Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”میری فرینڈ بہت اچھی ہے۔ وہ اسکول سے میری فرینڈ ہے ،اس کے علاوہ اور کوئی مجھے اچھا نہیں لگا، بس اسی لئے یہی میری ایک ہی فرینڈ ہے۔”
اس نے جیسے عمر کی تشفی کرنے کی کوشش کی اس بار اس کا لہجہ کمزور تھا۔
”کیا آپ کے بہت سے فرینڈز ہیں؟”
اس نے صرف موضو ع بدلنے کے لئے پوچھا تھا۔
”ہاں! میرے بہت سے فرینڈز ہیں۔ مجھے فرینڈز بنانا بہت اچھا لگتا ہے۔ جیسے آج میں نے تم کو اپنی فرینڈ بنایا ہے۔”
عمر نے خوشگوار لہجہ میں اس سے باتیں کرتے ہوئے کہاتھا۔
”فرینڈز زیادہ ہوں تو زیادہ مزہ ہے۔”
”may be.”(ممکن ہے(
اس نے اختلاف کرنے کی بجائے مبہم انداز میں ہی جواب دے دیاتھا۔
وہ ایک بار پھر خاموش ہو گئی تھی۔ عمر نے اپنی گھڑی دیکھی اور پھر کھڑا ہو گیا تھا۔
”مجھے لائبریری جانا ہے، میں دو تین گھنٹوں تک واپس آ جاؤں گا۔”




اس نے نانو کو اطلاع دی تھی پھر وہ لاؤنج سے نکل گیاتھا۔ اس کے جانے کے کچھ دیر بعد وہ باہر لان میں نکل آئی تھی۔لان کے ایک کونے میں بیٹھ کر وہ کچھ دیر پہلے کے واقعات کے بارے میں سوچنے لگی۔ وہ عمر کے بارے میں کوئی حتمی اندازہ نہیں لگا پارہی تھی۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ عمر واقعی اتنا مخلص ہے جتنا وہ نظر آرہا ہے۔ یا پھر اس کے اندازے ٹھیک ہیں۔ وہ عمر کو سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ اس کی شخصیت علیزہ کو بہت عجیب لگی تھی۔ اس کے موڈز گھڑی کی سوئیوں سے زیادہ تیز رفتاری سے بدلتے تھے۔ وہ جب بھی اپنے کمرے سے نکل کے لاؤنج میں آتا تو گھر میں جیسے زندگی کی ایک لہر دوڑ جاتی تھی،نانا، نانو سے لے کر ملازموں تک ہر کوئی اسے پسند کرتاتھا اور اس کی پسند ناپسند کا خیال رکھتا تھا۔
اس کے پاس یقیناً کوئی ایسی خوبی تھی جس سے وہ دوسروں کو اپنا گرویدہ بنا لیتا تھا۔ مگر علیزہ ابھی تک اس بارے میں بہت محتاط تھی۔ اسے آخر مجھے پرفیوم دینے کی کیا ضرورت تھی، وہ ابھی سوچ رہی تھی۔
”اس کا خیال ہو گا کہ میں گفٹ لے کر خوش ہو جاؤں گی، اور باقی لوگوں کی طرح وہ مجھ پر بھی قبضہ کر لے گا۔ مگر…!”
وہ اب الجھن میں گرفتار ہو گئی تھی کہ گفٹ کے بارے میں کیا سوچے۔
”کیا میں نے اس سے گفٹ لے کرٹھیک کیا یا پھر یہ میری غلطی تھی؟”
وہ ابھی تک سوچوں میں گم تھی۔ بہت دیر تک سوچوں میں گم رہنے کے بعد اس نے فیصلہ کیا تھا۔
”نہیں ! مجھے گفٹ واپس نہیں کرنا چاہئے کیونکہ پھر نانو خفا ہو سکتی ہیں۔”
اسے خیال آیا تھا۔
”مگر میں اب دوبارہ اس سے کوئی گفٹ نہیں لوں گی کیونکہ مجھے اس سے دوستی نہیں کرنا ہے۔”
اس نے بالآخر طے کر لیا۔




چند دنوں بعد جب عمر نے اسے ایک اور پرفیوم دیا تو وہ انکار نہ کر سکی، اور پھر یہ ایک روٹین بن گئی تھی وہ جب بھی گھر سے باہر کسی کام کے لئے جاتا،اس کے لئے کچھ نہ کچھ لاتا رہتا۔ بعض دفعہ یہ بڑی معمولی چیزیں ہوتی تھیں۔ مثلاً آئس کریم کا ایک کپ، ایک بھٹہ، چیو نگم کا ایک پیکٹ، کبھی لیٹر پیڈ، کبھی ناول۔ وہ ہر بار یہ طے کرتی کہ اگلی بار اس سے کچھ نہیں لے گی، مگر اگلی بار خاموشی سے اس کا گفٹ لے لیتی۔ وہ اسے ہر چیز گفٹ کہہ کر ہی دیتا تھا۔
”علیزہ میں تمہارے لئے ایک گفٹ لایا ہوں۔ I swear ، (میں قسم کھا کر کہتا ہوں) ایسا گفٹ تمہیں پہلے کبھی کسی نے نہیں دیا ہو گا، بلکہ تمہیں کیا کسی نے بھی کسی کو نہیں دیا ہو گا۔”
وہ باہر سے آ نے پر کہتا اور وہ متجسس ہو جاتی۔
”اور یہ گفٹ ہے ایک عدد، بھٹہ۔”
اور وہ کاغذ میں لپٹا ہوا ایک عدد بھٹہ اس کی طرف بڑ ھا دیتا۔
”علیزہ! آج میں تمہارے لئے دنیا کی سب سے خاص چیز لے کر آیا ہوں، اور یہ چیز بہت ہی خاص لوگوں کو دی جاتی ہے۔”
اگلی بار اس کے الفا ظ کچھ اور ہوتے۔ علیزہ ایک بار پھر دلچسپی لینے پر مجبور ہو جاتی۔ وہ اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتا اور Kit Kat کا ایک پیکٹ اسے تھما دیتا۔
”آج میں تمہیں دنیا کی سب سے خطرناک اور پر اثر چیز دوں گا۔”
علیزہ ایک بار پھر اندازے لگانے میں مصروف ہو جاتی وہ پچیس، تیس روپے کا ایک بال پوائنٹ اسے ایک مسکراہٹ کے سامنے پیش کر دیتا۔
”اس بار میں تمہیں ایک ایسا گفٹ دوں گا جو تمام عمر تمہارے ساتھ رہے گا، اور تم ساری عمر اس کو استعمال کرتی رہو گی۔”
علیزہ پھربوجھنے میں ناکام رہی، اور اسکے سامنے ایک کتاب پیش کر دی جاتی۔
اس بار میرا گفٹ سب سے unique(نادر)ہے۔ یہ تمہیں فٹ اورسمارٹ رکھے گا، اور تم کو کبھی، بھی ڈائٹنگ کرنا نہیں پڑے گی۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!