صبا کو یقین تھا۔ تائی کبھی قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر جھوٹ نہیں بولیں گی۔ عارفین اپنے ماں اور باپ کو لے آیا تھا۔ دوسرے دونوں تایا بھی آ گئے تھے۔ صبا کے کمرے میں کبھی اتنے لوگ نہیں آئے تھے۔ ہر چہرہ تنائو سے دوچار تھا۔ وہ اٹھ کر وضو کرنے چلی گئی تھی۔ بہتے آنسوئوں کے ساتھ اس نے وضو کیا تھا۔ پھر چہرہ اور آنکھیں خشک کر کے وہ کمرے میں آ گئی تھی۔ کمرے میں مکمل خاموشی تھی، یوں جیسے سب لوگ قوت گویائی سے محروم ہو چکے تھے۔ اسے عارفین پر ترس آنے لگا تھا۔
”جب اس کی ماں قرآن پاک پر ہاتھ نہیں رکھے گی تو عارفین کا کیا حال ہوگا۔ وہ کیا کرے گا؟”
اس نے عارفین کو دیکھتے ہوئے سوچا تھا پھر اس نے تائی کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی۔ ان کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا، وہ بس سر جھکائے ہوئے بیٹھی تھیں۔ عارفین نے اقصیٰ کو قرآن پاک لانے کے لیے کہا تھا۔ صبا نے اپنی امی کو دیکھا وہ بہتے آنسوئوں کے ساتھ آنکھیں بند کیے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ رہی تھیں۔ اقصیٰ قرآن پاک لے آئی تھی۔ عارفین نے قرآن پاک ہاتھ میں لے لیا تھا۔ وہ اپنی ماں کی طرف گیا تھا۔
”امی! آپ قرآن پاک ہاتھ میں لے کر کہیں کہ آپ نے صبا اور عادل کے خلاف کوئی منصوبہ نہیں بنایا اور نہ ہی کل رات ان دونوں کو میرے کمرے میں بھیجا تھا۔”
عارفین نے قرآن پاک ماں کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔ صبا کے دل کی حرکت تیز ہو گئی پھر اس کا سانس رک گیا تھا۔ تائی امی قرآن پاک ہاتھ میں لے رہی تھیں۔ اس نے بے یقینی سے ان کا چہرہ دیکھا پھر اس نے ان کو وہی کلمات دہراتے ہوئے سنا جو عارفین نے کہے تھے انھوں نے ایک بار نہیں تین بار جھکے ہوئے سر کے ساتھ وہی کلمات دہرائے تھے۔
”اللہ!” صبا کو لگا تھا کسی نے اس کے دل میں نیزہ گاڑ دیا تھا۔ اسے یقین تھا وہ کبھی قرآن پاک ہاتھ میں لے کر جھوٹ نہیں بولیں گی۔ اس کا یقین باطل ثابت ہوا تھا۔ اسے ان پر یقین نہیں تھا اسے قرآن پر یقین تھا۔
”کیا کوئی قرآن پر ہاتھ رکھ کر جھوٹ بولنے کی ہمت کر سکتا ہے؟” اس نے سوچا تھا۔ ”اور اب میں بھی قرآن پاک ہاتھ میں لے کر سچ بولوں گی اور اس کمرے میں موجود ہر شخص سوچے گا دونوں میں سے ایک جھوٹا ہے اور اس نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر بھی جھوٹ ہی بولا ہے۔”
عارفین نے تائی امی سے قرآن لے لیا تھا۔ اب وہ اس کی طرف آ رہا تھا۔ ہر نظر اب اس پر جمی تھی۔ وہ رکے ہوئے سانس کے ساتھ اپنی طرف آتے دیکھتی رہی۔ عارفین کا چہرہ ستا ہوا تھا۔
صبا نے تائی امی کا چہرہ دیکھا۔ کوئی ملال، کوئی رنج، کوئی پچھتاوا، اس چہرے پر کچھ بھی نہیں تھا۔ اس نے اپنی ماں کے چہرے کو دیکھا۔ وہاں بے چینی تھی، آنسو تھے، امید تھی، اقصیٰ دروازے سے ٹیک لگائے کھڑی تھی۔ عارفین اس کے پاس آ گیا۔
”صبا! اب تم قرآن پاک ہاتھ میں لے کر کہو کہ تم بے گناہ ہو۔ عادل کے ساتھ وہاں اپنی مرضی سے نہیں گئی تھیں۔”
اس نے قرآن پاک صبا کی طرف بڑھا دیا۔ اس نے عارفین کا چہرہ دیکھا۔ وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ عارفین نے نظر چرا لی۔
”یہ لو قرآن پاک۔” اس نے کہا تھا۔ صبا نے سر جھکا دیا اس نے ہاتھ آگے نہیں بڑھائے عارفین کا سانس رک گیا۔
”صبا! قرآن پاک پکڑو۔” اس نے ایک بار پھر بے تابی سے کہا تھا۔ صبا نے سر اٹھایا تھا، نہ ہاتھ بڑھائے تھے۔
”صبا!” امی کے حلق سے چیخ نکلی تھی۔ اقصیٰ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ تائی امی دم بخود اسے دیکھ رہی تھیں۔ عارفین تھکے قدموں کے ساتھ پیچھے ہٹ گیا تھا۔ اس نے قرآن پاک اس کی اسٹڈی ٹیبل پر رکھ دیا۔ صبا کی امی اور اقصیٰ روتے ہوئے کمرے سے نکل گئی تھیں۔ دونوں تایا بھی اٹھ کر کمرے سے چلے گئے تھے۔ صبا نے سر اٹھایا تھا۔
”عارفین! مجھے تم سے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے نہ میں آئندہ تم سے کوئی مطالبہ کروں گی۔ بس مجھے اپنا نام دے دو، مجھے طلاق مت دینا۔ تم دوسری شادی کر لو، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔”
”تمھیں نام کی کیا ضرورت ہے؟” وہ غرایا تھا۔
”عارفین، مجھ پر رحم کرو۔”
”تم نے مجھ پر رحم کیا تھا؟ بتائو تم نے مجھ پر ترس کھایا؟ پھر میں رحم کیسے کر سکتا ہوں؟ صبا کریم! میں عارفین عباس علی بقائمی ہوش و حواس تمھیں تین بار طلاق دیتا ہوں۔”
وہ کمرے سے نکل گیا تھا۔ تائی امی اور تایا بھی اس کے پیچھے چلے گئے تھے۔ وہ ساکت اپنی جگہ پر بیٹھی رہی۔
”صبا کریم! میں عارفین عباس علی بقائمی ہوش و حواس تمھیں تین بار طلاق دیتا ہوں۔”
آواز ایک بار پھر اس کے کانوں سے ٹکرائی تھی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اسٹڈی ٹیبل کے پاس آ گئی۔ بڑی احتیاط سے اس نے قرآن پاک اٹھایا تھا۔
”کسی نہ کسی کو تو قرآن کی حرمت کا پاس رکھنا تھا پھر اگر لوگ مجھے ترک کر دیتے ہیں تو اس پر میرا اختیار نہیں۔” وہ قرآن کو سینے سے لگائے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔
…ظ…