”انکل! مجھے آپ سے ایک بات کہنا ہے۔” اس دن اس نے ناشتے کی میز پر عارفین سے کہا تھا۔ ”کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں اپنی امی کے گھر میں رہوں۔ وہ گھر خالی ہے پھر اس طرح آپ کو بھی یہ اعتراض نہیں ہوگا کہ میں کہیں اکیلی رہ رہی ہوں کیونکہ پاس ہی پھوپھو اور دوسرے لوگوں کے گھر ہیں۔”
عارفین اس کی بات پر حیران رہ گئے تھے۔ ”سارہ! تم کس طرح کی باتیں سوچتی رہتی ہو؟ اگر تم وہاں سے ہو آئی ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم وہاں مستقل رہنے کے بارے میں سوچنے لگو۔ آخر تمھیں اس گھر میں کیا کمی ہے؟ تم یہاں خوش کیوں نہیں ہو؟” انھوں نے ناشتہ چھوڑ دیا تھا۔
”بات خوشی یا ناخوشی کی ہے تو پھر مجھے امی کے گھر میں رہ کر زیادہ خوشی ہوگی۔ اور پھر وہ بھی آپ ہی کا گھر ہے۔ میں آپ کے ہی گھر میں رہوں گی، چاہے یہاں یا وہاں۔”
”لیکن مجھے تمہارا وہاں رہنا پسند نہیں ہے اور نہ ہی میں تمھیں اس کی اجازت دوں گا۔ اگر صبا زندہ ہوتی تو وہ بھی تمھیں کبھی اس گھر میں جانے نہ دیتی۔”
وہ ان کی بات پر جھنجلا گئی تھی۔ ”کیوں آخر وہ کیوں مجھے وہاں جانے نہ دیتیں؟ ایسی کیا بات ہوئی ہے وہاں؟ ایسا کون سا کام کر دیا ہے انھوں نے کہ وہ دوبارہ کبھی اپنے گھر واپس ہی نہیں آئیں؟ حالانکہ انھیں آنا چاہیے تھا۔ انھیں دیکھنا چاہیے تھا کہ سب لوگ ان کی غلطی کو بھلا چکے ہیں انھیں معاف کر چکے ہیں۔ خاندان کی مرضی کے خلاف شادی نامناسب بات سہی لیکن اتنا بڑا جرم نہیں تھا کہ وہ ہمیشہ کے لیے اپنے خاندان سے کٹ کر رہ جاتیں۔ انھوں نے ساری عمر مجھے بھی تنہائی کے عذاب سے دوچار رکھا لیکن اب میں سب سے ملنا چاہتی ہوں، سب کے پاس جانا چاہتی ہوں۔”
وہ پہلی بار اس طرح جذباتی ہو کر بولی تھی۔ حیدر کو اس پر ترس آیا تھا۔
”پاپا! میرا خیال ہے کہ یہ اگر اپنی امی کے گھر جانا چاہتی ہیں تو یہ کوئی ایسی نامناسب بات نہیں بلکہ میرا خیال ہے، یہاں کے بجائے ان کا وہاں رہنا زیادہ بہتر ہے۔”
”وہ اس کی حمایت میں بولا تھا مگر عارفین عباس نے اسے بری طرح جھڑک دیا۔
You must keep your mouth shut. It is none of you business.
(تم اپنا منہ بند رکھو، تمہارا اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔)
حیدر کو توقع نہیں تھی کہ وہ سارہ کے سامنے اس طرح اسے جھڑک دیں گے۔ وہ سرخ چہرے کے ساتھ ناشتہ چھوڑ کر چلا گیا۔
”آپ مجھے بتائیں۔ آپ نے کیا فیصلہ کیا ہے؟” سارہ ہنوز اپنی بات پر قائم تھی۔
”سارہ! صبا کبھی بھی اتنی معمولی سی بات پر اس طرح ضد نہیں کرتی تھی جس طرح تم کر رہی ہو۔” عارفین نے اس سے کہا تھا۔ اس نے عجیب سی نظروں سے ان کو دیکھا تھا۔
”مگر میں بہت سے ایسے کام نہیں کروں گی جو امی نے کیے۔” وہ اس کی بات پر چونک گئے تھے۔ سارہ نے ان کے چہرے سے نظر ہٹا لی۔
”نہیں سارہ! میں تمھیں اس گھر میں کبھی رہنے نہیں دوں گا۔” انھوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
”ٹھیک ہے پھر آپ میرے نانا سے بات کریں۔ میں ان کے پاس جانا چاہتی ہوں۔” عارفین بے بسی سے اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئے تھے۔ وہ پہلی دفعہ اسے یوں ضد کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔
”ٹھیک ہے میں تمھارے نانا سے بات کروں گا۔”
”آپ مجھے بتائیں کہ آپ کب بات کریں گے؟”
”چند دن تک۔” وہ بے دلی سے کہہ کر ناشتے کی میز سے اٹھ گئے تھے۔
تین دن بعد ایک رات انھوں نے اسے اپنے کمرے میں بلوایا تھا۔
”میں نے تمہاری خالہ سے بات کی ہے۔ تھوڑی دیر میں آپریٹر دوبارہ کال ملا دے گا۔ تم ان سے بات کر لینا۔”
اسے دیکھتے ہی انھوں نے کہا تھا۔ اس کے دل کی دھڑکن یکدم تیز ہو گئی تھی۔ پھر فون کی بیل بجنے لگی تھی۔ عارفین نے فون اٹھایا تھا اور پھر اسے تھما دیا۔ اس نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ ریسیور پکڑا تھا۔ چند لمحوں بعد اس نے کسی عورت کی آواز سنی۔
”ہیلو سارہ!”
”ہیلو۔” اس نے ایک لفظ کہا تھا اور یکدم دوسری طرف سے ہچکیوں کی آوازیں آنے لگی تھیں۔
”میں تمہاری اقصیٰ خالہ ہوں۔ تم کیسی ہو؟” وہ عورت روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ سارہ کا دل بھر آیا۔
”میں ٹھیک ہوں۔”
”سارہ میرا دل چاہ رہا ہے، تم میرے پاس ہوتیں اور میں تمھیں گلے لگا کر اتنا پیار کرتی۔ اتنا پیار کرتی…” کسی نے اقصیٰ خالہ کے ہاتھ سے فون لے لیا تھا اور کوئی انھیں چپ ہو جانے کی تلقین کر رہا تھا۔ پھر اس نے فون پر کسی مرد کی آواز سنی۔
”سارہ! میں تمہارا ماموں ہوں۔ دیکھو تم پریشان مت ہونا نہ ہی کوئی فکر کرنا۔ چند دنوں تک تمہاری اقصیٰ خالہ پاکستان آئیں گی۔ تمھارے کاغذات وغیرہ تیار کروا کر وہ تمھیں اپنے ساتھ امریکہ لے آئیں گی۔”
بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں انھوں نے اس سے کہا تھا۔ کسی نے اس کی امی کا ذکر کیا تھا نہ ان کی کسی غلطی کا۔ وہ شاید سب کچھ بھلا چکے تھے۔ چند منٹ وہ اس سے گفتگو کرتے رہے تھے پھر انھوں نے اسے خدا حافظ کہا تھا۔ اقصیٰ خالہ ابھی بھی رو رہی تھیں۔ عظیم ماموں نے فون ان کے ہاتھ میں تھما دیا تھا اور انھوں نے اسی طرح روتے ہوئے اسے اپنا خیال رکھنے کی ہدایت کر کے فون بند کر دیا تھا۔
”اقصیٰ خالہ کچھ دنوں بعد پاکستان آئیں گی اور پھر وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں گی۔”
اس نے فون کا ریسیور رکھتے ہوئے عارفین عباس کو بتایا تھا۔ ان کا چہرہ دھواں دھواں ہو گیا تھا۔
”سارہ کیا تم چلی جائو گی؟” انھوں نے بے چینی سے اس سے پوچھا تھا۔
”انکل! میں یہاں نہیں رہ سکتی ہوں۔ مجھے اپنی Roots (بنیاد) کی طرف جانا ہے۔ وہ سب میرے اپنے ہیں، مجھے ان کی ضرورت ہے۔” اس نے دھیمی آواز میں ان سے کہا تھا۔
”تم جانتی ہو، صبا تمھیں میرے پاس رکھنا چاہتی تھی؟”
”میں جانتی ہوں لیکن امی کو یہ اندازہ نہیں ہوگا کہ ان کے گھر والے مجھے قبول کر لیں گے۔ وہ امی کی ہر غلطی کو معاف…”
”سارہ اتنی جلدی نتائج اخذ مت کرو۔ تم جو کچھ سمجھ رہی ہو، وہ سب غلط ہے۔” عارفین عباس نے اس کی بات کاٹ دی۔
”پھر آپ مجھے بتائیں۔ حقیقت کیا ہے؟” اس نے ان سے پوچھا تھا۔
وہ بے قراری سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے تھے۔ اسے ان پر بے تحاشا ترس آیا۔
”میں جانتی ہوں۔ آپ کیا چھپانا چاہتے ہیں۔ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ آپ کا دل کتنا بڑا ہے لیکن میں دائمی گھائو کی طرح آپ کے پاس رہنا نہیں چاہتی۔ میں چلی جائوں گی تو آپ آہستہ آہستہ نارمل ہو جائیں گے۔ باقی زندگی آپ کے اور میرے لیے آسان ہو جائے گی۔ میں یہاں رہوں گی تو نہ آپ ماضی بھول سکیں گے نہ میں اپنی حیثیت۔ مجھے آپ سے محبت ہے عارفین انکل! اسی لیے میں آپ کو ہر اس ذمہ داری سے آزاد کر دینا چاہتی ہوں جو آئندہ کبھی آپ کو حیدر اور اس کے بیوی بچوں کی نظر میں شرمندہ کرے۔”
سارہ نے دل میں سوچا تھا پھر وہ نم آنکھوں کے ساتھ کمرے سے چلی گئی تھی۔
…ظ…