Blog

MZZB Cover

وہ اس دن صبح سے ہی پریشان تھی۔ ”اگر امی اپنی مرضی سے شادی نہ کرتیں تو آج میں امی کے رشتہ داروں کا سامنا کرنے سے اس قدر پریشان نہ ہوتی۔”




وہ بار بار بے دلی سے سوچ رہی تھی۔ قرآن خوانی سہ پہر کے وقت تھی اور چونکہ چھٹی کا دن تھا۔ اس لیے حیدر بھی گھر ہی تھا۔ مردوں کے بیٹھنے کا انتظام لان میں ٹینٹ لگا کر کیا گیا تھا۔ سارہ کو ملازموں کو کوئی ہدایت نہیں دینی پڑ رہی تھی۔ وہ کسی مشین کی طرح خود ہی ہر کام نبٹا رہے تھے۔ لوگوں کے آنے کا سلسلہ آہستہ آہستہ شروع ہو گیا تھا۔ عارفین آنے والوں کا اس سے تعارف کروا رہے تھے۔ ہر ایک رسمی سے کلمات دہراتا اور ہال میں بیٹھ جاتا۔
”سارہ! یہ میری سب سے بڑی بہن ہیں۔”
عارفین ایک عورت کے ساتھ اس کے پاس آئے تھے۔ وہ عورت یکدم سارہ سے لپٹ گئی اور اس نے بلند آواز میں رونا شروع کر دیا۔
”صبا نے ضد پوری کر لی۔ کتنا سمجھایا تھا۔ کتنا کہا تھا اسے مگر اس نے بات نہیں مانی، واپس نہیں آئی۔ ارے غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے پھر وہ تو…”
”آپا! پچھلی باتوں کو چھوڑیں۔ ماضی کو رہنے دیں۔”
”کیسے رہنے دوں عارفین! کیسے رہنے دوں۔ مجھے صبر نہیں آتا۔ مجھے سکون نہیں ملتا۔ کوئی ایسے کرتا ہے جیسے صبا نے کیا۔ یہ کوئی اس کے مرنے کی عمر تھی۔ مگر اس پر تو ایک ہی ضد…”
”آپا پچھلی باتیں نہ دہرائیں۔ بس کریں جو ہو گیا۔ اسے بھول جائیں۔ اس کے لیے دعا کریں۔”
عارفین نے زبردستی انھیں سارہ سے الگ کیا تھا۔ عارفین انھیں لے کر ہال سے باہر چلے گئے۔ وہ بوجھل دل سے وہیں دوسری عورتوں کے پاس بیٹھ گئی۔
”اور اب وہ آپا کو سمجھائیں گے کہ وہ میرے سامنے میری ماں کے ماضی کے بارے میں کوئی بات نہ کریں کیونکہ اس سے مجھے تکلیف ہو گی۔ کاش یہ بات ایک بار امی نے بھی سوچ لی ہوتی کہ اس طرح کے رشتے اولاد کے لیے کتنا بڑا عذاب بن جاتے ہیں۔”
آیت کریمہ کا ورد کرتے ہوئے وہ سر جھکائے بھیگی پلکوں کے ساتھ مسلسل امی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد عارفین کی دوسری دونوں بہنیں بھی آ گئی تھیں مگر بڑی بہن کی نسبت وہ سارہ سے بہت محتاط اور نارمل انداز میں ملی تھیں۔ ان کے آنے کے چند منٹ بعد عارفین کی بڑی بہن دوبارہ ہال میں آ گئی تھیں۔ وہ اب بھی نڈھال نظر آ رہی تھیں۔ مگر پہلے کی طرح رو نہیں رہی تھیں۔ وہ آ کر سارہ کے پاس بیٹھ گئی تھیں۔
آیت کریمہ کا ورد کرنے اور قرآن خوانی کے بعد دعا کروانے والی عورت نے دعا کرنی شروع کر دی تھی۔ وہ مختلف آیات کو ترجمے کے ساتھ پڑھتی جا رہی تھی۔
”اس روز لوگ متفرق حالت میں پلٹیں گے تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی۔ وہ اس کو دیکھ لے گا۔”
دعا کرانے والی عورت نے ایک آیت کا ترجمہ کیا تھا۔ آپا ایک بار پھر بلک بلک کر رونے لگی تھیں۔ سارہ کا دل چاہا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔ اسے یوں لگ رہا تھا۔ اس کا سر دوبارہ کبھی اٹھ نہیں پائے گا۔ ضبط کرنے کے باوجود اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے تھے۔




”اللہ تم امی کو بخش دینا۔ تم ان کو معاف کر دینا جیسے ان سب لوگوں نے کیا ہے۔”
بے اختیار اس کے دل سے دعا نکلی تھی۔ کھانا کھانے کے بعد آہستہ آہستہ سب لوگ جانے لگے تھے ایک بار پھر وہی تعزیتی کلمات سنتی لوگوں کو جاتا دیکھتی رہی۔ آپا بھی اسے اپنے یہاں آنے کی دعوت دے کر چلی گئی تھیں۔ ملازموں نے چیزیں سمیٹنا شروع کر دیں۔ باہر عارفین عباس اور حیدر لوگوں کو رخصت کر رہے تھے۔ لوگوں کے جانے کے بعد دونوں اندر آ گئے۔
”سارہ! تم اگر آرام کرنا چاہتی ہو تو آرام کر سکتی ہو۔”
اس کی متورم آنکھیں دیکھ کر عارفین عباس نے اس سے کہا تھا۔ وہ اپنے کمرے میں چلی آئی۔ اس رات وہ سو نہیں پائی۔ امی کا چہرہ بار بار اس کی نظروں کے سامنے آ جاتا پھر اسے ان کے ساتھ گزارا ہوا وقت یاد آ جاتا۔
وہ بے حد بے چین تھی۔ ایک بجے کے قریب وہ لان کی طرف کھلنے والا دروازہ کھول کر لان میں نکل آئی۔ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ بیرونی دیوار پر لگائی ہوئی فلڈ لائٹس نے لان کی تاریکی کو ختم کر دیا تھا۔ ٹھنڈک ہونے کے باوجود اسے باہر آ کر سکون ملا تھا۔ گھاس اوس سے بھری ہوئی تھی۔ پائوں میں چپل کے باوجود گھاس پر چلنے کی وجہ سے اس کے پائوں اوس سے گیلے ہو رہے تھے مگر اس کو ان کی پروا نہیں تھی۔ وہ چادر کو اپنے گرد لپیٹے بلا مقصد لان کے طول و عرض کو ناپتی رہی۔
حیدر نے دو بجے اپنا کام ختم کیا تھا، لائٹ آف کرنے سے پہلے وہ کھڑکیوں کے پردے برابر کرنے کے لیے کھڑکی کی طرف آیا تھا۔ مگر نیچے لان میں نظر ڈالتے ہی اس کے ہاتھ پردہ کھینچتے ہوئے رک گئے تھے۔ لان میں کوئی چکر لگا رہا تھا۔ اس نے غور سے نیچے دیکھا تھا اور دوسری نظر ڈالتے ہی جان گیا تھا کہ چکر لگانے والا کون ہے۔ ناگواری کی ایک لہر سی اس کے اندر اٹھی تھی۔ وہ خود بھی نیچے آیا تھا اور پورچ کا دروازہ کھول کر باہر لان میں آ گیا تھا۔
”دیکھیں! اس وقت رات کے دو بجے ہیں اور آپ اپنے کمرے کا دروازہ کھلا چھوڑ کر یہاں لان میں پھر رہی ہیں۔ کوئی بھی جو اس لان میں کسی غلط نیت سے چھپا ہو۔ وہ آرام سے آپ کی بے خبری میں آپ کے کمرے اور پھر وہاں سے گھر میں کہیں بھی جا سکتا ہے۔ میں نہیں جانتا آپ کو یہ گھر، اس میں رہنے والے کتنے عزیز ہیں لیکن میرے پاپا نے اس گھر کی ہر چیز بڑی محنت سے بنائی ہے۔ اس لیے مجھے اس گھر کی سیکورٹی کی پروا ہے۔ گھر کے گیٹ پر کھڑا چوکیدار باہر کی حفاظت کر سکتا ہے۔ اندر آ کر کسی کو نہیں بچا سکتا۔ اس لیے اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو لان میں پھرنے کا شوق دن کے وقت پورا کیا کریں۔”
سارہ اپنے قریب ابھرنے والی اس کی آواز پر چونکی تھی اور پھر ہونق بنی اس کی باتیں سنتی رہی۔ اس کی بات کے خاتمہ پر کچھ شرمندگی کے عالم میں وہ اپنے کمرے کی طرف چلی گئی تھی۔ حیدر وہیں کھڑا اسے جاتا دیکھتا رہا۔ جب اس نے اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر لیا تو وہ خود بھی اندر چلا گیا۔
…ظ…
اگلے دن صبح وہ ناشتہ کی میز پر موجود نہیں تھی۔ عارفین نے ملازم کو اسے جگانے سے منع کر دیا۔ عارفین اور حیدر سے اس کا سامنا رات کے کھانے پر ہوا تھا۔
”عارفین انکل! کیا آپ میرے نانا سے میرا رابطہ کروا سکتے ہیں؟”
حیدر چائے پیتے پیتے رک گیا اور عارفین عباس نے بے حد حیرانی سے اسے دیکھا۔
”تم ان سے رابطہ کیوں کرنا چاہتی ہو؟” عارفین نے کچھ بے چینی سے اس سے پوچھا تھا۔
”میں ان کے پاس جانا چاہتی ہوں اگر وہ مان گئے تو۔” وہ اب میز کی سطح کو گھورنے لگی تھی۔
”ان کے پاس جانا چاہتی ہو؟ کیا تم یہاں خوش نہیں ہو؟” عارفین نے کچھ بے یقینی سے کہا تھا۔
وہ چپ رہی تھی۔
”سارہ! تمہاری امی چاہتی تھیں کہ تم میرے پاس رہو اور میں تمھیں ان کے گھر والوں کے پاس نہ بھیجوں۔”
”وہ ایسا کیوں چاہتی تھیں؟” اس نے یک دم سر اٹھا کر سوال کیا تھا۔ عارفین کوئی جواب نہیں دے سکے۔ حیدر خاموشی سے چائے کے سپ لیتا ہوا دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سن رہا تھا۔
”یہ صبا ہی بہتر جانتی ہوگی۔ بہرحال ان کے پاس جانے کا تمھیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔”
کچھ دیر بعد انھوں نے ایک گہری سانس لے کر کہا تھا۔




”پاپا! اگر یہ اپنے نانا کے پاس جانا چاہتی ہیں تو آپ انھیں جانے دیں۔ یہ واقعی ان کے حق میں بہتر ہوگا۔” یکدم حیدر نے فرنچ میں اپنے باپ سے کہا تھا۔
”تم اسے کیوں بھیجنا چاہتے ہو؟” عارفین نے بڑے تیکھے لہجے میں اس سے پوچھا تھا۔ وہ کچھ گڑبڑا گیا۔
”نہیں۔ میں کیوں بھیجنا چاہوں گا۔ میں تو ویسے ہی آپ کو اپنی رائے دے رہا تھا۔ پاپا! میرا اپنا بھی یہی خیال ہے کہ یہ اپنے نانا اور ماموں کے پاس زیادہ محفوظ رہیں گی، کیونکہ یہاں یہ ساری عمر تو نہیں رہ سکتیں اور پھر ہم انھیں کتنی دیر رکھیں گے۔” دھیمے لہجے میں سنجیدگی سے کہا گیا تھا۔
”حیدر! یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔ اسے کب تک یہاں رہنا ہے۔ اس کا دار و مدار اس پر ہے۔ چاہے وہ ساری عمر رہے۔ تمھیں اس کے بارے میں اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔”
عارفین عباس نے بے حد خشک لہجے میں اس سے کہا تھا۔ حیدر دوبارہ بولنے کی ہمت نہیں کر سکا۔ وہ بے حد خاموشی سے ناشتہ کرتے ان کی باتیں سنتی رہی۔ اسے پہلے ہی دن یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ حیدر کو اس کا یہاں آنا اچھا نہیں لگا اور اس وقت اس کی باتوں نے اس کے اندازے کی تصدیق کر دی تھی۔
اس کا دل مزید بوجھل ہو گیا۔ بار بار اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ وہاں سے بھاگ جائے۔ اس طرح بوجھ بن کر رہنا اس کے لیے یکدم دشوار ہو گیا تھا۔
”کسی کو بھی خوامخواہ کی ذمہ داری اور خرچ اچھا نہیں لگتا، حیدر نے بالکل ٹھیک کہا تھا کہ وہ مجھے کتنی دیر یہاں رکھ سکتے ہیں اور حیدر میرے بارے میں عزت سے کیسے سوچ سکتا ہے، جب وہ جانتا ہے کہ اس کا باپ کسی زمانے میں میری ماں کو پسند کرتا تھا اور اب بھی کرتا ہے اور اب اس عورت کی بیٹی ایک بوجھ بن کر ان کے گھر آ گئی ہے۔”
وہ دل ہی دل میں حیدر کو حق بجانب سمجھ رہی تھی اور وہ جانتی تھی وہ اس کے بارے میں کیا سوچتا ہوگا۔
”اگر میں اپنے نانا کے پاس نہیں جا سکتی تو پھر مجھے کسی نہ کسی طرح اس گھر سے بھی چلے جانا چاہیے۔ میں واقعی یہاں بہت زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتی۔”
اس نے ناشتہ کرتے ہوئے دل ہی دل میں طے کر لیا تھا۔
…ظ…

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!