”پاپا آپ ڈاکٹر کے پاس گئے تھے؟” حیدر شام کو گھر آتے ہی سیدھا باپ کے کمرے میں گیا تھا۔ پچھلے کچھ دنوں سے عارفین کی طبیعت خراب تھی۔
”ہاں۔ میں ڈاکٹر کے پاس گیا تھا، بس بلڈ پریشر کچھ ہائی تھا۔ باقی سب کچھ ٹھیک ہے۔” حیدر کو وہ بہت تھکے ہوئے لگے۔ وہ ان کے پاس صوفے پر بیٹھ گیا۔
”پاپا! اگر سارہ اپنے گھر والوں کے پاس چلی جائے گی تو اس میں اتنی پریشانی والی کون سی بات ہے۔ اسے آج نہیں تو کل یہاں سے جانا ہی تھا اور جس طرح اس کی خالہ یا ماموں اس کا خیال رکھ سکتے ہیں۔ اس طرح میں یا آپ نہیں رکھ سکتے۔ پھر اتنی سی بات پر آپ نے اتنی ٹینشن کیوں لے لی ہے؟”
وہ ان کی طبیعت کی خرابی کی وجہ جانتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ وہ سارہ کے جانے کی وجہ سے ٹینشن کا شکار ہیں۔ عارفین نے نیوز پیپر تہہ کر کے میز پر رکھ دیا۔
”حیدر! وہ سارہ کو دوبارہ مجھ سے ملنے نہیں دیں گے۔” انھوں نے پہلی بار اپنے خدشے کا اظہار کیا تھا۔
”کیوں ملنے نہیں دیں گے؟” وہ حیران ہوا تھا۔
”میں جانتا ہوں۔ وہ اسے دوبارہ پاکستان میرے پاس نہیں آنے دیں گے۔ پہلے صبا چلی گئی تھی۔ اب سارہ چلی جائے گی۔ میں ساری زندگی ضمیر کی آگ میں جلتا رہوں گا۔” عارفین عباس نے جیسے خود کلامی کی تھی۔
”پاپا! آپ کیا کہہ رہے ہیں؟” وہ ان کی بات نہیں سمجھا تھا۔
”کچھ نہیں۔” انھوں نے ایک گہری سانس لے کر چہرے کو ہاتھوں سے ڈھانپ لیا۔
”پاپا! اگر سارہ دوبارہ ہم سے نہیں ملتی تو بھی کیا ہے۔ اسے ہمارے پاس رہتے تین ماہ تو ہوئے ہیں ہم دونوں پہلے بھی اکیلے رہتے تھے۔ اب بھی رہیں گے۔ اس میں پرابلم کیا ہے؟”
”پہلے کی بات اور تھی حیدر! اب مجھے اس کے جانے سے وحشت ہو رہی ہے۔ میں اس کے وجود کے بغیر اس گھر کا تصور نہیں کر سکتا میں اسے ہمیشہ کے لیے یہاں رکھنا چاہتا ہوں۔” وہ بے حد بے چین تھے۔
”پاپا! آپ اسے کبھی بھی ہمیشہ کے لیے نہیں رکھ سکتے۔ اگر آپ اسے کسی نہ کسی طرح یہاں رہنے پر مجبور کر بھی لیں تو بھی ایک نہ ایک دن تو آپ کو اس کی شادی کرنا ہی ہوگی پھر آپ کیا کریں گے۔ میں آپ کے اور صبا کے بارے میں سب نہیں جانتا ہوں جو کچھ آپ نے مجھے بتایا تھا اس کے حوالے سے میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ آپ ماضی کو بھول جائیں۔ صبا مر چکی ہیں اور سارہ یہاں رہنا نہیں چاہتی۔ ہمیں اس کی خواہش کا احترام کرنا چاہیے۔” وہ باپ کو کسی بڑے کی طرح سمجھا رہا تھا۔
”حیدر! صبا، سارہ کو میرے سپرد کر کے…”
”ہاں وہ آپ کے سپرد کر کے گئی تھیں مگر وہ یہ بھول گئی تھیں کہ سارہ کوئی چھوٹی بچی نہیں ہے جسے ایک گارجین کی ضرورت ہوگی۔ وہ بالغ ہے۔ اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق رکھتی ہے اور ہم اسے روک نہیں سکتے۔”
عارفین نے یکدم اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔ ”حیدر! ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم اس سے شادی کر لو؟” انھوں نے بڑی لجاجت سے کہا تھا وہ ان کی بات پر دم بخود رہ گیا۔
”پاپا؟ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟”
”ہاں حیدر! تم اس سے شادی کر لو۔ اس طرح تو وہ یہاں رہ سکتی ہے۔”
”پاپا! میں اس سے شادی نہیں کر سکتا۔”
”کیوں کیا تم کسی اور لڑکی کوپسند کرتے ہو؟” عارفین نے بے چینی سے پوچھا تھا۔
”نہیں پاپا! آپ جانتے ہیں میرا Passion (عشق) صرف میرا پروفیشن ہے۔ میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا۔ آج بھی کہتا ہوں کہ شادی میں آپ کی پسند سے کروں گا۔ لیکن میں اس وقت شادی نہیں کر سکتا۔ مجھے اپنا کیریئر بنانا ہے، ایک ٹاپ بینکر بننا ہے۔ اس اسٹیج پر شادی کر کے میں اپنا فیوچر تباہ نہیں کر سکتا۔” اس نے بڑی رسانیت سے باپ کو سمجھایا تھا۔
”تمہارا فیوچر برباد ہوگا نہ کیریئر۔ سارہ سے شادی سے تمھیں کوئی نقصان نہیں ہوگا پھر میرا سب کچھ تمہارا ہی تو ہے۔ تمھیں کس چیز کی فکر ہے؟ میں ہوں نا تم دونوں کو سپورٹ کرنے کے لیے۔”
”پاپا! شادی صرف میری رضامندی سے نہیں ہو سکتی۔ سارہ کا راضی ہونا بھی ضروری ہے۔ میں اگر شادی پر مان بھی جائوں تو کیا وہ راضی ہو گی؟” حیدر الجھن میں پڑ گیا تھا۔
”تم سارہ کی فکر مت کرو۔ میں اس سے بات کر لوں گا۔ تم صرف یہ بتائو کہ تمھیں تو اس رشتہ پر کوئی اعتراض نہیں؟”
حیدر ایک طویل سانس لے کر رہ گیا تھا۔
”پاپا میں شادی ابھی نہیں کر سکتا۔ شادی تین چار سال بعد ہی کروں گا ہاں آپ انگیجمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو وہ کر دیں مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔”
عارفین عباس کا چہرہ دمک اٹھا تھا۔ ”تھینک یو حیدر! تم دیکھنا سارہ بہت اچھی بیوی ثابت ہوگی۔”
حیدر کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔
…ظ…