دروازہ کھل گیا تھا۔ باہر کھڑے مجمع کو جیسے توقعات کے مطابق ان دونوں کو اندر سے نکلتے دیکھ کر بھی حیرت ہوئی تھی۔
”تائی امی! کسی نے باہر سے…” صبا نے آخری بار صفائی دینے کی کوشش کی تھی۔
”میں نے کیا تھا دروازہ بند تاکہ تم دونوں کے کرتوت سب کو دکھا سکوں۔” تائی امی شیر کی طرح اس پر جھپٹی تھیں۔
”آپ کو کیا ہو گیا ہے؟ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟ آپ ہی نے تو مجھے یہاں بستر دیکھنے کے لیے بھیجا تھا۔” صبا نے یکدم چلا کر کہا تھا۔
”آوارہ، چڑیل! حرافہ! میں نے تمھیں یہاں بستر دیکھنے کے لیے بھیجا تھا؟ میرا دماغ خراب تھا؟ میں یہاں عارفین کے کمرے میں کس کے لیے بستر لگوائوں گی؟ بے غیرت! بے حیا! تمھیں شرم نہیں آئی میرے بیٹے کے کمرے میں منہ کالا کرتے ہوئے؟ ہائے میرا عارفین! اسے کیا پتا تھا، وہ کس بے حیا کو بیاہنے کی بات کر رہا ہے۔”
تائی امی نے دہائی دیتے ہوئے اپنا سینہ پیٹ لیا تھا۔
”آپ جھوٹ بول رہی ہیں تائی امی! آپ تہمت لگا رہی ہیں۔” صبا نے سفید پڑتے چہرے کے ساتھ کہا تھا۔
”ہوش کریں تائی امی! خدا کے لیے ہوش کریں۔ ایسی بات نہ کریں۔ آپ نے تو مجھے بلب ہولڈر ٹھیک کرنے بھیجا تھا۔” عادل نے بھرائی ہوئی آواز میں تائی امی کے آگے ہاتھ جوڑ دیے تھے۔
”میں ہوش کروں؟ میں ہوش کروں؟ تم لوگوں کے کرتوت لوگوں کو نہ بتائوں؟ تم لوگوں کے کارناموں پر پردہ ڈال دوں؟ عارفین تمھیں بھائی کی طرح سمجھتا تھا۔ تم نے بھائی کی پشت میں خنجر گھونپ دیا ہے یا اللہ میں یہ دن دیکھنے سے پہلے مر کیوں نہ گئی۔”
تائی امی نے ہاتھ ملنے اور بلند آواز میں رونا شروع کر دیا۔ صبا نے ایک نظر اپنی امی کی طرف دیکھا جو گم صم ایک طرف کھڑی تھیں۔ اس کی چھوٹی بہن رو رہی تھی۔
”تائی امی! میں نے کچھ نہیں کیا۔ اللہ جانتا ہے کہ میں بے گناہ ہوں۔ میں عارفین کی بیوی ہوں۔ میں اسے دھوکا کیسے…”
تائی امی نے اس کے چہرے پر تھپڑ کھینچ مارا تھا۔ ”نام مت لے بے غیرت! عارفین کا نام مت لے۔ تو عارفین کے لیے مر گئی ہے۔ کیا تیرے جیسی بدکردار کو اس گھر میں لائیں گے؟ ارے جائو جا کر گھر کے مردوں کو بلا کر لائو۔ ان سے کہو، دیکھیں اس گھر پر کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔” تائی امی نے ہاتھ لہرانے شروع کر دیے تھے۔
”خدا کا خوف کریں تائی امی! خدا کا خوف کریں۔” عادل ایک بار پھر ان کے سامنے گڑگڑایا تھا۔
”تم لوگوں کو خدا کا خوف کیوں نہیں آیا؟ میں تو تم دونوں کے ٹکڑے کر کے کتوں کے سامنے ڈلوائوں گی۔ بخشوں گی تو نہیں۔” انھوں نے زہریلے لہجے میں کہا تھا۔ عادل کے دل میں پتا نہیں کیا آئی تھی۔
”تم ایک ذلیل عورت ہو۔ تم نے جان بوجھ کر ہم دونوں کو پھنسایا ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے۔ میں تمھارے ہاتھوں مرنے کے لیے یہاں بیٹھا رہوں گا؟ لیکن تم یاد رکھنا میں جب بھی واپس آئوں گا۔ تمھیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔”
عادل یک دم ادب آداب بالائے طاق رکھتے ہوئے تائی پر دھاڑا تھا اور پھر اس سے پہلے کہ کوئی اسے پکڑنے کی کوشش کرتا، وہ بھاگتا ہوا نیچے چلا گیا تھا۔ تائی امی نے اس کے بھاگنے پر کوئی شور و غوغا بلند نہیں کیا۔
”اگر یہ بے گناہ ہوتا تو یہاں سے بھاگتا کیوں؟ دیکھ لو عالیہ دیکھ لو اپنی بیٹی کے کرتوت۔ تمھیں کتنا سمجھایا تھا کہ اسے روکو۔ تم نے ایک نہیں سنی تھی۔ اب ساری عمر اپنا منہ چھپاتی پھرنا۔”
تائی امی نے صبا کی امی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا جو اب ہچکیوں سے رو رہی تھیں۔ صبا نے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لی۔ ہجوم اس کے اردگرد گھیرا ڈالے کھڑا تھا۔ وہ عادل کی طرح وہاں سے بھاگ نہیں سکتی تھی، وہ بھاگنا چاہتی ہی نہیں تھی۔ جو کچھ ہو رہا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ ہاں اگر کچھ سمجھ میں آ رہا تھا تو وہ سامنے کھڑے لوگوں کی نظریں تھیں جو نیزے کی انی کی طرح اس کے جسم کو چھید رہی تھیں۔ وہ اب انتظار میں تھی کہ تایا اور دوسرے لوگ اوپر آئیں اور وہ انھیں اپنی بات سمجھائے۔ اسے توقع تھی کہ وہ اس کی بات سمجھ لیں گے اور توقع ہمیشہ صرف توقع ہی رہتی ہے۔
عارفین کی بڑی بہن نے نیچے جا کر اپنے باپ کو سب کچھ اسی طرح بتا دیا تھا جس طرح تائی امی کہہ رہی تھیں۔ وہ آگ بگولا ہو کر اوپر آئے تھے۔ تائی نے انھیں دیکھتے ہی اپنے بین اور دہائیوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا تھا۔ صبا کو دیکھتے ہی وہ آپے سے باہر ہو گئے تھے۔ انھوں نے صبا کی بات نہیں سنی۔ کوئی بھی اب اس کی بات نہیں سن رہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا جیسے وہ گونگی ہو گئی ہے یا باقی سب بہرے ہو چکے تھے۔ مغلّظات کا ایک طوفان تھا جو تایا کے منہ سے ابل پڑا تھا۔
”میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔ میں اسے گولی مار دوں گا تاکہ آئندہ ایسی حرکت کرنے کی کسی میں جرأت نہ ہو سکے۔”
انھوں نے یک دم فیصلہ کیا تھا اور لپکتے ہوئے نیچے چلے گئے تائی کو اچانک صورت حال کی سنگینی کا احساس ہوا۔ وہ بھی بھاگتی ہوئی ان کے پیچھے چلی گئیں۔
”بے غیرت! جائو اب اپنے گھر اور کیا تماشا کروانا چاہتی ہو یہاں؟ چاہتی ہو کہ میرا باپ تمھیں مار کر خود پھانسی چڑھ جائے۔ ہمارا گھر تباہ ہو جائے۔ نکلو یہاں سے، دفع ہو جائو یہاں سے۔”
یکدم عارفین کی سب سے بڑی بہن اس کی طرف آئی تھیں اور اس کا بازو کھینچ کر انھوں نے اسے سیڑھیوں کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا۔ اس کا دوپٹہ نیچے گر پڑا۔ آپا نے اسے دوپٹہ اٹھانے کی مہلت نہیں دی۔ وہ ہونٹ کاٹتے آنسوئوں کو ضبط کرتے دوپٹے کے بغیر ہی نیچے اترنے لگی۔
نیچے ہنگامہ برپا تھا۔ تایا ابو اپنا پستول نکال رہے تھے اور تائی اور ان کے دونوں چھوٹے بھائی انھیں پکڑ رہے تھے۔ سرمد کے ابو نے ان سے پستول چھین لیا تھا۔ صبا اندھوں کی طرح چلتی ہوئی باہر صحن میں نکل آئی تھی۔
”میرے لیے تم مر گئی ہو۔ میرے گھر آنے کی ضرورت نہیں ہے، جہاں دل چاہے چلی جائو لیکن اپنے گندے قدم میرے گھر میں مت لانا۔”
صحن میں نکلتے ہی اس نے پیچھے اپنی ماں کی آواز سنی تھی۔ انھوں نے اقصیٰ کا ہاتھ پکڑا تھا اور تقریباً بھاگتے ہوئے اپنے حصے کی طرف چلی گئی تھیں۔ وہ وہیں ساکت ہو گئی۔ کوئی چیز اس کے چہرے کو بھگونے لگی تھی۔
اس کے حصے کے علاوہ باقی ہر حصے کے برآمدوں میں لوگ جمع تھے۔ کچھ کو وہ جانتی تھی کچھ کو نہیں جانتی تھی مگر آج کے بعد ساری عمر اس کا چہرہ انھیں یاد رہنا تھا۔ یک دم اسے کھڑا رہنا دشوار لگنے لگا۔ وہ فرش پر بیٹھ گئی اور اس نے اپنے سر کو گھٹنوں میں چھپا لیا۔ خطرے کے سامنے آنکھیں موند لینا کبوتر کو کیوں اس قدر پسند ہے۔ اسے آج پتا چلا تھا۔ پھر اچانک اسے تایا کی دھاڑ سنائی دی تھی۔ اس نے سر اٹھا کر تایا کے گھر کی طرف دیکھا۔ وہ صحن میں نکل آئے تھے اور اسی کی طرف آ رہے تھے۔ وہ بے اختیار اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”میں ان سے کہوں گی۔ میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ میں انھیں بتائوں گی۔” اس نے سوچا تھا۔ وہ اب بھی اسے گالیاں دے رہے تھے۔ ان کا چہرہ آگ کی طرح سرخ تھا۔
”تایا ابو! میری بات سنیں۔” اس نے ان کے قریب آنے پر بلند آواز سے کہا تھا لیکن وہ بات سننے نہیں آئے تھے۔ انھوں نے اس کے قریب آتے ہی دونوں ہاتھوں سے اس کے بال پکڑ لیے تھے۔
”یہ نہ کریں تایا ابو! یہ نہ کریں۔” وہ خوف سے چلائی تھی۔
برآمدے لوگوں سے بھر گئے تھے۔ بچے اشتیاق کی وجہ سے صحن میں نکل آئے تھے۔ انھوں نے بال کھینچتے ہوئے گالیاں دیتے ہوئے اسے فرش پر دھکا دیا تھا۔ پھر پائوں سے جوتا اتار لیا تھا۔ اس نے خوف کے عالم میں انھیں دیکھا تھا۔
”تایا…!” اس کی آواز حلق میں گھٹ گئی تھی۔ وہ پوری طاقت سے اس کے سر پر جوتے برسا رہے تھے۔ صبا نے ان کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی۔ ان کے اشتعال میں اور اضافہ ہو گیا۔ انھوں نے ایک ہاتھ سے اس کے بال پکڑ لیے تھے۔ پتا نہیں صبا کے دل میں کیا آیا، اس نے دونوں ہاتھ ان کے سامنے جوڑ دیے۔
”نہیں تایا ابو! یہاں صحن میں لوگوں کے سامنے اس طرح نہ ماریں۔ مارنا چاہتے ہیں تو مجھے گولی مار دیں یا مجھے پسٹل دے دیں۔ میں خود اپنے آپ کو گولی مار لیتی ہوں۔”
انھوں نے اس کے سر پر جوتے مارنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس نے آخری بار سر اٹھا کر دور برآمدوں میں کھڑے لوگوں کو دیکھا تھا پھر اس نے اپنے گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹ کر سر چھپا لیا تھا۔
تایا ابا اس پر جوتے برسا رہے تھے، وہ کسی حرکت، کسی شور کے بغیر خاموشی سے پٹ رہی تھی۔ دور کہیں سے اسے اقصیٰ کے رونے اور چیخنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔
”یہ کیوں کیا آپی؟ یہ کیوں کیا؟” وہ چلا رہی تھی۔ وہ جواب دینا چاہتی تھی مگر وہ بول نہیں سکتی تھی۔
درد کا احساس بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ سر اٹھا کر ایک بار اقصیٰ کو دیکھنا چاہتی تھی۔ وہ سر نہیں اٹھا سکتی تھی۔ آج یوم حساب تھا۔
…ظ…