حیدر کی دھمکی کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ اس نے ملازمت کی تلاش اور تیز کر دی تھی لیکن جب چند اور ہفتے اسی طرح گزر گئے تو اس نے ایک اکیڈمی کے ذریعے ایک گھر میں آٹھویں کلاس کے ایک بچے کو میتھس کی ٹیوشن پڑھانا شروع کر دی۔ دو گھنٹے کے لیے دو ہزار روپے کی یہ جاب اس کے لیے بے حد پرُکشش تھی۔ اسے شام کو دو سے چار بجے تک اس بچے کو پڑھانے کے لیے جانا ہوتا تھا اور اس نے عارفین عباس سے کہا تھا کہ وہ ایک جگہ پر کپڑوں کی کٹنگ اور سلائی کا کورس کرنا چاہتی ہے اس لیے اسے دو گھنٹے کے لیے وہاں روز جانا ہوگا۔ عارفین عباس نے کسی اعتراض کے بغیر اسے اجازت دے دی تھی۔ اور حیدر کے استفسار پر انھوں نے اسے بھی یہی بتایا تھا حیدر کو کچھ حیرت ہوئی تھی کہ یکدم جاب کی تلاش چھوڑ کر اس نے ایسی سرگرمی میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ مگر اس نے اس پر زیادہ غور و خوض نہیں کیا تھا۔ اس نے سوچا تھا کہ شاید سارہ پر اس کی باتیں اثر کر گئی ہیں۔
اس دن چھٹی کا دن تھا اور اس کا کوئی دوست اس سے ملنے آیا تھا۔ سارہ، عارفین عباس کے پاس باہر لان میں بیٹھی تھی۔ حیدر نے اپنے دوست کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا لیکن وہ ڈرائنگ روم کی قد آدم کھڑکیوں سے باہر لان کی طرف دیکھتے ہی چونک اٹھا تھا۔
”یہ کون ہیں؟” اس نے انگلی سے باہر لان کی طرف اشارہ کیا تھا جہاں سارہ، عارفین عباس کے پاس بیٹھی چائے پی رہی تھی۔ حیدر اس کے سوال پر کچھ حیران ہوا تھا۔
یہ میرے پاپا کی کسی کزن کی بیٹی ہیں۔ ہمارے ساتھ رہتی ہیں۔ تم جانتے ہو انھیں؟” حیدر نے اس سے پوچھا تھا۔
”نہیں ایسا کچھ خاص نہیں، دراصل یہ میرے بھانجے کو پڑھاتی ہیں۔ یہاں دیکھا تو حیرانی ہوئی۔ اس لیے پوچھ لیا۔”
حیدر اس کی بات پر چپ کا چپ رہ گیا تھا۔
”کب سے پڑھا رہی ہیں؟” اس نے کچھ دیر بعد پوچھا تھا۔
”یہ تو مجھے نہیں پتا، اصل میں دو تین بار مجھے اپنی بہن کے گھر جانے کا اتفاق ہوا، وہیں میں نے ان کو دیکھا تھا لیکن مجھے یہ نہیں پتا کہ انھوں نے اسے کب سے پڑھانا شروع کیا ہے۔”
وہ اسے تفصیل بتا رہا تھا۔ حیدر نے مزید کوئی سوال نہیں کیا۔ اس کا موڈ یکدم خراب ہو گیا تھا۔ اس کا دوست کچھ دیر بیٹھا تھا اور پھر چلا گیا تھا۔ دوست کے جانے کے بعد وہ سیدھا باہر لان میں آ گیا تھا۔ جہاں سارہ اور عارفین ابھی بھی بیٹھے ہوئے تھے۔
کچھ اکھڑے ہوئے تیوروں کے ساتھ وہ ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا تھا۔
”سارہ! میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ کو جو کام بھی کرنا ہے، پاپا کو اس کے بارے میں پتا ہونا چاہیے لیکن آپ نے میری بات کی قطعاً پروا نہیں کی اور پاپا کے ساتھ غلط بیانی کر کے ٹیوشن کرنے جا رہی ہیں۔”
اس نے کسی تمہید کے بغیر براہ راست اس سے بات شروع کر دی تھی۔ عارفین عباس نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں اخبار سامنے پڑی میز پر رکھ دیا تھا۔ سارہ کچھ حواس باختگی کے عالم میں حیدر کا چہرہ دیکھنے لگی تھی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ وہ اس طرح پکڑی جائے گی اور حیدر کسی لحاظ کے بغیر عارفین عباس کے سامنے اس کا پول کھول دے گا۔
”کیا بات ہے حیدر؟ کیا کیا ہے سارہ نے؟” عارفین نے کچھ حیرت سے اس سے پوچھا تھا۔
”آپ ان سے پوچھیں۔” اس نے اس کی طرف اشارہ کیا تھا۔ سارہ نے اب سر جھکا لیا۔
”کیوں سارہ! کیا ہوا ہے؟” عارفین نے اب اس سے پوچھا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہے۔ اس کے خاموش رہنے پر حیدر بول اٹھا تھا۔
”یہ کوئی کورس کرنے نہیں جاتی ہیں۔ کسی جگہ پر ٹیوشن کے لیے جاتی ہیں۔”
عارفین عباس کو ایک جھٹکا سا لگا تھا۔ چند لمحوں تک وہ کچھ بول ہی نہیں پائے۔ ”سارہ! یہ کیوں کر رہی ہو۔ جو روپے میں تمھیں دیتا ہوں۔ کیا وہ کافی نہیں ہیں اور اگر وہ تمہاری ضروریات کے لیے کافی نہیں ہیں تو تم مجھ سے اور روپے لے سکتی ہو مگر اس طرح۔”
سارہ نے ان کی بات کاٹ دی۔ ”انکل! مجھے آپ سے روپے لینا اچھا نہیں لگتا نہ ہی مجھے وہ روپے خرچ کرنے اچھے لگتے ہیں۔” اس نے اپنے دل کی بات کہہ ڈالی تھی۔ عارفین اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئے۔
”دراصل مجھے اس طرح آپ کے گھر رہنا اور آپ پر بوجھ بننا اچھا نہیں لگ رہا۔ میں یہاں رہنا بھی نہیں چاہتی۔”
”کیوں؟” عارفین نے بے اختیار پوچھا تھا۔
”انکل! میں نہیں جانتی تھی۔ امی مجھے کہاں اور کس کے پاس بھیج رہی ہیں اور عارفین عباس ان کے کیا لگتے ہیں۔ آپ کا اور ان کا کیا رشتہ تھا۔ میں اس کے بارے میں زیادہ نہیں جان پائی لیکن جو تھوڑا بہت جان سکی ہوں۔ وہ میرے لیے کوئی زیادہ خوشی کا باعث نہیں ہے۔ میں جانتی ہوں، آپ کو یہ جان کر دکھ ہوگا لیکن آپ دونوں کا رشتہ میرے لیے کوئی قابل فخر چیز نہیں ہے اور اس حوالے سے یہاں رہنا میرے لیے تکلیف دہ ہے۔ آپ پر میرا کوئی حق نہیں ہے جس کے حوالے سے میں آپ سے کچھ لے سکوں یا یہاں رہ سکوں۔ میں نے اسی لیے آپ سے کہا تھا کہ آپ میرے نانا سے میرا رابطہ کروا دیں۔ میں ان کے پاس جانا چاہتی تھی۔ لیکن آپ نے مجھے اس کی اجازت نہیں دی۔ اب میں جاب ڈھونڈ رہی ہوں ابھی تک جاب نہیں ملی ہے۔ اس لیے میں نے ٹیوشن کرنا شروع کر دیا کیونکہ اس سے کم از کم میرے اخراجات تو پورے ہو سکتے ہیں۔ جاب ملتے ہی میں یہاں سے چلی جائوں گی۔”
اس نے آہستہ آواز میں ان دونوں کو حیران کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔
”سارہ! تم اکیلے کیسے رہو گی؟” عارفین نے کچھ بے چینی سے اس سے پوچھا تھا۔
”انکل! بہت سی لڑکیاں اکیلی رہتی ہیں پھر میرے لیے تو یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے امی کی زندگی میں بھی میں اکیلی ہی ہوتی تھی۔”
”سارہ تمھیں اچھا لگے یا برا لیکن تمھیں یہیں رہنا ہے۔ میں تمھیں اکیلے کہیں نہیں رہنے دوں گا۔ صبا تمھیں میری ذمہ داری بنا کر گئی ہے۔ میں تمھیں اس طرح خوار ہونے کی اجازت نہیں دوں گا۔” عارفین نے فیصلہ کن انداز میں کہا تھا۔
”لیکن میں…”
عارفین نے اس کی بات کاٹ دی۔” سارہ! اس مسئلے پر میں بات نہیں کروں گا۔ میرے لیے تم میری بیٹی ہو۔ یہ گھر جتنا حیدر کا ہے۔ اتنا ہی تمہارا ہے۔ تم مجھ پر پہلے کبھی بوجھ تھیں نہ آئندہ کبھی ہو گی۔ میرے اور صبا کے رشتے کے بارے میں کچھ غلط مت سوچو، یہ ٹھیک ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور کسی وجہ سے ہماری شادی نہیں ہو سکی لیکن ہمارے درمیان یہ واحد رشتہ نہیں تھا۔ ہم ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست بھی تھے اور اس حوالے سے تمہارا مجھ پر حق ہے۔”
”لیکن آپ یہ کیوں نہیں چاہتے کہ میں اپنے نانا کے پاس چلی جائوں؟” وہ ان کی بات پر کچھ جھنجلا گئی تھی۔
”صبا یہ نہیں چاہتی تھی کہ تم اس کے گھر والوں کے پاس جائو۔”
”وہ یہ کیوں نہیں چاہتی تھیں؟”
”میں نہیں جانتا کہ وہ یہ کیوں نہیں چاہتی تھی۔”
”میں جانتی ہوں۔ انھوں نے اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف شادی کی وہ سب ان سے ناراض ہو گئے اور انھوں نے امی سے قطع تعلق کر لیا۔ امی کا خیال ہوگا کہ وہ اب تک ان سے ناراض ہیں اور شاید وہ مجھے قبول نہیں کریں گے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اب امی کے مر جانے کے بعد ان کی ناراضگی ختم ہو چکی ہوگی۔ اب وہ مجھے ٹھکرائیں گے نہیں۔ کم از کم میں ان سے بات کر کے ان کی ناراضگی دور کر سکتی ہوں۔”
عارفین اس کی باتوں پر حیران ہو گئے تھے۔ ”سارہ! تمھیں یہ سب کس نے بتایا؟” انھوں نے پوچھا تھا۔
”کسی نے نہیں، میں نے خود اندازہ لگایا ہے۔ میں بچی نہیں ہوں۔ میں بڑی ہوں۔ چیزوں کو سمجھ سکتی ہوں۔”
”ہر چیز ویسے نہیں ہے جیسے تم سمجھ رہی ہو۔ بہت سی باتوں سے تم لاعلم ہو۔ بہت سی چیزوں کے بارے میں تمھارے اندازے غلط ہیں۔” انھوں نے تھکے ہوئے لہجے میں اس سے کہا تھا۔
”تو پھر آپ مجھے بتائیں۔ حقیقت کیا ہے۔ کس چیز کے بارے میں میرا اندازہ غلط ہے امی نے کبھی مجھے کچھ نہیں بتایا مگر آپ تو بتا سکتے ہیں۔”
”سارہ! میں تمھارے نانا سے کانٹیکٹ کروں گا لیکن تم یہ بات ضرور یاد رکھنا کہ صبا یہ نہیں چاہتی تھی کہ تم ان کے پاس رہو۔”
اس کی توقع کے برعکس عارفین عباس نے اس کی بات مان لی تھی اور پھر وہ تیزی سے اٹھ کر چلے گئے تھے۔
حیدر نے اس پوری گفتگو میں حصہ نہیں لیا تھا مگر وہ دلچسپی سے دونوں کی باتیں سنتا رہا تھا۔ سارہ نے پہلی بار اسے صحیح معنوں میں چونکایا تھا۔ عارفین کے جانے کے بعد وہ بھی اٹھ کر اندر چلا آیا تھا۔ سارہ دیر تک لان میں بیٹھی رہی۔
…ظ…