عادل اس رات کے بعد دوبارہ لوٹ کر نہیں آیا تھا۔ اس کے ماں باپ نے ہر جگہ اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی مگر اس کا کوئی پتا نہیں چلا تھا۔ سرمد کی شادی بڑی سادگی اور افسردگی کے ماحول میں ہوئی تھی۔ سرمد کی شادی کے دوسرے دن تایا نے صبا کی امی کو ایک جگہ اس کا رشتہ طے کرنے کے بارے میں بتایا تھا۔ اس کی امی نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔
”اس شخص کی عمر پینتالیس پچاس کے لگ بھگ ہے اور اس کی پہلی بیوی چند ماہ پہلے فوت ہوئی ہے۔ اس کے چھ بچے ہیں۔ ایک فیکٹری میں مزدوری کرتا ہے، میں جانتا ہوں یہ کوئی اچھا رشتہ نہیں ہے۔ مگر جو کچھ تمہاری بیٹی کر چکی ہے اب وہ کسی اچھے گھرانے میں بیاہے جانے کے قابل رہی بھی نہیں۔ میں نے اس شخص کو صبا کے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے۔ تم جانتی ہو مجھے کسی کو دھوکے میں رکھنا نہیں آتا، وہ شخص تمہاری بیٹی کو پھر بھی قبول کرنے پر تیار ہے۔ تم دعا کرو کہ تمہاری بیٹی اس کے گھر بس جائے۔”
تایا ابا نے صبا کی امی سے کہا تھا۔ وہ منہ پر دوپٹہ رکھ کر رونے لگی تھیں۔
تیسرے روز شام کو تایا اپنے ساتھ اس شخص اور قاضی اور گواہوں کو لائے تھے۔ صبا چیخی چلائی تھی نہ اس نے مزاحمت کی تھی۔ طوفان گزر جانے کے بعد والی خاموشی اور سکون کے ساتھ اس نے نکاح نامے پر دستخط کر دیے تھے۔ پھر اسی خاموشی کے ساتھ اس نے وہ لباس پہن لیا تھا جو امی اس کے کمرے میں چھوڑ کر گئی تھیں۔
امی نے اس سے کہا تھا ”تم آج آخری دن اس گھر میں ہو، یہاں سے جو کچھ لینا چاہتی ہو لے لو، دوبارہ کبھی تمھیں یہاں نہیں آنا ہے تم ہمارے لیے مر گئیں اور ہم تمھارے لیے مر گئے۔”
”میں واقعی آج مر گئی ہوں اور مرنے والے اپنے ساتھ کچھ لے کر نہیں جایا کرتے۔ ان کی چیزیں خیرات کر دی جاتی ہیں۔ آپ بھی میرا سب کچھ اللہ کے نام پر خیرات کر دیجئے گا جیسے آپ نے مجھے کیا ہے۔”
اس نے اسی سکون سے اپنی ماں سے کہا تھا اور پھر واقعی وہ کچھ لے کر نہیں گئی تھی سوائے ان تین کپڑوں کے جو اس کے جسم پر تھے۔ وہ اپنے کمرے کی ہر چیز اسی طرح کھلی چھوڑ گئی تھی جیسے وہ پہلے پڑی ہوئی تھی۔
عارفین کو اس کی شادی کی خبر ہو گئی تھی مگر اس نے کچھ نہیں کہا تھا کہنے کو اب باقی رہ بھی کیا گیا تھا۔
”تم فکر نہ کرو عارفین! تم دیکھنا، میں تمھارے لیے کیسی پری ڈھونڈتی ہوں۔” تائی امی نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی تھی۔
”نہیں امی! مجھے اب پریوں کی ضرورت نہیں رہی آپ میرے لیے کوئی لڑکی ڈھونڈنے کی کوشش نہ کریں۔”
”لو تم اب اس کے لیے کیا جوگ لے کر بیٹھو گے، کیا تم شادی ہی نہیں کرو گے؟”
”میں نے کب کہا کہ میں جوگ لے کر بیٹھوں گا یا میں شادی نہیں کروں گا، میں شادی ضرور کروں گا لیکن اپنی مرضی سے۔ آپ کو اس سلسلے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔” اس نے رکھائی سے ماں سے کہا تھا۔
”کیا ابھی بھی مرضی کی شادی کا بھوت سر سے نہیں اترا، دیکھ تو لیا ہے ایسے رشتوں کا کیا انجام ہوتا ہے۔”
تائی امی نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ وہ خاموش رہا تھا، وہ بحث نہیں کرنا چاہتا تھا، جانتا تھا اس کے پاس کوئی دلیل نہیں جس کی بنا پر وہ بحث کر سکے۔
چند دنوں کے بعد وہ واپس فرانس چلا گیا۔ دو ماہ بعد اس نے تایا کو اپنی شادی کی تصویروں کے ساتھ شادی کی اطلاع دی تھی۔ پورا خاندان سکتے میں آ گیا تھا، ان کے خاندان میں پہلی بار کسی نے غیر ملکی عورت سے شادی کی تھی۔ ٹریسی اس کے ساتھ اسی پاکستانی بینک میں کام کرتی تھی۔ جس میں وہ کرتا تھا۔ وہ جانتا تھا وہ اس کے لیے پسندیدگی کے جذبات رکھتی ہے۔ اس نے کچھ عرصہ اس سے ملاقاتیں کرتے رہنے کے بعد اسے پروپوز کر دیا تھا۔ ٹریسی نے فوراً اس کا پرپوزل قبول کر لیا تھا۔ شادی سے پہلے اس نے اسلام قبول کر لیا تھا اور عارفین نے اس کا نام اسماء رکھا تھا۔ اس نے اسماء کو صبا کے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا۔ وہ اسے اپنے ماضی کے بارے میں کسی دھوکے میں رکھنا نہیں چاہتا تھا۔ اسماء اچھی بیوی ثابت ہوئی تھی۔ عارفین اپنے انتخاب سے مایوس نہیں ہوا تھا۔ حیدر کی پیدائش فرانس ہی میں ہوئی تھی اور حیدر کی پیدائش کے بعد اسماء نے جاب چھوڑ دی تھی۔
عارفین کی شادی کے بعد دوسرا دھچکا تائی اور تایا کو تب لگا تھا جب عارفین کی شادی کے ایک ماہ بعد ان کی سب سے بڑی بیٹی اپنے چاروں بچوں کے ساتھ بیوہ ہو کر ان کے در پر آ گئی تھیں۔
تائی امی بالکل گم صم ہو کر رہ گئی تھیں۔ اب انھیں بہت کچھ یاد آنے لگا تھا۔ ان کی راتوں کی نیند غائب ہو گئی تھی۔ وہ ساری ساری رات بیٹھی پتا نہیں کیا کیا سوچتی رہتیں۔
بڑی بیٹی کے بیوہ ہونے کے چار ماہ بعد ان کی دوسری بیٹی بھی طلاق لے کر ان کے گھر آ گئی تھی۔ اس کے شوہر نے کسی طوائف سے شادی کر لی تھی اور اس کے کہنے پر اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی۔
تایا کی کمر ٹوٹ گئی تھی۔ ان کا غصہ یکدم ختم ہو گیا تھا اور تائی امی۔ تائی امی اب سارا دن عبادت میں مصروف رہتی تھیں وہ کیا پڑھتی تھیں کوئی نہیں جانتا تھا۔ وہ کیا مانگتی تھیں۔ اللہ خوب جانتا تھا۔
صبا کی شادی کے چھ ماہ بعد اس کی امی اور بہن بھائی امریکہ چلے گئے تھے ان کے لیے اس رسوائی کا سامنا کرنا بہت مشکل ہو گیا تھا جو صبا کی وجہ سے ہوئی تھی۔ صبا کی امی کو اب اقصیٰ کی شادی کرنا تھی اور وہ جانتی تھیں خاندان میں کوئی اس کا رشتہ نہیں لے گا۔ صبا کے ابو نے ان سب کو اپنے پاس بلا لیا تھا۔
…ظ…