Blog

MZZB Cover

سرمد کی شادی کا ہنگامہ شروع ہو گیا تھا۔ تقریباً ایک ماہ پہلے سے ڈھولک رکھ دی گئی تھی، رات گئے تک ایک طوفان بدتمیزی برپا رہتا۔ اسے ایسی محفلوں سے شروع سے ہی کوئی دلچسپی نہیں تھی اور اگر وہ ان کے پاس جا کر بیٹھتی بھی تو بہت مختصر وقت کے لیے۔ اس رات بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ رات کے وقت جب ڈھولک بجنا شروع ہوتی تو ان کے گھر تک آواز آتی۔ وہ پڑھتے پڑھتے بعض دفعہ جھنجلا جاتی لیکن وہ کسی کو روک نہیں سکتی تھی۔ نہ ہی اس کا ایسا کوئی ارادہ تھا۔
شادی سے تین چار دن پہلے اس کے چھوٹے تایا کی بیٹیاں زبردستی اسے اپنے حصے میں لے آئی تھیں وہ ان کے اصرار کی وجہ سے انکار نہیں کر سکی پھر اب شادی میں چند دن رہ گئے تھے اور یہ سارا ہنگامہ ختم ہو ہی جانا تھا، باقی کزنز کے ساتھ بیٹھی وہ بھی تالیاں بجاتی اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بعد واپس آ جاتی۔
اس رات بھی وہ ابھی اپنے کمرے میں آ کر بیٹھی ہی تھی کہ عارفین کی امی آ گئیں۔
”صبا! تم ذرا میرے ساتھ آئو۔ اصل میں تمھارے تایا ابو نے کہا ہے کہ اوپر عارفین کے کمرے میں کچھ بستر لگا دوں کیونکہ کچھ دیر میں کچھ اور لوگ آنے والے ہیں۔ عورتوں کے رہنے کا انتظام تو خالد نے اپنے ہاں کر لیا ہے مگر مردوں کے لیے ان کے ہاں جگہ نہیں رہی۔ اس لیے تمھارے تایا نے انھیں اپنے ہاں ٹھہرانے کو کہہ دیا ہے۔ نیچے تو تمھیں پتا ہے پہلے ہی جگہ نہیں ہے، ویسے بھی کل نجمہ اور سلمی بھی سرمد کی شادی میں شرکت کے لیے اپنے بچوں کے ساتھ آ جائیں گے۔ اس لیے میں نے سوچا، عارفین کے کمرے میں بستر لگا دوں۔ وہ تو ابھی اسلام آباد سے آیا نہیں ہے۔”



”ٹھیک ہے تائی امی! میں آپ کے ساتھ چلتی ہوں۔”
اس نے کچھ خوشگوار حیرت سے اٹھتے ہوئے کہا تھا، پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ تائی نے اتنی اپنائیت سے اس سے بات کی تھی۔ ورنہ وہ تو ہمیشہ لعن طعن ہی کرتی رہتی تھیں۔ تائی ا سے اپنے حصہ میں لے آئی تھیں۔ اسٹور میں جا کر جب تائی بستر نکالنے لگیں تو انھیں اچانک کوئی خیال آ گیا تھا۔
”صبا! مجھے تو یاد ہی نہیں رہا میں نے آسیہ سے کہا تھا کہ عارفین کے کمرے میں بستر لگا دو۔ مجھے لگتا ہے کہ شاید اس نے بستر لگا دیے ہیں کیونکہ یہاں بستر کم ہیں۔ تم ایسا کرو، ذرا عارفین کے کمرے میں جا کر دیکھ آئو کہ وہاں بستر لگے ہیں یا نہیں، خواہ مخواہ بستر اٹھا کر اوپر جاتی آتی رہو گی۔”
”ٹھیک ہے تائی امی! میں دیکھ آتی ہوں۔” اس نے تابعداری سے کہا تھا اور اوپر چلی آئی۔ عارفین کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا اور اندر لائٹ بند تھی لیکن ہلکی ہلکی روشنی باہر آ رہی تھی۔ وہ کچھ ٹھٹک کر رک گئی۔
”اندر کون ہے؟” اس نے وہیں سے آواز لگائی تھی۔
”صبا! میں ہوں اندر۔ عارفین کے کمرے کے بلب ہولڈر میں کچھ خرابی ہو گئی تھی۔ میں وہ ٹھیک کر رہا ہوں۔ تائی امی نے کہا تھا مجھ سے۔” اس نے اپنے تایا زاد عادل کی آواز پہچان لی۔ ایک اطمینان بھری سانس لے کر وہ کمرے کے اندر چلی گئی۔ وہ ایک ہاتھ میں لالٹین پکڑے دوسرے ہاتھ سے بلب لگانے کی کوشش کر رہا تھا۔
”میں دیکھنے آئی تھی کہ یہاں کوئی بستر تو نہیں لگے مگر یہاں پر تو کوئی بستر نہیں ہیں۔” اس نے نیم روشنی میں کمرے کا جائزہ لیا تھا۔
”اچھا اب اگر آ ہی گئی ہو تو یہ ذرا لالٹین…” عادل کے الفاظ منہ میں رہ گئے تھے۔ کسی نے باہر سے دروازہ کھینچ کے بند کر دیا تھا۔ عادل یکدم کود کر اسٹول سے نیچے اترا۔
”یہ کیا ہوا ہے؟” وہ حواس باختہ سا دروازے کی طرف گیا تھا۔ اس نے دروازہ پکڑ کر کھینچا تھا مگر دروازہ ہلا تک نہیں۔
”صبا! کسی نے باہر سے کنڈی لگا دی ہے۔” اس نے پریشانی کے عالم میں ا س سے کہا تھا۔
”میں دروازہ بجاتی ہوں۔ تائی امی نیچے ہی ہیں۔ وہ کھول دیں گی۔”
صبا، عادل کے برعکس بالکل نہیں گھبرائی تھی۔ اس نے دروازے کو زور زور سے بجانا شروع کر دیا۔ مگر ایک دو منٹ گزرنے کے بعد بھی کسی نے دروازہ نہیں کھولا۔ عادل کی گھبراہٹ بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ ہولڈر میں بلب لگانا بھول چکا تھا۔
چند منٹ مزید دروازہ بجانے کے باوجود جب کوئی اوپر نہیں آیا تو یکدم وہ بھی حواس باختہ ہو گئی تھی۔ دونوں کو اس نازک صورت حال کا احساس تھا جس کا وہ سامنا کر رہے تھے۔ پھر یکدم ہی نیچے سے شور کی آواز آنے لگی تھی۔ صبا دروازہ بجاتے بجاتے رک گئی۔
شور کچھ عجیب سا تھا یوں جیسے کوئی بین کر رہا تھا۔ صبا نے کچھ خوفزدہ ہو کر عادل کو دیکھا تھا۔ لالٹین کی ہلکی روشنی بھی اس کے چہرے کی زردی کو نمایاں ہونے سے نہیں بچا سکی۔ آوازیں اب اوپر کی طرف آ رہی تھیں۔ صبا نے تائی امی کی آواز پہچان لی۔ وہ اونچی آواز میں رو رہی تھیں اور ساتھ کچھ کہتی جا رہی تھیں۔ پھر کچھ لوگ تیز قدموں سے سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ وہ دونوں دم سادھے زرد رنگت کے ساتھ دروازہ بجانے کے بجائے ایک دوسرے کے چہرے دیکھتے رہے۔ تائی امی جو کہہ رہی تھیں۔ وہ دونوں نے سن لیا تھا۔ وہ جانتے تھے، اب اگر وہ دروازہ نہ بھی بجائیں تو بھی دروازہ کھل جائے گا۔
…ظ…

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!