Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

چیونگم کا ایک پیکٹ اس کے سامنے رکھ کر فرماتا۔
”بس تم ہر بار بھوک لگنے پر اسے منہ میں ڈال لینا۔”
وہ مزے سے کہہ کر چلا جاتا۔ بعض دفعہ اسے ہنسی آجاتی ، بعض دفعہ وہ الجھ جاتی۔ بعض دفعہ اسے غصہ آتا اور بعض دفعہ وہ عمر کے بارے میں سوچ میں پڑ جاتی۔
اس دن وہ مارکیٹ سے واپسی پر اپنے ساتھ کچھ پلانٹس لے کر آیا تھا۔
”دیکھو علیزہ! یہ پلانٹس کیسے ہیں ؟”
وہ ان پودوں کو علیزہ کو دکھا رہا تھا۔ آج کل وہ ہر بات میں علیزہ کی رائے لینا ضروری سمجھتا تھا۔
”میں قذافی سٹیڈیم کے پاس سے گزر رہا تھا وہیں سے انہیں لایا ہوں۔”
”اچھے ہیں!”
علیزہ نے ایک نظر ان پلانٹس کو دیکھا تھا اور پھر انہیں دیکھتے ہوئے ، بڑے عام سے انداز میں تبصرہ کیا تھا۔
وہ کچھ مایوس ہو گیا تھا۔
”صرف اچھے ہیں!”
علیزہ نے کچھ الجھی ہوئی نظروں سے اسے دیکھاتھا۔
”تو پھر مجھے کیا کہنا چاہئے؟”
”اپنی رائے دو کہ اچھے ہیں تو کیوں اچھے ہیں، برے ہیں تو کیوں برے ہیں۔”
عمر نے اسے سمجھایا۔




”میں پلانٹس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی، اس لئے صحیح رائے دینا تو بہت مشکل ہے۔ آپ کو نانو سے پوچھنا چاہئے، آپ کو زیادہ بہتر طریقے سے بتا سکتی ہیں کہ یہ پلانٹس کیسے ہیں؟”
اس نے عمر سے کہا۔
”میں حیران ہوں کہ تمہیں گارڈننگ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تمہیں نیچر سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔”
”نہیں، ایسا نہیں ہے مجھے نیچر تو اٹریکٹ کرتی ہے گارڈننگ نہیں۔”
اس نے جیسے قطعی طور پر اسے بتایا تھا۔
”یہ پلانٹس کہاں سے لائے ہو؟”
نانو اسی وقت لاؤنج میں آئی تھیں۔
”قذافی سٹیڈیم سے۔ آپ بتائیں کیسے ہیں۔”
اس نے فوراً نانوسے رائے لینے کی کوشش کی تھی۔
”اچھے ہیں، بہت اچھے ہیں ، مگر قیمت کیا ہے ان کی؟”
نانو نے فوراً تعریف کی تھی مگر ساتھ ہی سوال بھی داغ دیا تھا۔
عمر نے انڈور پلانٹس کی قیمت بتائی تھی۔
”تمہیں زیادہ مہنگے دے دئیے ہیں ان لوگوں نے،ان کو پتہ چل گیا ہو گا کہ تم بہت دیر کے بعد یہاں آئے ہو ،اسی لئے انہوں نے تم سے دوگنی قیمت وصول کی ہے۔”
نانو نے قدرے افسوس سے کہا تھا۔




”یہ کون سی نئی بات ہے گرینی!ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ یہ یہاں کا کلچر ہے۔ وہ کہتے ہیں “Make hay while the sun shines.”
اس نے بہت عجیب سے لہجہ میں کہا تھا۔ علیزہ نے کچھ چونک کر اسے دیکھا وہ اب بھی بول رہا تھا۔
”یہاں سب کچھ بہت خراب ہے، جو سو روپے کی کرپشن کر سکتا ہے وہ سو روپے کی کرپشن کرتا ہے، اور جو دو روپے کی کرپشن کر سکتا ہے وہ دو روپے کی کرپشن کرتا ہے، لیکن ان سب چیزوں سے آپ بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ ایک روپے کی چیز دس میں خرید کر کم از کم یہ تو پتہ چل جاتا ہے کہ دوسرا اپنے فائدہ کے لئے کسی حد تک جا سکتا ہے۔”
وہ پہلی بار اس طرح باتیں کر رہا تھا۔ ورنہ پہلے علیزہ نے ہمیشہ اسے صرف ٹوٹی سڑکوں اور ٹریفک جام کے بارے میں بولتے سنا تھا۔
”تم جوائن کرو گے نا سول سروس ، تو پھر تم چینج لانا، ان چیزوں میں جن پر تمہیں اعتراض ہے۔”
نانو نے اس سے کہا تھا۔
وہ یک دم کھلکھلا کر ہنسنے لگا۔
”آپ بھی بہت عجیب باتیں کرتی ہیں ، گرینی!
”آپ کا کیا خیال ہے کہ میں سول سروس یہ سب ٹھیک کرنے کے لئے جوائن کر رہا ہوں۔ مجھے سوشل ورک کا کوئی شوق نہیں ہے، اور ویسے بھی ایک آدمی کوئی تبدیلی نہیں لاسکتا۔ میں بدلنا چاہوں بھی تو نہیں بدل سکتا۔ یہاں ہر چیز اتنی Rotten (خستہ) اور Rusted(پھپھوندی زدہ) ہے کہ جب تک اگر آپ ایک چیز ٹھیک کریں گے تو پہلے والی اس حالت میں آجاتی ہے۔ ویسے گرینی ! آپ نے کبھی اپنے بیٹوں کوکیوں نہیں کہا۔ آپ کے تو سارے بیٹے سول سروس میں ہیں۔ میری جنریشن کے لئے ریفارم کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ مگر مجھ سے پہلے کی جنریشن یہ کام آسانی سے کر سکتی تھی۔ تب لوگ اتنے بگڑے ہوئے نہیں تھے،انہیں کنٹرول کرنا بہت آسان تھا۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!