وہ اب سنجیدہ ہو گیا تھا۔
”جب تمہارے پاپا اور انکلز نے سول سروس جوائن کی تھی تو میں نے انہیں بھی بہت سی نصیحتیں کی تھیں۔ صرف میں نے ہی نہیں بلکہ تمہارے دادا نے بھی۔ میں آج تک حیران ہوں کہ وہ چاروں ، ان ساری نصیحتوں کو کیسے بھول گئے۔ مجھے نہیں پتہ ان چاروں کو زندگی میں کیا چاہئے تھا۔ میں نے اور معاذ نے انہیں دنیا کی ہر چیز دی تھی ہمارے پاس وہ سب کچھ تھا جو ایک خوشحال زندگی گزارنے کے لئے کافی تھا۔ میرا خیال تھا کہ ان چاروں کو ان چیزوں کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر میرا خیال غلط تھا۔ ان چاروں کو اپنی زندگی میں ہر چیز ایک کی تعداد میں نہیں بلکہ درجنوں کی تعداد میں چاہئے تھی۔ جب ذہن میں یہ سب کچھ ہو تو نصیحت الٹا اثر کرتی ہے۔ ان کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے ۔ میں نے جتنا انہیں سمجھانے کی کوشش کی ، وہ ……!”
عمر نے ان کی بات سنتے سنتے بات کاٹی۔
”اس سے ایک بات تو ثابت ہو جاتی ہے کہ گرینی! آپ کی باتوں میں اثر نہیں تھا یا پھر شاید آپ کے سمجھانے کا طریقہ غلط تھا۔ وجہ جو بھی ہو ، بہرحال اب تو سب کچھ جیسا ہو رہا ہے ہونے دیں۔ چیزوں کو اب بدلنا ناممکن ہے اور ناممکن کام کرنے کے لئے جن لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے ویسے لوگ ہماری قوم میں نہیں ہیں۔ میں تو فارن سروس جوائن کرنے کے بعد ڈیڈی کی طرح عیش کرنا چاہتا ہوں، ویسی زندگی گزارنا چاہتا ہوں جیسی وہ گزار رہے ہیں۔ دیکھیں، بات کہاں سے کہاں چلی گئی،میں آپ سے پلانٹس کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔”
اس نے بات کا موضوع بدل دیا تھا۔ علیزہ بڑی بے زاری سے یہ ساری گفتگو سن رہی تھی۔
”میں ذرا ان پلانٹس کولگوا لوں۔ گرینی! آپ چلیں گی میرے ساتھ باہر لان میں؟”
اس نے دادو کو انوائٹ کیاتھا۔
”نہیں بھئی مجھے باہر نہیں جانا۔ کچھ کام کرنے ہیں مجھے، تم خود ہی مالی کے ساتھ جا کر یہ پلانٹس لگوا لو۔”
نانو نے اس سے کہا۔
”میں اس لئے آپ کو ساتھ لے جانا چاہتا تھا تا کہ آپ لان میں جگہ سیلیکٹ کر لیں، ان پلانٹس کے لئے بعد میں آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو کہ میں نے غلط جگہ پر پلانٹس کیوں لگوا دیئے ہیں۔
”نہیں ! مالی اچھا ہے ، وہ تمہیں بتا دے گا کہ یہ کہاں ٹھیک لگ رہے ہیں اور کہاں نہیں۔ تمہیں اس بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ ویسے بھی تم جہاں بھی پلانٹس لگواؤ گے مجھے برا نہیں لگے گا کیونکہ وہ تمہارے لگوائے ہوئے پلانٹس ہوں گے۔”
عمر نے نانو کی بات پر مسکرا کر انہیں دیکھاتھا۔ علیزہ نے نانو کی آنکھوں کی چمک کو کچھ اور گہرا ہوتے دیکھا اسے ان دونوں کی مسکراہٹیں بری لگی تھیں۔
”چلو علیزہ ! ہم دونوں پلانٹس لگواتے ہیں۔”
عمر نے کھڑے ہوتے ہوئے اسے آفر کی تھی۔
”میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا ہے،کہ مجھے گارڈننگ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پھر آپ مجھے ساتھ لے جاکر کیا کریں گے۔”
علیزہ نے سنجیدگی سے اسے کہا تھا۔
”تم آؤ تو، دلچسپی بھی پیدا ہو ہی جائے گی۔ میں اسی لئے تو تمہیں ساتھ لے کر جا رہا ہوں۔”
عمر نے بڑے ہشاش بشاش لہجہ میں اس سے کہا تھا۔
”نہیں میں نے آپ سے کہا ۔۔۔۔۔”
علیزہ نے ایک بار پھر کچھ کہنے کی کوشش کی تھی مگر نانو نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔
”کم آن علیزہ ! جب وہ بار بار تم سے کہہ رہا ہے تو اتنا نخرہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ چلی جاؤ اس کے ساتھ۔”
علیزہ نے نانو کے چہرے کو دیکھا تھا،وہاں ناگواری کے تاثرات نمایاں تھے۔ وہ خاموشی سے کھڑی ہو گئی۔ عمر ملازم کو پودے اٹھانے کے لئے کہہ رہا تھا۔ وہ بجھے دل کے ساتھ باہر لان میں آ گئی تھی۔ کچھ دیر بعد عمر بھی لان میں نکل آیا تھا۔ وہ بے مقصد لان میں چکر لگانے لگی تھی۔
عمر مالی کے ساتھ مل کر لان میں پودے لگوا رہا تھاگاہے بگاہے وہ علیزہ سے بھی رائے لے لیتا۔ وہ ہوں ہاں میں جواب دے کر اس کے پاس سے ہٹ جاتی۔ وہ مالی سے پودے لگواتے ہوئے خاصے غور سے اس کے چکروں کو دیکھتا اور کچھ اندازہ لگانے کی کوشش کرتا رہا۔
تقریباً ایک گھنٹے میں مالی نے سارے پودے لگا دئیے تھے۔ عمر نے واپس اندر جانے کی بجائے اپنے کمرے میں رکھے ہوئے ان ڈور پلانٹس بھی باہر ہی منگوالئے تھے۔ علیزہ نے بے زاری سے ملازم کو انڈور پلانٹس کوباہر لاتے دیکھا۔
”ان پلانٹس کی کٹنگ وغیرہ کر دیتے ہیں۔ پھر کل تک انہیں یہیں لان میں ہی رہنے دوں گا۔ تا کہ انہیں کچھ روشنی وغیرہ مل جائے۔ لو علیزہ ! تم بھی ان پلانٹس کو prune کرنا (تراشنا) شروع کر دو کام جلدی ختم ہو جائے گا۔”
اس نے علیزہ کو پاس بلا کر اسے ایک قینچی تھما دی تھی۔ وہ بے دلی سے پودوں کی کٹنگ کرنے لگی۔ عمر بڑی دلجمعی اور مہارت سے پودوں کی تراش خراش کر رہا تھا۔ ساتھ ساتھ وہ ہر پودے کے باے میں بھی اسے کچھ نہ کچھ بتا رہا تھا۔ وہ گارڈینیا کی کٹنگ کر رہی تھی کہ اس نے عمر کو کہتے ہوئے سنا۔
”یہ میرا سب سے فیورٹ پلانٹ ہے۔”
وہ ہاتھ روک کر اسے دیکھنے لگی تھی۔ وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ وہ اس پلانٹ کو دیکھ رہا تھا۔
”مجھے زندگی میں بہت زیادہ چیزوں میں دلچسپی نہیں ہے ، مگر جن چیزوں میں ہے ان سے بہت دلچسپی ہے۔ یہ سارے پلانٹس بھی ان ہی چیزوں میں شامل ہیں۔ پتہ ہے علیزہ! یہ پلانٹس بعض دفعہ مجھے اپنے فرینڈز کی طرح لگتے ہیں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے یہ میری آواز سنتے ہیں،شاید جواب بھی دیتے ہیں ، میں بہت چھوٹا تھا جب مجھے ان ڈور پلانٹس لگانے کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ شاید میں سات یا آٹھ سال کا تھا جب اپنے ہاتھوں سے ایک پلانٹ لگا یا تھا بعد میں تو جیسے عادت سی ہو گئی۔ یہ کمرے میں ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کمرے میں کوئی اور زندہ چیز موجود ہے، جو سانس بھی لیتی ہے ، اور شاید میرے وجود کو بھی محسوس کر لیتی ہے۔”
علیزہ کو اس وقت یوں لگا جیسے اس کا دماغ خراب ہے۔ اس نے کچھ دیر حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھا تھا۔
”تم سوچ رہی ہو گی میرا دماغ خراب ہو گیا ہے۔”