Blog

MZZB Cover

وہ اسے پہچان نہیں سکا تھا۔ زرد رنگت، سیاہ حلقوں میں دھنسی ہوئی آنکھوں اور ابھری ہڈیوں والا وہ چہرہ صبا کا چہرہ نہیں ہو سکتا تھا مگر وہ تھا۔ اس کی آنکھوں میں وہ چمک نہیں تھی جو اسے مسحور کر دیتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں کچھ بھی نہیں تھا۔ اسے لگا تھا اس کا پورا وجود پانی بن کر بہنے لگا ہو۔ وہ گھر پر نہیں تھی اور وہ شام تک اس کے دروازے پر کھڑا اس کا انتظار کرتا رہا تھا پھر وہ آ گئی تھی۔ گود میں ایک چھوٹی بچی کو اٹھائے جسم کو ایک کالی چادر میں چھپائے اس نے دروازے پر اسے دیکھ لیا تھا۔ ایک نظر ڈالنے کے بعد اس نے دوبارہ اس پر نظر نہیں ڈالی تھی۔



”صبا! میں تمھیں لینے آیا ہوں۔”
اسے لگا تھا یہ جملہ بولتے ہوئے اس کے حلق میں کتنے ہی کانٹے چبھ گئے تھے۔ وہ خاموش رہی تھی اپنی بچی کو اس نے دہلیز پر بٹھا دیا اور ایک چابی سے تالا کھولنے لگی۔
”صبا! کیا مجھے معاف کر دو گی؟”
تالا کھل گیا تھا۔ اس نے اپنی بچی کو اٹھایا اور دروازہ کھول کر اندر جانے لگی۔
”صبا! میری بات کا جواب دو۔” عارفین نے دروازہ پکڑ لیا تھا۔
”اندر آ جائو یہاں تماشا نہ بنائو۔” وہ دروازہ کھلا چھوڑ کر اندر چلی گئی تھی۔ وہ اس کے پیچھے اندر آ گیا تھا۔ اس نے اندر جا کر لائٹ آن کی تھی اور اپنی بچی کو ایک چارپائی پر بٹھا دیا۔
”کہو کیا چاہتے ہو اب مجھ سے؟” وہ خود کھڑی رہی تھی۔
”صبا! مجھے معاف…”
”میں نے معاف کیا اور؟” صبا نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔
”کیا تم ایک بار میری ماں سے مل سکتی ہو؟ وہ بہت بیمار ہیں، تم سے معافی مانگنا چاہتی ہیں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ وہ اب زیادہ دن زندہ نہیں رہیں گی۔”
اسے بات کرتے کرتے احساس ہوا، وہ اس پر نظر جمائے کھڑی تھی، اس کا چہرہ بے تاثر تھا۔ وہ بات کرتے کرتے چپ ہو گیا۔ اسے یاد آ گیا تھا۔ طلاق دیتے وقت بھی وہ اسے اسی طرح دیکھ رہی تھی۔
”صبا! جو میں نے تمھارے ساتھ کیا، وہ تم میرے ساتھ مت کرنا۔” وہ آہستہ سے گڑگڑایا تھا۔
”میں آ جائوں گی، اب تم جائو۔” وہ اپنی بچی کے پاس چارپائی پر بیٹھ گئی تھی۔
عارفین کو یوں لگا جیسے کسی نے اس کے حلق پر پائوں رکھ کر زور زور سے پیر دبانا شروع کر دیا تھا۔
”صبا تم چیخو چلائو۔ مجھے گالیاں دو۔ کہو میں نہیں آئوں گی۔ تمہاری ماں مرتی ہے تو مر جائے۔ میری طرف سے تم جہنم میں جائو۔ مجھے کچھ تو کہو مگر یوں میری بات نہ مانو۔”
وہ نہیں جانتا۔ اسے کیا ہوا تھا۔ بس وہ بلک بلک کر رونے لگا تھا۔ وہ چپ رہی تھی۔ اس نے اپنی بیٹی کو گود میں بٹھا لیا تھا۔ عارفین کو یاد تھا وہ چھوٹی چھوٹی بات پر رو پڑتی تھی۔ ذرا سی بات پر اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے۔ آج اسے کچھ نہیں ہو رہا تھا۔ وہ اس طرح اسے دیکھ رہی تھی جیسے اسے پہلی بار دیکھ رہی ہو۔ وہ کتنی ہی دیر روتا رہا تھا پھر آستینوں سے آنکھیں رگڑتے ہوئے وہاں سے آ گیا تھا۔
وہ دوسرے دن سہ پہر کو آئی تھی۔ عارفین ماں کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ تائی امی کراہ رہی تھی۔ اس نے اسے دروازے پر کھڑے دیکھ لیا تھا۔ وہ کل کی طرح آج بھی اپنی بیٹی کو اٹھائے ہوئے تھی۔
تایا ابا نے اسے دیکھا تو بے اختیار اٹھ کر کھڑے ہو گئے تھے۔ ”صبا! آئو اندر آئو۔”
وہ اندر آ گئی تھی۔ تایا نے اسے گلے لگانا چاہا تھا۔ اس نے بڑے سکون سے انھیں ہاتھ سے روک دیا۔
”اس کی ضرورت نہیں ہے۔”
عارفین نے اسے کہتے سنا تھا۔ پتا نہیں کس طرح سب گھروں میں اس کے آنے کی خبر ہو گئی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کے پیچھے لوگ آنے لگے تھے۔ کمرہ لوگوں سے بھرنے لگا تھا۔
”امی! صبا آئی ہے۔” عارفین نے ماں کو اطلاع دی تھی۔ وہ ماںکے پاس سے اٹھ گیا۔
”کہاں ہے صبا؟ کہاں ہے وہ؟ اسے میرے سامنے لائو۔ میں دیکھنا چاہتی ہوں اسے۔” تائی نے اٹھنے کی جدوجہد شروع کر دی تھی لیکن ان سے اٹھا نہیں گیا تھا۔
وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ان کے پاس رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی تھی تائی نے اسے دیکھ لیا تھا۔ یکدم وہ خاموش ہو گئی تھیں لیکن ان کا جسم لرز رہا تھا، ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ پھر سب نے دیکھا تھا انھوں نے آہستہ آہستہ اپنے کانپتے ہوئے ہاتھ اس کے آگے جوڑ دیے تھے۔ صبا نے بڑے سکون سے ان کے جڑے ہوئے ہاتھ کھول دیے تھے۔
”میں نے آپ کو معاف کیا۔ میرے دل میں آپ کے خلاف کچھ نہیں ہے۔” وہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ تائی امی نے یکدم بچوں کی طرح بلک بلک کر رونا شروع کر دیا تھا۔
”میں نے تم پر بہت ظلم…” تایا آگے آ گئے تھے۔ صبا نے ان کی بات کاٹ دی تھی۔
”میں نے آپ کو بھی معاف کیا۔ میں نے سب کو معاف کیا۔” اس نے کہا تھا اور پھر وہ اپنی بچی کو اٹھائے دروازے کی طرف بڑھ گئی تھی۔
”صبا! تم کہیں مت جائو۔ تم ہمارے پاس رہو۔ اپنے گھر آ جائو۔” چھوٹے تایا نے اسے روکنا چاہا تھا۔
”تایا! مجھے رہنے کے لیے گھر نہیں جگہ چاہیے، وہ میرے پاس ہے۔” وہ رکی نہیں تھی پھر ہر ایک نے اسے روکنا چاہا تھا۔ تایا اب روتے ہوئے اس کے پیچھے دروازے تک گئے تھے مگر وہ نہیں ٹھہری تھی۔ جس خاموشی سے اور سکون کے ساتھ وہ آئی تھی۔ اسی خاموشی اور سکون کے ساتھ چلی گئی تھی۔
…ظ…

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!