Blog

MZZB Cover

ہر روز وہ اخبار لے کر بیٹھ جاتی اور ایک ایک اشتہار پڑھ ڈالتی۔ ہر وہ ملازمت جو اسے ذرا بھی مناسب لگتی وہ وہاں اپلائی کر ڈالتی۔ پہلی بار اسے احساس ہوا تھا کہ گریجویشن کی عملی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اب ہر جگہ کم از کم ماسٹر زوالے بندے کی ضرورت ہوتی تھی اور اگر کسی جگہ گریجویشن مطلوبہ کوالیفیکیشن ہوتی تو ساتھ فریش گریجویٹ بھی لکھا ہوتا اور سارہ کوگریجویشن کیے چار سال ہو چکے تھے۔ البتہ اسے یہ اطمینان ضرور تھا کہ وہ کسی جاب کے لیے صرف گارنٹی نہ ہونے کی وجہ سے اپلائی نہ کرنے کے مسئلے سے دوچار نہیں تھی۔



اس نے ابھی عارفین عباس کو جاب کی تلاش کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ جاب ملنے کے بعد وہ انھیں بتا دے گی۔ اسے خدشہ تھا کہ اگر اس نے پہلے انھیں اپنی جاب کے بارے میں بتایا تو وہ شاید اسے جاب ڈھونڈنے کی اجازت نہ دیں۔ آہستہ آہستہ اسے انٹرویو کالز ملنے لگیں اور اس نے گھر سے باہر جانا شروع کر دیا۔ عارفین عباس کو ابھی بھی اس نے نہیں بتایا تھا کہ وہ انٹرویوز کے لیے مختلف جگہوں پر جا رہی ہے، بعض دفعہ وہ اس کی غیر موجودگی میں گھر میں فون کرتے تو ملازم ان سے کہہ دیتا کہ سارہ اپنی کسی دوست کے ہاں گئی ہے۔ سارہ ملازم سے یہی کہہ کر جاتی تھی اور پھر جب وہ سارہ سے پوچھتے تو وہ انھیں مطمئن کر دیتی۔
عارفین عباس کو بھی یہ سوچ کر تسلی ہو جاتی کہ وہ رفتہ رفتہ نارمل زندگی کی طرف آ رہی ہے اور اپنے لیے مصروفیت ڈھونڈ رہی ہے۔ سارہ کو گھر سے باہر نکل کر پہلی دفعہ یہ احساس ہو رہا تھا کہ شہر کتنا بڑا ہے اور جاب کا حصول کتنا مشکل ہے۔ اس سے پہلے اسے امی کی وجہ سے بڑی آسانی سے ایک فیکٹری میں جاب مل گئی تھی اور چند اور جگہ جب اپلائی کرنے پر اسے جاب نہیں ملی تھی تو اس نے زیادہ تردد نہیں کیا تھا اور فیکٹری کی جاب کو ہی غنیمت سمجھ لیا تھا مگر اس بار وہ ایک بہتر جاب کی تلاش میں تھی جو اس کے اخراجات پورے کر سکتی۔
سارا دن پیدل دفتروں کے چکر کاٹتے کاٹتے وہ آہستہ آہستہ دل برداشتہ ہو رہی تھی۔ اسے یوں لگنے لگا تھا جیسے پوری دنیا میں اس کے لیے ایک بھی جاب نہیں تھی۔
اس روز رات کے کھانے پر حسب معمول حیدر اور عارفین فرنچ میں باتیں کر رہے تھے اور وہ بڑی بے دلی سے کھانا کھاتے ہوئے ان کی باتیں سن رہی تھی۔ خلاف معمول حیدر دیر تک بیٹھا رہا تھا سب سے پہلے ٹیبل سے عارفین عباس اٹھ کر گئے تھے۔ سارہ بھی کھانا کھا چکی تھی اور عارفین عباس کے اٹھنے کے چند منٹ بعد جب اس نے اٹھنا چاہا تو حیدر نے اسے روک دیا۔
”ایک منٹ سارہ! آپ بیٹھیں۔ مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔”
حیدر نے سویٹ ڈش کھاتے ہوئے اس سے کہا تھا۔ وہ کچھ حیران سی دوبارہ اپنی کرسی پر بیٹھ گئی۔
”آج میں نے آپ کو فیکٹری ایریا میں دیکھا تھا۔ پوچھ سکتا ہوں آپ وہاں کس لیے گئی تھیں؟” پانی کا گلاس ہاتھ میں لیے اس پر نظریں جمائے اس نے پوچھا تھا۔ سارہ کے لیے اس کا سوال خلاف توقع تھا۔ وہ چند لمحے چپ رہی اور پھر اس نے فیصلہ کر لیا تھا۔
”میں فیکٹری ایریا نہیں گئی۔” اس نے بڑے اطمینان سے جھوٹ بولا۔
حیدر اسے حیرانی سے دیکھ کر رہ گیا، شاید اسے سارہ سے اس سفید جھوٹ کی توقع نہیں تھی۔ ”لیکن آپ آج گھر پر نہیں تھیں۔ میں نے ملازم سے پوچھ لیا ہے۔”
”ہاں میں گھر پر نہیں تھی۔ میں اپنی ایک دوست کے پاس گئی ہوئی تھی لیکن میں فیکٹری ایریا نہیں گئی۔”
سارہ کو خود حیرت ہو رہی تھی کہ وہ کتنے اطمینان سے جھوٹ بول رہی ہے۔
”ہو سکتا ہے، مجھے کوئی غلط فہمی ہو گئی ہو بہرحال آئی ایم سوری۔”
حیدر نے جس طرح یہ جملہ ادا کیا تھا اس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ اسے سارہ کی بات پر یقین نہیں آیا اور وہ صرف مروتاً ایکسکیوز کر گیا تھا۔
سارہ اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئی۔ اسے حیدر کی یہ تفتیش اچھی نہیں لگی تھی اور نہ ہی وہ اس سے پریشان ہوئی تھی۔ ہاں چند دن احتیاطاً باہر نہیں گئی۔ گھر پر ہی رہی لیکن چند دن گزر جانے کے بعد ایک بار پھر اس نے جاب کے لیے دوڑ دھوپ شروع کر دی تھی۔



اس دن بھی دو جگہ انٹرویو دینے کے بعد تیسری جگہ جانے کے لیے وہ بس اسٹاپ پر کھڑی تھی جب اچانک ایک گاڑی اس کے پاس آ کر رک گئی۔
”آئیں۔ آپ کو جہاں جانا ہے۔ میں چھوڑ دیتا ہوں۔” ایک مانوس آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تھی۔
”یااللہ! کیا ضروری تھا کہ اس سے میرا سامنا اس آخری انٹرویو سے پہلے ہوتا۔” سارہ نے بے اختیار دل میں کہا تھا۔ بجھے دل سے وہ گاڑی کے پچھلے دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
”سارہ! میں آپ کا ڈرائیور نہیں ہوں۔ آپ آگے آ کر بیٹھیں۔” اس نے فرنٹ ڈور کھول دیا تھا۔ وہ کوئی اعتراض کیے بغیر آگے بیٹھ گئی تھی۔
”کہاں جانا ہے آپ کو؟” حیدر نے گاڑی بڑھاتے ہوئے پوچھا تھا۔
”مجھے گھر جانا ہے۔” اس نے جھوٹ بولا تھا۔ حیدر نے ایک نظر اس کے چہرے پر ڈالی تھی۔
”اگر کہیں اور جانا ہے تو میں وہاں بھی چھوڑ سکتا ہوں۔”
”نہیں مجھے گھر ہی جانا ہے۔”
چند لمحے گاڑی میں خاموشی رہی۔
”آپ سارا دن کہاں پھرتی رہتی ہیں؟ روزانہ کسی دوست کے گھر تو نہیں جایا جا سکتا۔”
حیدر نے اسے دیکھے بغیر اس سے پوچھا تھا سارہ نے یک دم سچ بولنے کا فیصلہ کر لیا۔
”میں جاب کی تلاش کر رہی ہوں۔”
اسے لگا، حیدر پہلے ہی اسی جواب کی توقع کر رہا تھا۔ ”اور اسی لیے اس دن فیکٹری ایریا میں گئیں…”
سارہ نے اس کی بات کاٹنا ضروری سمجھا۔
”نہیں۔ میں اس دن وہاں نہیں گئی تھی۔”
”سارہ! آپ وہاں گئی تھیں۔ مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی تھی۔ میں نے آپ کو جس فیکٹری سے نکلتے دیکھا تھا آپ کے انکار کے بعد وہاں فون کر کے آپ کے بارے میں پوچھ لیا تھا۔ اگر اس دن میرے ساتھ میرا دوست نہ ہوتا تو میں گاڑی روک کر آپ کو پک کر لیتا پھر کم از کم آپ اسے میری غلط فہمی قرار نہ دیتیں۔”
سارہ کو اس کا لہجہ قدرے تلخ لگا۔ وہ کچھ بول نہیں پائی۔
”کوالیفیکشن کیا ہے آپ کی؟” کچھ دیر بعد اس نے پوچھا تھا۔
”گریجویشن۔”
”سبجیکٹس کون سے تھے آپ کے۔”
”اکنامکس اور… اردو۔” فرنچ کہتے کہتے رک گئی اور پھر اس نے فرنچ کے بجائے اردو کہہ دیا۔
”پاپا کو پتا ہے کہ آپ جاب ڈھونڈ رہی ہیں؟” اس نے کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد ایک بار پھر پوچھا تھا۔
”میں انھیں بعد میں بتا دوں گی۔”
اس بار حیدر نے گردن گھما کر اسے دیکھا تھا۔ سارہ کو اس کے چہرے پر کچھ خفگی نظر آئی۔



”دیکھیں سارہ! آپ ہمارے گھر رہتی ہیں اور ہماری ذمہ داری ہیں۔ جو آپ کر رہی ہیں اور جو آپ کرنا چاہتی ہیں۔ پاپا کو اس کے بارے میں پتا ہونا چاہیے۔ بعد میں اگر کوئی پرابلم ہوا تو سارا الزام پاپا پر آئے گا کیونکہ آفٹر آل انھوں نے ہی آپ کو گھر میں رکھا ہے۔ مجھے دوسروں کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے لیکن آئندہ آپ جاب کے لیے گھر سے باہر جائیں تو پاپا کو اس بات کا پتا ہونا چاہیے اور اگر ایسا نہ ہوا تو میں پاپا کو بتا دوں گا۔ مجھے امید ہے آپ میری باتوں پر سنجیدگی سے غور کریں گی۔”
وہ جتنی اچھی فرنچ بولتا تھا۔ اس سے زیادہ شستہ اردو میں بات کرتا تھا مگر اس وقت تو سارہ کو زہر لگ رہا تھا۔ وہ اسے گیٹ پر اتار کر چلا گیا تھا۔ وہ تھکے تھکے قدموں سے اندر چلی آئی۔
…ظ…

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!