Blog

MZZB Cover

میری ذات ذرّہ بے نِشاں ۔ عمیرہ احمد



”کیا میں عارفین عباس سے مل سکتی ہوں؟”
بیل بجانے پر ایک لمبا تڑنگا چوکیدار نمودار ہوا تھا اور اس نے کچھ جھجکتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
”آپ کون ہیں اور کیوں ملنا چاہتی ہیں ان سے؟”
چوکیدار نے عقابی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے جوابی سوال کیا۔ وہ چند لمحوں کے لیے کچھ بول نہ پائی۔ اس کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ کچھ بوکھلا کر اس نے چوکیدار کو دیکھا تھا اور پھر پتا نہیں کیا خیال آنے پر پرس میں سے وہ خط نکال لیا جو اس کی ما نے اسے دیا تھا۔
”یہ آپ ان کو دے دیں پھر وہ شاید مجھ سے ملنا چاہیں گے۔”
اس نے خط چوکیدار کی طرف بڑھا دیا۔ وہ کچھ دیر خط ہاتھ میں لیے اس کا چہرہ دیکھتا رہا پھر شاید اسے اس پر ترس آ گیا تھا۔ گیٹ بند کر کے وہ اندر چلا گیا تھا وہ وہیں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑی ہو گئی تھی۔ پانچ دن پہلے وہ خود بھی عارفین عباس نامی کسی شخص کو نہیں جانتی تھی۔ وہ اب بھی صرف اس کے نام ہی سے آشنا تھی۔
عارفین عباس کون ہے؟ امی سے اس کا کیا رشتہ ہے؟ وہ اس کی کیا مدد کرے گا؟ ان سوالوں کے جواب ابھی اس کے پاس نہیں تھے اور نہ ہی اس نے ان سوالوں کے جواب پانچ دن پہلے امی سے لینے کی کوشش کی تھی جب انھوں نے اپنی زندگی کی آخری رات کو فرنچ میں لکھا ہوا وہ مختصر خط اور ایک پتا اس کے حوالے کیا تھا۔
”اگر میں مر گئی تو اس کے پاس چلی جانا، یہاں اکیلے مت رہنا۔”
کئی دنوں کے بعد یہ پہلا اور آخری جملہ تھا جو ان کے منہ سے ادا ہوا تھا۔ انھوں نے پھر آنکھیں بند کر کے چہرہ ڈھانپ لیا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ اب زیادہ دن زندہ نہیں رہیں گی لیکن یہ نہیں جانتی تھی کہ اس رات کے بعد وہ دوبارہ انھیں زندہ نہیں دیکھ سکے گی۔ وہ کچھ دیر حلق میں اٹکے ہوئے سانس کے ساتھ انھیں دیکھتی رہی تھی۔ پھر پتا نہیں اسے کیا ہوا، وہ کنگھی اٹھا کر ماں کے پاس آ گئی۔




”امی! میں آپ کے بال بنا دوں؟” اس نے گھٹنوں کے بل چارپائی کے پاس بیٹھ کر بڑی بے قراری سے پوچھا تھا۔ آنکھیں کھل گئی تھیں۔ کچھ دیر تک اس پر نظر مرکوز رکھنے کے بعد اس کمزور وجود میں حرکت ہوئی تھی۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی تھیں۔ یہ اثباتی جواب تھا۔ وہ چارپائی پر ان کے پیچھے بیٹھ گئی اور ڈبڈبائی آنکھوں سے ان کے بکھرے بالوں کو سمیٹنے لگی۔ پتا نہیں کیوں لیکن اس کا دل بار بار بھر آ رہا تھا۔ بال سنوارنے کے بعد وہ پیچھے سے اٹھ کر ماں کے سامنے آ گئی تھی۔
“دودھ گرم کر دوں؟” اس نے پھر سے پوچھا تھا۔ جی چاہتا تھا۔ آج تو وہ باتیں کریں۔ اپنے وجود پر چھائی ہوئی خاموشی کا وہ حصار توڑ دیں جس نے کبھی اسے ان کے قریب نہیں ہونے دیا۔
”نہیں۔ اس کی ضرورت نہیں۔”
وہ اس پر نظریں جمائے دھیرے سے بولی تھیں پھر بڑی آہستگی سے انھوں نے اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے حصار میں لیا اور اس کا ماتھا چوم لیا۔ وہ ہکّا بکّا رہ گئی تھی اسے نہیں یاد تھا کہ کبھی انھوں نے اس کا ماتھا چوما ہو۔ آج کیا خاص بات تھی۔ ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی اور ان کے چہرے کی زردی بھی اس چمک کو ماند کرنے میں ناکام رہ رہی تھی۔ چند لمحوں کے ایک لمس نے اس کے دل میں سے پچھلے کئی برسوں کے گلے شکوے، کدورتیں، ناراضگیاں ختم کر دی تھیں۔
”آپ لیٹ جائیں۔” اچانک اسے خیال آیا تھا کہ وہ بیمار ہیں۔ وہ اسی خاموشی سے لیٹ گئی تھیں۔ رات کو سونے سے پہلے اس نے بہت دیر تک اپنا ہاتھ ماتھے پر رکھے رکھا تھا۔ دوسری صبح اس نے ناشتے کے لیے انھیں اٹھانا چاہا تب اسے احساس ہوا کہ وہ زندہ نہیں ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!