کوئی بات سننا ہے اور نہ ہی کسی سے کوئی بات کرنا ہے۔”
وہ کرسی پیچھے کھسکا کر کھڑا ہو گیا تھا۔ علیزہ جان گئی تھی کہ اس کا اشارہ کس کی طرف ہے۔ اس نے انکل جہانگیر کے ماتھے پر بل پڑتے دیکھے تھے ۔انہوں نے بھی اپنی پلیٹ پیچھے سر کا دی تھی۔
”کیوں، مجھ سے بات کرتے ہوئے تمہیں کیا تکلیف ہوتی ہے؟”
علیزہ نے انہیں تیز آواز میں کہتے ہوئے سناتھا۔



”مجھے آپ سے جتنی باتیں کرنا تھیں ، میں کر چکا ہوں۔مزید باتوں کی ضرورت نہیں ہے۔”
عمر نے پہلی بار ان کی طرف دیکھ کر کہا تھا۔
”مگر مجھے تم سے بہت سی باتیں ابھی کرنی ہیں یہ تم اچھی طرح سن لو۔”
”تم اس طرح سے فرار حاصل نہیں کر سکتے۔”
اس بار انکل جہانگیر نے تقریباً چلاتے ہوئے کہا تھا۔ نانو نے انکل جہانگیر کے کندھے کو دبا یاتھا۔
”کیا ہو گیا ہے جہانگیر ؟ کیوں اس طرح سے چلا رہے ہو؟ آرام سے بات کرو ، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔”
”نہیں گرینی ! انہیں چلانے دیں ۔ پچھلے تیس سالوں میں انہوں نے چلانے کے علاوہ اور کیا ہی کیا ہے۔”
”عمر ! تم بھی تمیز سے بات کرو ، وہ باپ ہے تمہارا۔”
اس بار نانو نے عمر کو جھڑکا تھا۔
”یہ باپ نہیں ہیں ،traitor(غدار) ہیں۔ ان کے نزدیک ہر چیز بکنے والی شے ہے۔ چاہے وہ ویلیوز ہوں یا پھر اولاد۔”
اس نے تلخی سے انکل جہانگیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاتھا۔
”آپ سن رہی ہیں اس کی باتیں!”
انکل جہانگیر نے ترشی سے نانو سے کہاتھا۔
”آپ نے ہی خواہش کی تھی باتیں سننے اور سنانے کی۔ یہ میری خواہش نہیں تھی۔”
”عمر تم بیٹھ جاؤ!”
نانو نے عمرسے کہاتھا۔



”مجھے بیٹھنا ہی نہیں ہے ۔جب مجھے کوئی بات ہی نہیں کرنا ہے تو پھرمجھے یہاں بیٹھ کرکیا کرنا ہے۔”
وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا تھا۔ انکل جہانگیرہونٹ بھینچے ہوئے اسے جاتا دیکھتے رہے تھے۔
”میں نے آپ سے کہا تھا نہ کہ اس کا دماغ خراب ہو چکا ہے۔”
انہوں نے اس کے جاتے ہی نانو سے کہا تھا۔
”اس وقت اسے سونے دو۔ وہ تھکا ہوا ہے۔ اس لئے زیادہ تلخ ہو گیا ہے۔ تم صبح دوبارہ اس سے بات کرنے کی کوشش کرنا اور کچھ نرمی سے بات کرنا۔ وہ کوئی چھوٹا سا بچہ نہیں ہے، جوان ہے انڈیپینڈنٹ ہے، اور اس طرح وہ کبھی بات نہیں سنے گا۔”
نانو انکل جہانگیر کو سمجھارہی تھیں۔
”آپ کا کیا خیا ل ہے کہ میں نے اس سے نرمی سے بات نہیں کی ہے، میں اس سے ہر طرح سے بات کر چکا ہوں،مگر وہ اپنی بات پر جما ہوا ہے۔ اسے احساس ہی نہیں ہے کہ اس کی ضد میرے لئے کتنی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔”
وہ تیز آواز میں نانو سے بات کر رہے تھے جو بڑی خاموشی سے ان کی باتیں سن رہی تھیں۔
”ٹھیک ہے فی الحال ابھی تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ وہ سونے چلا گیا ہے۔ تم بھی جا کر سو جاؤ۔ صبح دیکھوں گی کہ میں تمہارے لئے کیا کر سکتی ہوں؟”
نانو نے انکل جہانگیر کو دلاسا دیتے ہوئے کہا، اور وہ انکل جہانگیر کو اپنے ساتھ لے کر ٹیبل سے اٹھ گئیں۔
علیزہ چپ چاپ وہیں بیٹھی انکل جہانگیر کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کر تی رہی۔ ملازم ٹیبل سے کھانے کے برتن اٹھا نے لگا۔ وہ سوچتی رہی کہ اس بار عمر اور انکل کے درمیان وجہ تنازعہ کیا ہو سکتی ہے۔
ان دونوں کے درمیان ہونے والا یہ پہلا جھگڑا نہیں تھا۔ علیزہ کو ایسے بہت سے مواقع یاد تھے، جب ان دونوں کے درمیان اختلافات ہوتے رہے تھے۔ مگر اس بار معاملہ یقیناً زیادہ سیریس تھا۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!