Blog

MZZB Cover

اس کی آنکھ کھلتے ہی درد کی ایک لہر اس کے سر سے پیر تک دوڑ گئی تھی۔ کمرے میں اندھیرا تھا۔ کہیں سے چڑیوں کے چہچہانے کی آواز آ رہی تھی۔ وہ قالین پر لیٹی ہوئی تھی۔ اس نے آہستہ آہستہ اٹھنے کی کوشش کی۔ پورا سر پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا۔ کسی نہ کسی طرح بیٹھنے کے بعد اس نے سر کو دیوار کے ساتھ لگا دیا۔ پچھلی رات ایک ڈرائونے خواب کی طرح اس کے سامنے کھڑی تھی۔ اس نے رات کے واقعات کو یاد کرنے کی کوشش کی تھی۔ بہت دیر تک اسے پیٹتے رہنے کے بعد تایا چلے گئے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ برآمدوں میں کھڑے لوگ چہ میگوئیاں کرتے ہوئے غائب ہونے لگے۔ ان سب کے جانے کے بعد وہ آہستہ آہستہ کھڑی ہوئی تھی اور کسی نہ کسی طرح خود کو اپنے گھر تک لے آئی تھی۔



گھر کا دروازہ کھلا تھا۔ کسی کمرے سے امی اور اقصیٰ کے رونے اور عظیم کے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں وہ کمرے میں آ گئی تھی۔ پتا نہیں کب امی کو اس کے اندر آنے کا پتا چلا تھا اور وہ اونچی آواز میں بولتے ہوئے اس کے کمرے میں آ گئی تھیں۔
”منہ کالا کرنے کے بعد یہاں کیا لینے آئی ہو؟ بے غیرت، جائو جا کر کہیں ڈوب مرو۔”
”منہ کالا میں نے نہیں کیا۔ آپ سب نے مل کر کر دیا ہے۔ عارفین کو آنے دیں۔ سب کو پتا چل جائے گا کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون۔”
”ہاں آئے گا عارفین۔ ضرور آئے گا تمھارے منہ پر تھوکنے۔ طلاق کے کاغذات تمھارے منہ پر مارنے۔ صبا تو تو میرے گھر کے لیے سانپ سے بھی بڑھ کر زہریلی ثابت ہوئی ہے۔ میں نے پیدا ہوتے ہی تیرا گلا کیوں نہ گھونٹ دیا۔”
”گھونٹ تو دیا ہے امی! چند گھنٹے پہلے سب نے مل کر میرا گلا ہی تو گھونٹا ہے۔ اب بچا کیا ہے جس کا واویلا کر رہی ہیں۔”
”اس بے شرم کو دیکھو۔ یہ ابھی بھی مظلوم بن رہی ہے۔ ابھی بھی انکاری ہے۔ میرا بس چلتا صبا! تو میں تجھے سب کے سامنے بیچ صحن میں کوڑے مارتی۔ تو نے اپنا منہ اس دنیا میں خود کالا کیا۔ اگلی دنیا میں اللہ کالا کرے گا۔ تو دیکھنا صبا! کتنی رسوائی ہے تیرے لیے آگے۔”
”اب کوڑوں کی ضرورت نہیں رہی امی! اب کسی چیز کی ضرورت نہیں رہی۔ مجھے جتنی رسوائی ملنی تھی۔ مل گئی۔ اب دوسروں کی باری ہے۔ آپ کی، اس خاندان کے ہر اس شخص کی جس نے مجھ پر تہمت لگائی۔”
”کتنا جھوٹ بولے گی؟ صبا! تو کتنا جھوٹ بولے گی؟ سب نے دیکھا ہے تجھے عادل کے ساتھ اس کمرے سے نکلتے سب نے دیکھا ہے اور پھر بھی کہتی ہے کہ تو سچی ہے۔”
”ہاں سب نے دیکھا ہے… سب نے دیکھا ہے، بس اللہ نے نہیں دیکھا۔ تم لوگوں کا دیکھنا نہ دیکھنا برابر ہے۔ لوگوں کے دیکھنے نہ دیکھنے سے مجھے فر ق نہیں پڑتا۔”
وہ بے ساختہ چلانے لگی تھی۔ اقصیٰ امی کو اس کے کمرے میں سے لے گئی۔ پھر کوئی اس کے کمرے میں نہیں آیا تھا۔ اسے یاد نہیں کس وقت اس کی آنکھ لگ گئی تھی اور اب صبح ہو چکی تھی۔ کمرے میں اندھیرا تھا۔ وہ پردے کھینچ کر اس اندھیرے کو ختم کرنا نہیں چاہتی تھی۔ اسے اب صرف عارفین کا انتظار تھا۔ صرف وہ تھا جو اب اس کی زندگی کا فیصلہ کر سکتا تھا۔ اسے یقین تھا وہ اس پر اعتبار کرے گا وہ اسے گناہگار نہیں سمجھے گا۔
وہ اسی شام آ گیا تھا۔ تائی امی کو اس کی آمد کے بارے میں پہلے سے پتا تھا اور جو انھیں اس سے کہنا تھا، وہ سب کچھ بھی طے کر چکی تھیں۔ انھوں نے اس کا استقبال روتے ہوئے کیا تھا اور پھر آنسوئوں اور ہچکیوں کے بیچ اس پر قیامت توڑ دی تھی۔ عارفین کو یقین نہیں آیا تھا۔ وہ سانس روکے بے یقینی کے عالم میں سب کچھ سنتا رہا تھا۔ عادل گھر سے غائب تھا اور سارے ثبوت صبا کے خلاف تھے لیکن وہ ایک بار صبا سے پوچھنا چاہتا تھا۔ وہ اس سے بات کرنا چاہتا تھا۔ وہ تائی امی سے سارا قصہ سنتے ہی انہی قدموں پر صبا کے گھر آیا تھا اور صبا اسے دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔ اس کی حالت دیکھ کر اس کے دل کو کچھ ہونے لگا تھا۔ لیکن وہ جو کچھ اس سے پوچھنے آیا تھا اس کا تعلق دل سے نہیں تھا۔



”صبا مجھے بتائو۔ تم نے کیا کیا ہے؟” وہ وحشت زدہ تھا۔
”عارفین! میں نے کچھ نہیں کیا۔ یقین کرو۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔ کیا میں ایسا کر سکتی ہوں؟ کیا میں تمھیں دھوکا دے سکتی ہوں۔”
”لیکن سب لوگ جو کہہ رہے ہیں وہ…”
”سب لوگ جھوٹ بول رہے ہیں۔” اس نے بے اختیار عارفین کی بات کاٹی تھی۔
”کیا آنکھوں دیکھی جھوٹ ہو سکتی ہے۔”
”آنکھیں کچھ نہیں دکھاتیں۔ آنکھیں تو صرف وہ دکھاتی ہیں جو ہمارا دل، ہمارا دماغ دیکھنا چاہتا ہے۔”
”صبا! آج فلاسفی مت بولو۔ آج اس زبان میں بات کرو جو میری سمجھ میں آ جائے جس سے مجھے یقین آ جائے کہ تم بے گناہ ہو۔ تم نے کچھ نہیں کیا۔”
صبا کو اس کے لہجے پر شاک لگا تھا۔ وہ دس دن پہلے کا عارفین نہیں تھا۔ وہ اس کا ساتھ دینے نہیں آیا تھا وہ اس کی پارسائی کا ثبوت لینے آیا تھا۔ اس نے پست آواز میں پورا واقعہ سنا دیا تھا۔ اس کا چہرہ بے تاثر رہا۔ وہ جان گئی۔ وہ یہ آخری بازی بھی ہار چکی تھی۔
”تمہارا مطلب ہے، یہ سب میری ماں نے کروایا ہے۔ ہے نا؟”
صبا کی بات ختم ہونے پر اس نے پوچھا تھا۔ وہ چپ رہی تھی جان گئی تھی۔ یہ سوال نہیں تھا۔
”اگر تم اور عادل سچے ہو اور میری ماں جھوٹی ہے تو عادل کہاں بھاگ گیا ہے؟ کیوں بھاگ گیا ہے؟ سامنے کیوں نہیں آتا؟ اپنی بے گناہی ثابت کیوں نہیں کرتا؟” وہ چلا اٹھا۔
وہ چند لمحے کچھ نہیں بول سکی۔ ”تو تم نے بھی مان لیا کہ میں…” عارفین نے اس کی بات کاٹ دی۔
”میں نے کچھ نہیں مانا مگر تم مجھے اپنی بے گناہی کا ثبوت دو۔ مجھے ثبوت دو اس بات کا کہ یہ سارا منصوبہ میری ماں نے بنایا ہے اور تمہارا عادل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور تم دونوں وہاں…”
وہ بات مکمل کرنے کی بجائے اپنا سر پکڑ کر کرسی پر بیٹھ گیا۔
”میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ کسی بھی بات کا اور میں پھر بھی کہتی ہوں کہ میں بے قصور ہوں۔ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ ہاں اللہ کو پتا ہے۔ وہ جانتا ہے۔ اس سے پوچھو۔” وہ اس کی بات پر چلا اٹھا تھا۔
”خدا سے کیسے پوچھوں، میں کوئی پیغمبر ہوں؟”
”لوگ کہتے ہیں۔ اللہ دلوں میں بستا ہے۔ تم اپنے دل سے پوچھو۔”
”میں دل سے کیوں پوچھوں۔ میں تم سے کیوں نہ پوچھوں؟”
”میں سچ کہتی ہوں۔ تم کو اعتبار نہیں آتا۔ میں جھوٹ بولوں گی۔ تمھیں فوراً یقین آ جائے گا۔ تم کیوں نہیں کہہ دیتے کہ تمھیں لوگوں کی باتوں پر یقین آ چکا ہے۔ مجھ سے تو صرف تصدیق چاہتے ہو۔”
وہ ہونٹ بھینچتے ہوئے اسے دیکھتا رہا پھر کھڑا ہو گیا۔
”تم چاہتی ہو ناں، اللہ سے پوچھوں، میں اللہ سے ہی ہر بات کا فیصلہ کروائوں گا۔ قرآن لائوں گا تمھارے سامنے۔ اس پر ہاتھ رکھ کر کہو گی کہ تم بے گناہ ہو۔ تم نے کچھ نہیں کیا۔”
”اگر فیصلہ قرآن پر ہی ہونا ہے تو اپنی ماں کو بھی لائو۔ پہلے ان سے کہو کہ وہ قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ انھوں نے مجھے اور عادل کو تمھارے کمرے میں نہیں بھیجا۔ انھوں نے یہ سارا منصوبہ نہیں بنایا اور اگر وہ قرآن پر ہاتھ رکھ کر یہ سب نہ کہیں تو پھر انھیں بھی صحن کے بیچوں بیچ اسی طرح جوتے سے مارا جائے جیسے تمھارے باپ نے مجھے مارا ہے۔ بولو، لائو گے اپنی ماں کو؟”



عارفین کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔ ”لائوں گا۔ اپنی ماں کو بھی لائوں گا۔” وہ دروازے سے نکلنے لگا پھر جاتے جاتے رک گیا۔
”اور صبا! اگر تم جھوٹی ہوئیں تو میرا ہر رشتے، ہر چیز سے اعتبار اٹھ جائے گا۔ حتیٰ کہ خدا سے بھی۔” وہ کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔
…ظ…

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!