اس دن کے بعد وہ گھر میں قید ہو کر رہ گئی تھی۔ ٹیوشن اس نے چھوڑ دی تھی کیونکہ حیدر کو اس بات پر اعتراض تھا کہ وہ اس کے دوست کی بہن کے گھر پڑھانے جاتی ہے اور اس کی عزت پر حرف آتا ہے۔ کسی اور جگہ اس نے ٹیوشن کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ منتظر تھی کہ عارفین اس کے نانا سے بات کریں اور اسے کچھ بتائیں مگر انھوں نے ابھی تک اسے کچھ نہیں بتایا تھا۔ وہ سارا دن گھر میں بے مقصد پھرتی رہتی۔ اس کا دل اب کتابیں پڑھنے میں بھی نہیں لگتا تھا۔ ایک عجیب سی بے چینی ہر وقت اس کے اعصاب پر سوار رہتی تھی۔ پھر ایک دن عارفین کی سب سے بڑی بہن نے اسے فون کیا تھا۔ اسے ان کا فون اٹینڈ کرتے ہوئے حیرت ہو رہی تھی۔
”سارہ! تم کو میں نے اپنے ہاں آنے کے لیے کہا تھا مگر تم آئی ہی نہیں۔ میں اس دن سے تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔”
اس کے سلام کا جواب دیتے ہی انھوں نے شکوہ کیا تھا۔ اسے ان کی بات پر خوشگوار حیرت ہوئی۔
”آنٹی! میں آنا چاہتی تھی لیکن مجھے آپ کے گھر کا پتہ نہیں ہے، اکیلے میں کیسے آ سکتی ہوں۔”
”گھر کا کیا مسئلہ ہے۔ تم حیدر سے کہو۔ وہ تمھیں چھوڑ جائے گا۔” وہ ان کی بات پر خاموش ہو گئی۔
”میں کسی دن آپ کی طرف آئوں گی۔”
”کسی دن نہیں، میں کل تمہارا انتظار کروں گی۔ تم ضرور آنا۔” انھوں نے اس قدر اصرار کیا تھا کہ اس نے ہامی بھر لی۔ رات کے کھانے پر اس نے عارفین عباس سے اس بات کا ذکر کیا تھا وہ خاموشی سے کھانا کھاتے رہے اور جب اسے یقین ہو گیا کہ انھوں نے اس کی بات سنی ہی نہیں تو وہ بول اٹھے تھے۔
”ٹھیک ہے۔ چلی جانا حیدر تمھیں چھوڑ آئے گا۔”
لیکن پاپا! مجھے تو صبح آفس جانا ہے۔ میں کیسے انھیں چھوڑنے جا سکتا ہوں؟” حیدر پانی پیتے پیتے رک گیا تھا۔
”تم آفس جاتے ہوئے اسے چھوڑ آنا اور لنچ آور میں اسے گھر چھوڑ جانا۔”
عارفین عباس نے خود ہی پروگرام سیٹ کر دیا تھا۔ حیدر خاموش ہو گیا۔ کھانا ختم کرنے کے بعد اس نے جاتے جاتے کہا تھا۔
”آپ صبح ساڑھے آٹھ بجے تیار رہیے گا۔” اس نے سرہلا دیا۔
وہ صبح ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے تیار ہو کر نیچے آ گیا تھا۔ سارہ ناشتہ سے فارغ ہو کر اس کا انتظار کر رہی تھی۔ ”چلیں؟” اس نے سارہ کو دیکھتے ہی پوچھا تھا۔
”آپ ناشتہ نہیں کریں گے؟”
”نہیں۔” حیدر نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ وہ اس کے پیچھے چلتی ہوئی لائونج کے دروازے کی طرف آ گئی۔ حیدر نے لائونج کا دروازہ کھولا تھا اور خود باہر نکلنے کے بجائے اسے پہلے نکلنے کا اشارہ کیا تھا۔ سارہ نے قدرے حیرت سے اس کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے دیکھا تھا۔ اس کے باہر نکلنے کے بعد حیدر بھی باہر آ گیا تھا۔ سارہ لاشعوری طور پر گاڑی کے پچھلے دروازے کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی مگر حیدر نے گاڑی کے اندر بیٹھتے ہی فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا تھا۔ اور بلند آواز میں کہا تھا۔
”میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا کہ میں ڈرائیور نہیںہوں۔ میرے ساتھ اگر آپ کو کہیں جانا ہے تو آگے بیٹھنا ہوگا۔”
سارہ کچھ جھینپ کر آگے بیٹھ گئی تھی۔ چند منٹوں بعد گاڑی سڑک پر آ گئی تھی۔
”آپ کہاں جاب کرتے ہیں؟”
”ٹرینی” کے طور پر سٹی بینک میں کام کر رہا ہوں۔”
یہ واحد سوال و جواب تھا۔ جو پندرہ منٹ کے اس سفر میں دونوں کے درمیان ہوا تھا۔ پندرہ منٹ بعد گاڑی ایک پرانی لیکن وسیع عمارت کے باہر رک گئی تھی۔
”اندر جا کر دائیں طرف جو گھر ہے، وہیں پر میری دونوں پھوپھیاں رہتی ہیں۔”
حیدر نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بتایا تھا۔ وہ اس اطلاع پر کچھ حیران ہوئی تھی۔
”دونوں پھوپھیاں؟”
”اصل میں یہ گھر میرے دادا کا ہے۔ بڑی پھوپھی کافی سال پہلے بیوہ ہو گئی تھیں اور چھوٹی پھوپھو کو ڈائیو ورس ہو گئی تھی تب سے وہ دونوں اپنے بچوں کے ساتھ یہیں رہتی ہیں۔” حیدر نے وضاحت کی تھی۔ ”لیکن اب میں اکیلے اندر کیسے جائوں؟” وہ کچھ نروس ہو رہی تھی۔
حیدر نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا تھا۔ ”کیوں اکیلے جانے سے کیا ہو گا۔ خیر میں آپ کو اندر چھوڑ آتا ہوں۔”
اس نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا تھا۔ سارہ بھی گاڑی سے باہر نکل آئی۔ حیدر گیٹ کی طرف بڑھا تھا اور اسے کھول دیا تھا۔ ایک بار پھر پہلے کی طرح اس نے سارہ سے آگے بڑھنے کے لیے کہا تھا۔ سارہ نے دلچسپی سے ان ایک جیسی عمارتوں کو دیکھا تھا جو اس احاطے کے چار کونوں میں ایستادہ تھیں۔ طویل لان عبور کر کے وہ داہنی جانب والی عمارت کی طرف مڑ گئے۔ اندر جاتے ہی اسے خوشگوار حیرت ہوئی تھی جب اس نے عارفین کی سب سے بڑی بہن کو اپنا منتظر پایا تھا۔
”عارفین نے مجھے رات کو فون کر کے بتا دیا تھا کہ تم حیدر کے ساتھ صبح آئو گی۔ میں تب سے تمھارے انتظار میں بیٹھی ہوں۔” انھوں نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا تھا۔
”میں آپ کو لینے کے لیے ڈیڑھ بجے کے قریب آئوں گا۔” حیدر نے سارہ سے کہا تھا۔
”نہیں۔ سارہ آج نہیں جائے گی۔ وہ آج یہیں رہے گی، تم کل شام کو اسے لے جانا۔” بڑی پھوپھو نے فوراً فیصلہ سنا دیا تھا۔
”کیوں سارہ؟” حیدر نے اس سے پوچھا تھا سارہ تذبذب میں پڑ گئی۔
”نہیں آنٹی میں رات تو نہیں رہ سکتی۔” اس نے کہا تھا۔
”کیوں سارہ رات کیوں نہیں؟ تم جانتی ہو میں آج تمھیں صبا کا گھر بھی دکھائوں گی۔”
”امی کا گھر؟” سارہ کو یقین نہیں آیا تھا۔
”ہاں تمہاری امی کا گھر۔ یہ ساتھ ہی تو ہے۔” انھوں نے سارہ کا اشتیاق بڑھا دیا تھا۔
”ٹھیک ہے۔آپ آج مجھے لینے نہ آئیں۔ میں آج یہیں رہوں گی۔” اس نے فوراً حیدر کو اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔
”اچھا پھوپھو! میں اب چلتا ہوں۔” حیدر نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”ارے اتنی جلدی۔ بیٹھو، چائے تو پی کر جائو۔” انھوں نے اسے روکنے کی کوشش کی تھی۔
”نہیں پھوپھو! مجھے آفس سے دیر ہو رہی ہے۔ کل شام کو آئوں گا، تب چائے پی کر جائوں گا۔ اس وقت نہیں۔”
وہ خدا حافظ کہہ کر چلا گیا تھا۔ وہ اس وقت چائے پی رہی تھی جب عارفین کی دوسری بہن اوپر سے آ گئی تھیں۔ وہ بھی اس سے بڑی محبت سے ملی تھیں۔ چائے پلانے کے بعد بڑی پھوپھو اسے لے کر باقی دونوں گھروں میں گئی تھیں اور کہیں بھی سارہ کو یہ نہیں لگا کہ کوئی اس کی امی سے ناراض تھا۔ ہر جگہ اس کی امی کا ذکر بڑی محبت سے کیا گیا تھا۔
”پتا نہیں امی! آپ کو یہ غلط فہمی کیوں ہو گئی تھی کہ واپس آنے پر آپ کو قبول نہیں کیا جائے گا یہاں پر تو سب آپ کی غلطی بھول چکے ہیں۔ آپ اپنی زندگی میں ایک بار یہاں آ جاتیں۔” وہ بار بار یہی سوچ رہی تھی۔
”یہ مجھ سے اتنی محبت کا اظہار کر رہے ہیں تو کیا یہ امی سے محبت نہیں کرتے ہوں گے لیکن پتا نہیں کیوں انھوں نے ایک غلط فہمی میں اپنی زندگی برباد کرلی۔” وہ اب ماں سے بدگمان ہو رہی تھی۔
دوپہر کے کھانے کے بعد بڑی پھوپھو اسے اس کی امی کے گھر لے کر گئی تھیں۔
”تمہاری نانی اور خالہ امریکہ جاتے ہوئے اس گھر کو بیچ دینا چاہتے تھے، تب ابا نے ان کو منع کر دیا۔ بعد میں… بعد میں۔”
بات کرتے کرتے پتہ نہیں کیوں پھوپھو کی زبان لڑکھڑا گئی تھی۔ ”بعد میں تمھارے نانا نے اس گھر کو بیچنے پر اصرار کیا تو عارفین نے یہ گھر خرید لیا۔ تب سے اب تک یہ بند ہے۔ وہ یہاں کسی کو رہنے دیتا ہے نہ ہی خود کبھی یہاں آتا ہے۔ اس کی چابیاں میرے پاس ہیں۔ میں ہر ہفتے اسے کھلوا کر صاف کرواتی رہتی ہوں۔”
پھوپھو نے دروازے کا تالا کھولتے ہوئے کہا تھا۔ سارہ کو گھر کے اندر داخل ہو کر عجیب سی اپنائیت اور مرعوبیت کا احساس ہوا تھا۔
”تو امی یہاں رہتی تھیں اور یہ سب کچھ چھوڑ کر انھوں نے اس جھونپڑی کا انتخاب کیسے کر لیا تھا؟ کیا ان کو کبھی ان آسائشوں کا خیال نہیں آیا؟”
اس نے دیواروں پر لگی پینٹنگز پر نظر دوڑاتے ہوئے سوچا تھا پھوپھو ایک اور کمرے کا دروازہ کھول رہی تھیں۔
”یہ تمہاری امی کا کمرہ ہے۔” انھوں نے دروازہ کھول کر اسے بتایا تھا۔ وہ ایک عجیب سے اشتیاق میں تیزی سے اس کمرے کی طرف آئی تھی۔ کمرے میں تاریکی تھی۔ پھوپھو نے اندر داخل ہو کر پردے ہٹا دیے۔ کمرہ یکدم روشن ہو گیا تھا۔ اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی تھی۔ جو پہلی چیز اس کی نظر میں آئی تھی وہ ایک بہت بڑی وزنی سی اسٹڈی ٹیبل اور اس کے پاس دیوار پر لگے ہوئے ریکس پر کتابوں کی لمبی لمبی قطاریں تھیں۔ وہ کچھ بے اختیار سی ہو کر کتابوں کی طرف گئی تھی اور کتابوں پر ایک نظر ڈالتے ہی اس نے مڑ کر پھوپھو سے پوچھا تھا۔
”امی نے کتنی تعلیم حاصل کی تھی؟”
”وہ یونیورسٹی میں پڑھتی تھی۔ انگلش میں ایم۔ اے کر رہی تھی پھر بس… بس اس نے چھوڑ دیا۔”
پھوپھو یکدم کچھ افسردہ ہو گئی تھیں اور اس کے سر پر جیسے کوئی پہاڑ آن گرا تھا۔ ”ایم۔ اے انگلش اور ساری عمر وہ ایک فیکٹری میں دوہزار روپے کے عوض پیکنگ کا کام کرتی رہیں۔ آخر کیوں؟”
اس کی الجھن بڑھتی جا رہی تھی۔ جب وہ اپنی امی کو فرنچ بولتے سنتی تھی تو اس کا خیال تھا کہ انھوں نے اپنے کسی رشتہ دار سے یہ زبان سیکھی ہے۔ وہ جانتی تھی کہ وہ پڑھی لکھی ہیں لیکن ان کے حلیے سے اسے کبھی بھی اندازہ نہیں ہوا کہ وہ کبھی یونیورسٹی میں پڑھتی ہوں گی۔ ریکس میں ہر طرح کی کتابیں تھیں۔ شیکسپیئر کے ڈراموں سے لے کر وارث شاہ کی ہیر تک، ہارڈی کے ٹیس سے لے کر موپاساں کی کہانیوں تک، وہاں ہر قسم کی کتاب تھی۔ وہ کچھ افسردگی سے کتابوں کو دیکھتی رہی۔
”امی نے یونیورسٹی کیوں چھوڑ دی؟” ایک بار پھر اس نے مڑ کر پھوپھو سے سوال کیا تھا۔ انھوں نے اس سے نظریں چرا لیں۔
”پتا نہیں۔” اسے اپنے سوال کا جواب خود ہی مل گیا تھا۔
”وہاں ان کی ملاقات میرے ابو سے ہو گئی ہوگی اور پھر انھوں نے سب کچھ چھوڑ دیا۔” اس نے سوچا تھا۔
وہ اسٹڈی ٹیبل کی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی تھی۔ اسٹڈی ٹیبل پر گرد کی ہلکی ہلکی تہہ تھی۔ اس نے اپنے ہاتھ سے اسے صاف کرنے کی کوشش کی۔ پھر اس نے اسٹڈی ٹیبل کے دراز کھولنا شروع کر دیے تھے۔ وہ لاکڈ نہیں تھے۔ ان کے اندر کارڈز اور خطوط کا ایک ڈھیر تھا۔
”پھوپھو! آپ اگر جانا چاہتی ہیں تو چلی جائیں میں یہاں ٹھہرنا چاہتی ہوں۔” اس نے ان سے کہا تھا۔
وہ کچھ ہچکچائی تھیں۔ ”تمھیں اکیلے یہاں ڈر نہیں لگے گا؟” انھوں نے پوچھا تھا۔
”ڈر کس بات کا؟” اس نے حیرانی سے پوچھا تھا۔ پھوپھو کا چہرہ دھواں دھواں ہو گیا تھا۔ ”ہاں اب کس کا ڈر ہوگا۔”
وہ بڑبڑائی تھیں اور کمرے سے نکل گئی تھیں۔ وہ کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں انھیں جاتا دیکھتی رہی۔
پھر وہ دوبارہ خطوط اور کارڈز کی طرف متوجہ ہو گئی تھی۔ زیادہ تر کارڈز اور خطوط فرنچ میں لکھے ہوئے تھے اور وہ لکھنے والے کا نام پڑھ کر چند لمحوں کے لیے ساکت ہو گئی تھی۔ وہ خطوط اور کارڈز عارفین عباس نے لکھے تھے۔ امی نے فرنچ کس سے اور کس کے لیے سیکھی ہو گی۔ عارفین عباس سے ملنے کے بعد یہ راز اس کے لیے راز نہیں رہا تھا مگر اسے یہ توقع نہیں تھی کہ ان دونوں کے درمیان باقاعدہ خط و کتابت بھی ہوتی ہوگی۔ اس نے ایک خط پڑھنا شروع کیا تھا۔ کاغذ انتہائی بوسیدہ ہو چکا تھا اور بعض جگہ پر سیاہی بھی غائب ہو چکی تھی، باری باری اس نے سارے خطوط پڑھنا شروع کر دیے۔ ایک خط کی کچھ لائنیں پڑھ کر وہ ساکت ہو گئی تھی۔
”تم نے اپنے خط میں جو لکھا ہے بالکل ٹھیک لکھا ہے۔ میں بھی رخصتی پر نکاح جیسا ہنگامہ نہیں چاہتا۔ پتہ نہیں ہمارے یہاں شادی جیسے ذاتی معاملہ کو اتنا بڑا ہنگامہ اور تماشا کیوں بنا دیا جاتا ہے۔ بہرحال تمھیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ دسمبر میں جب رخصتی کروانے کے لیے پاکستان آئوں گا تو گھر والوں کو مجبور کروں گا کہ وہ مایوں اور مہندی جیسی رسموں پر وقت ضائع نہ کریں۔ میں جانتا ہوں، تم بھی اپنے گھر والوں کو اس بات پر راضی کر لو گی۔”
”اوہ خدایا! یہ سب کیا ہے؟” وہ بے اختیار سر پکڑ کر بیٹھ گئی تھی۔
”کیا عارفین انکل کے ساتھ امی کا نکاح ہوا تھا پھر میرے ابو بیچ میں کہاں سے آ گئے؟” اس نے خط پر تاریخ دیکھنے کی کوشش کی تھی۔ وہ خط اس کی پیدائش سے ڈیڑھ سال پہلے لکھا گیا تھا۔
”کیا امی نے نکاح ہو جانے کے باوجود عارفین انکل کے ساتھ دھوکا کیا تھا؟”
وہ کچھ سمجھ نہیں پائی تھی۔ یک دم اس کا دل وہاں سے اچاٹ ہو گیا تھا۔ اس نے وہ خطوط اپنے بیگ میں بھر لیے۔ کارڈز کو دیکھتے ہوئے وہ پھر چونک گئی تھی۔ اب شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہی تھی۔ کچھ کارڈز عارفین عباس نے اس کی امی کو نکاح کے دن کی مبارکباد دینے کے لیے بھیجے تھے۔ اس نے ان کارڈز کو بھی بیگ میں ڈال لیا۔ ماں سے اس کی بدگمانی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس نے باقی کارڈز کو دراز میں رکھ دیا اور دراز بند کر کے باہر نکل آئی۔ پھوپھو وہاں نہیں تھیں۔ شاید وہ اپنے گھر چلی گئی تھیں۔ اس نے بیرونی دروازے کو احتیاط سے بند کر دیا اور پھوپھو کے گھر کی طرف چل پڑی۔
شام تک وہ الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ پھوپھو کے پاس بیٹھی ان کی باتیں سنتی رہی۔ پانچ بجے خلاف توقع حیدر آ گیا۔ اس کا موڈ بگڑا ہوا تھا۔
”پاپا ناراض ہو رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ میں سارہ کو فوراً لے کر آئوں۔” اس نے آتے ہی پھوپھو سے کہا تھا۔
”لیکن وہ تو یہاں رات رکے گی۔”
”آپ رات کی بات کر رہی ہیں۔ وہ تو اس بات پر مجھ پر بگڑ رہے ہیں کہ میں لنچ آور میں ان کی ہدایت کے مطابق سارہ کو واپس کیوں نہیں لے کر آیا۔”
”تم نے انھیں بتانا تھا کہ سارہ خود یہاں رہنے پر تیار ہے۔”
”پھوپھو! آپ کو پتا ہے پاپا کے غصے کا، جب وہ غصے میں ہوتے ہیں تو کسی کی بات کہاں سنتے ہیں۔ انھوں نے تو میری اتنی انسلٹ کی ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے کس کی اجازت سے اسے وہاں رات رکنے کے لیے کہہ دیا ہے۔ مجھے یہ حق کس نے دیا ہے، میں نے ان سے کہا بھی کہ وہ محترمہ خود تیار ہوئی تھیں رات گزارنے کے لیے مگر ان کا پارہ نیچے نہیں آیا۔ اب برائے مہربانی مس سارہ! آپ چلیں۔”
وہ بڑی بے زاری سے اس سے کہہ رہا تھا۔ سارہ کچھ شرمندگی سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
”تم آتی جاتی رہنا۔ اب تو تمھیں گھر کا بھی پتہ چل گیا ہے۔”
پھوپھو نے اسے لپٹاتے ہوئے کہا تھا۔ وہ بجھے دل سے حیدر کے ساتھ چل پڑی۔ حیدر کا موڈ بری طرح آف تھا۔ وہ گھر آتے ہی سیدھا اوپر چلا گیا اور دوبارہ کھانا کھانے بھی نیچے نہیں آیا۔
عارفین عباس نے اسے کچھ نہیں کہا تھا مگر ان کے چہرے کے تاثرات سے وہ سمجھ گئی تھی کہ وہ اس سے بھی زیادہ خوش نہیں ہیں۔ بڑی بے دلی سے اس نے ان کے ساتھ کھانا کھایا تھا اور پھر اپنے کمرے میں آ گئی۔ کمرے میں آتے ہی اس نے اپنے بیگ میں سے وہ خطوط اور کارڈز نکال لیے اور ایک بار پھر سے انھیں پڑھنے لگی۔
…ظ…