”اس میں اعتراض والی بات کون سی ہے۔ ہر ایک اپنی بچی کا تحفظ چاہتا ہے۔ سارہ کے ماں باپ نہیں ہیں۔ رشتے کے لحاظ سے میں ہی اس کی سرپرست ہوں پھر اگر میں اس کے تحفظ کے لیے ایسی ضمانت چاہتی ہوں تو اس میں کیا برائی ہے؟”
اقصیٰ نے اس کے نکاح سے کچھ دیر پہلے حق مہر میں عارفین کے گھر کا مطالبہ کیا تھا۔ عارفین نے اس کے مطالبے پر صبا کا گھر سارہ کے نام کر دینے کی پیشکش کی تھی لیکن اقصیٰ صبا کے گھر کے ساتھ ساتھ عارفین کا گھر بھی سارہ کے نام لکھوانا چاہتی تھیں۔ عارفین کو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن حیدر اس پر بگڑ گیا تھا۔
”یہ سب کیا ہو رہا ہے پاپا؟ یہ ہوتی کون ہیں اس طرح کی ڈیمانڈز کرنے والی؟ پہلے انھوں نے فوری شادی کا ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا۔ میں نے آپ کے مجبور کرنے پر اس پر رضامندی ظاہر کر دی اور اب یہ حق مہر میں بے جا مطالبات پیش کر رہی ہیں۔ سارہ کے لیے کیا پانچ لاکھ، زیورات اور اس کی امی کا گھر حق مہر میں کافی نہیں ہے جو یہ آپ کے گھر کے لیے کہہ رہی ہیں۔ میں ان کا یہ مطالبہ ہرگز نہیں مانوں گا۔ چاہے جو مرضی ہو جائے۔ وہ گھر آپ کا ہے اور میں کسی صورت میں کسی اور کا ہونے نہیں دوں گا۔ ان کو اگر اتنی چیزیں قبول نہیں ہیں تو یہ اپنی بھانجی کی شادی کہیں اور کر لیں۔”
وہ بے حد برہم تھا اور کسی طور پر عارفین کی بات ماننے پر آمادہ نہیں ہو رہا تھا۔
”حیدر! تم جذباتی مت بنو۔ یہ گھر سارہ کے نام کر دینے سے کیا فرق پڑے گا۔ یہ گھر میرے نام ہو۔ تمھارے نام ہو یا سارہ کے نام۔ ایک ہی بات ہے۔ رہنا تو ہم تینوں کو ہی ہے یہاں؟” عارفین نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
”آپ کو فرق پڑتا ہے یا نہیں مجھے پڑتا ہے۔ جو چیز آپ کی محنت کی ہے وہ میں یا میری بیوی کیسے ہتھیا سکتے ہیں۔ انھیں مطالبات میری حیثیت دیکھ کر کرنا چاہئیں آپ کی حیثیت دیکھ کر نہیں۔” وہ ابھی بھی اپنی بات پر اڑا ہوا تھا۔
”حیدر! یہاں مسئلہ سارہ کی ذات کا ہے۔ میں ایک مکان کی خاطر اس کے نکاح پر کوئی جھگڑا کرنا نہیں چاہتا۔ اس طرح شادی سے انکار کرنے سے تمھیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مگرسارہ کو پڑے گا اور میں ایسا کوئی کام نہیں ہونے دوں گا جس سے اس کی فیلنگز ہرٹ ہوں۔”
انھوں نے کسی نہ کسی طرح اسے سمجھا بجھا لیا تھا لیکن حیدر کا دل بری طرح کھٹا ہو چکا تھا۔ وہ پہلے ہی اتنی جلدی شادی کی وجہ سے بہت خوش نہیں تھا اور اب اقصیٰ کے ایسے مطالبات نے رہی سہی کسر پوری کر دی تھی۔ لیکن اس نے محسوس کیا تھا کہ عارفین اس صورت حال سے نہ تو پریشان تھے اور نہ ہی ناخوش۔
اقصیٰ نے واقعی شادی جلدی کرنے کے لیے شور مچایا تھا۔ وہ واپس جانے سے پہلے سارہ کی شادی کر دینا چاہتی تھیں۔ عارفین کی رضامندی کے بعد انھوں نے اپنے بھائی اور باپ کو بھی امریکہ سے اپنی فیملی کے ساتھ بلوا لیا تھا۔ عارفین کے انکار کے باوجود ان لوگوں نے سارہ کے لیے جہیز خریدنا شروع کر دیا تھا اور انھوں نے سارہ کے لیے ہر وہ چیز خریدی تھی جس کی اسے ضرورت ہو سکتی تھی۔ نکاح، مہندی سے کچھ دیر پہلے کیا گیا تھا اور دوسری شام سارہ کی رخصتی تھی۔ عارفین کی بڑی بہن نے حق مہر کے سلسلے میں اقصیٰ کے مطالبات سے سارہ کو بھی آگاہ کر دیا تھا۔ وہ جہاں پریشان ہوئی تھی وہیں بے حد شرمندہ بھی تھی۔ نکاح کے بعد جب سب لوگ کمرے سے چلے گئے تو اس نے اقصیٰ سے اس بات کی شکایت کی مگر انھوں نے اس کی بات یہ کہتے ہوئے سنی اَن سنی کر دی۔
”تم ابھی چھوٹی ہو، دنیا کو سمجھ نہیں سکتی ہو۔ میں نے جو کچھ کیا تمھارے محفوظ مستقبل کے لیے کیا اور ٹھیک کیا۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر تم یا کوئی اور اعتراض کرے۔”
وہ یہ کہہ کر کمرے سے نکل کر گھر کے برآمدے میں آ گئی تھیں۔ سامنے صحن روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ مہندی کی رسم مشترکہ طور پر ایک ہی جگہ انجام دی جانی تھی، مہندی عارفین کے گھر کے بجائے تایا کے گھر سے صحن میں آنی تھی اور وہیں پر تمام رسومات سرانجام دی جانی تھیں۔ اس کے بعد صبا کے گھر سے ان سب نے حیدر کی مہندی لے کر تایا کے گھر جانا تھا، سارا انتظام صحن میں کیا گیا تھا اور اسے خوب سجایا گیا تھا ہمیشہ شادی کی تقریبات کے لیے صحن کو ہی استعمال کیا جاتا تھا کیونکہ وہ بڑا تھا اور اس میں بہت زیادہ مہمان بٹھائے جا سکتے تھے، ایک تھکاوٹ سی ان کے وجود پر چھاتی جا رہی تھی، وہ برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئیں۔
”کیا بات ہے اقصیٰ! تم یہاں کیوں بیٹھی ہو؟ تیار کیوں نہیں ہو رہیں؟” عظیم نے اندر سے باہر آتے ہوئے ان سے پوچھا تھا۔
”عظیم میرے دل کو کچھ ہو رہا ہے۔ پتا نہیں ہم یہ سب ٹھیک کر رہے ہیں یا نہیں پتا نہیں ہمیں سارہ کا رشتہ حیدر کے ساتھ کرنا چاہیے تھا یا نہیں؟” وہ بے چین تھیں۔
”اقصیٰ! اب ایسی باتیں سوچنے کا وقت ہے نہ موقع، سارہ کا نکاح ہو چکا ہے۔ کچھ دیر بعد مہندی کی رسم ادا کی جائے گی اور کل شام اس کی رخصتی ہے پھر اب ایسی باتوں پر ملال کا فائدہ؟” انھوں نے نرمی سے بہن کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے سمجھایا تھا۔
”ہاں، بس ملال ہی تو نہیں جاتا۔ ملال ہی تو نہیں جاتا۔” اقصیٰ کی بے چینی میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔
”تم پریشان مت ہو۔ حیدر اچھا لڑکا ہے۔ سارہ کا خیال رکھے گا پھر سارہ بھی اسے پسند کرتی ہے۔”
”صرف اسی ایک وجہ سے، صرف اسی ایک وجہ سے میں نے یہ رشتہ قبول کر لیا تھا، ورنہ عظیم، میں کبھی سارہ کو اس ذلیل خاندان میں جانے نہ دیتی۔ یہ لوگ اس قابل نہیں ہیں کہ صبا کی بیٹی ان کے پاس جائے۔”
اقصیٰ خود پر ضبط نہیں کر سکی تھیں اور رونے لگی تھیں، عظیم کچھ افسردگی سے خود بھی اقصیٰ کے پاس بیٹھ گئے۔
”اقصیٰ! جو کچھ ہو چکا، اسے بھولنے کی کوشش کرو۔” انھوں نے بہن کا ہاتھ تھام کر اسے چپ کروانے کی کوشش کی۔
”میں کیا کروں عظیم! مجھے کچھ بھولتا نہیں۔ مجھے کچھ بھولتا ہی تو نہیں۔ مجھے آج بھی ایک ایک بات یاد ہے۔ ایک ایک منظر نقش ہے میرے دل پر، یہی گھر تھا۔ یہی لوگ تھے۔ اسی طرح سب کچھ سجا ہوا تھا۔ اسی طرح سب لوگ ہنس بول رہے تھے جب تائی امی نے نیچے آ کر چیخنا چلانا شروع کر دیا تھا۔ کسی کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ میں بھی امی کے ساتھ حواس باختہ اوپر گئی تھی اور وہاں تائی نے اسے عادل کے ساتھ کمرے سے نکالا تھا۔ میرا دل کہہ رہا تھا، میری بہن نے کچھ نہیں کیا مگر وہ اس قدر خوفزدہ تھی کہ کچھ بول ہی نہیں پا رہی تھی۔ اسے یقین نہیں آیا ہوگا کہ تائی اس کی ساس اس کے ساتھ یہ دھوکا کر سکتی ہیں۔ آج عارفین کی بڑی بہن کو ایک معمولی گھر حق مہر میں لکھواتے ہوئے اتنا اعتراض ہوا کہ وہ یہ بات بتانے کے لیے سارہ کے پاس جا پہنچی اور اس شام وہی دوپٹے کے بغیر صبا کو دھکے دیتے ہوئے نیچے لائی اور اسے ننگے سر اور ننگے پائوں صحن میں دھکیل دیا تھا۔ میں یہیں بیٹھی ہوئی تھی جہاں آج بیٹھی ہوں اور مجھے لگ رہا تھا۔ کوئی میرے وجود کو چھری سے کاٹ رہا ہے۔ تم بھی تو کھڑے تھے نا یہیں پاس ہی تو کھڑے تھے جب تایا نے اسے صحن کے بیچوں بیچ جوتوں سے مارنا شروع کیا تھا۔ تمھیں یاد ہے نا۔ امی، ابو نے اسے کبھی سخت ہاتھ تک نہیں لگایا تھا اور اس شخص نے سب کے سامنے اس کے سر پر جوتے مارے تھے اور میں عظیم! میں نے کچھ بھی نہیں کیا تھا۔ میں بس یہیں بیٹھی روتی چیختی رہی تھی اور سب لوگ برآمدوں میں تماشا دیکھتے رہے تھے۔ کسی نے آگے بڑھ کر تایا کا ہاتھ روکنے کی کوشش نہیں کی، تمھیں یاد ہے۔ وہ ایک بار بھی نہیں چیخی تھی۔ اس نے کتنی خاموشی کے ساتھ سر جھکا کر مار کھائی تھی۔ اس کے ساتھ کسی نے اچھا سلوک نہیں کیا نہ ہم نے نہ کسی اور نے۔ تم اسے جان سے مار ڈالنا چاہتے تھے جب تائی نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی قسم کھا لی تھی کہ اسے اور عادل کو انھوں نے عارفین کے کمرے میں نہیں بھیجا تھا اور صبا نے قرآن پر ہاتھ رکھنے سے انکار کر دیا تھا، پھر عارفین نے اسی کمرے میں اسے کھڑے کھڑے طلاق دے دی تھی تب میرا دل چاہا تھا میں صبا کو مار دوں۔ مجھے بھی باقی سب کی طرح یقین آ گیا تھا کہ وہی مجرم ہے مگر وہ مجرم نہیں تھی۔ مجرم تو ہم تھے گناہ تو ہم سے ہوئے تھے اور یہ خاندان تو سات پشتوں تک صبا کا مقروض رہے گا کس کس چیز کا قرض اتاریں گے۔ تایا کو خود مختاری کی بیماری تھی۔ فیصلوں کا شوق تھا۔ بڑا زعم تھا اپنی خاندانی نجابت پر۔ وہ کس کس گناہ کا کفارہ ادا کریں گے۔ صبا کو ایک بوڑھے کی دوسری بیوی بنا دینے کا؟ یا سارہ پر ناجائز اولاد کا ٹھپہ لگوا دینے کا؟ یا شادی کے چار ماہ بعد اسے طلاق ہو جانے کا؟ اس خاندان کی جھولی گناہوں سے بھری ہوئی ہے اور ہم… ہم ایک بار پھر ان سے رشتے استوار کر رہے ہیں۔ سارہ کو اس گندگی میں پھینک رہے ہیں۔ یہ لوگ کیا اس قابل ہیں کہ انھیں معاف کیا جائے؟ ان کی وجہ سے ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے تھے۔ ان کی وجہ سے ہمیں یہ گھر چھوڑ کر جانا پڑا اور یہ سب دیکھو، یہ سب کتنے خوش، کتنے مطمئن ہیں۔ انھیں احساس ہی نہیں ہے کہ انھوں نے کتنی زندگیاں برباد کر دی ہیں۔ یہ تو اس شادی کے ذریعے اپنے کفارے ادا کر رہے ہیں۔ اپنی عاقبت سنوار رہے ہیں ورنہ انھیں سارہ کی کیا پرواہ ہو سکتی ہے؟”
وہ سسکتی رہی تھیں۔ عظیم دل گرفتگی کے عالم میں سر جھکائے خاموشی سے ان کے پاس بیٹھے رہے۔
”کچھ بھی ہو اقصیٰ! سارہ کے ساتھ وہ سب نہیں ہو سکتا جو صبا کے ساتھ ہوا، اس وقت ہم بے بس تھے۔ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ صبا کو بچا سکتے تھے نہ اسے تحفظ دے سکتے تھے۔ اب حالات ویسے نہیں ہیں۔ اب ہم سارہ کو سپورٹ کر سکتے ہیں پھر عارفین اور حیدر دونوں سارہ کا خیال رکھیں گے۔ تم پریشان مت ہو اقصیٰ۔”
عظیم نے انھیں تسلی دینے کی کوشش کی تھی وہ بھائی کے کندھے سے لگ کر رونے لگیں۔ صحن میں چہل پہل بڑھتی جا رہی تھی۔ مہندی لے جانے کے لیے سب لوگ تایا کے گھر اکٹھے ہو رہے تھے۔ اقصیٰ کی بڑی بیٹی باہر آ گئی تھی۔
”افوہ امی! آپ اب تو آ کر تیار ہو جائیں۔ وہ لوگ آنے والے ہیں، جلدی کریں۔ اب یہ رونا دھونا ختم کریں۔”
وہ آ کر ماں کا بازو کھینچنے لگی تھی۔ اقصیٰ آنکھیں پونچھتے ہوئے تیار ہونے کے لیے اندر آ گئی تھیں۔ رات دیر گئے مہندی کا ہنگامہ جاری رہا تھا۔
…ظ…