Blog

MZZB Cover

”بس مجھے یہاں اتار دیں میں تھوڑی دیر میں آ جائوں گی۔” سارہ نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا تھا۔
”میں بھی تمھارے ساتھ چلتی ہوں۔” اقصیٰ نے بھی گاڑی سے اترنا چاہا تھا لیکن سارہ نے انھیں روک دیا۔
”نہیں خالہ! مجھے اکیلے ہی جانا ہے۔ آپ کے ساتھ جانا مجھے اچھا نہیں لگے گا، میں بس اپنی دوست سے مل کر واپس آ جائوں گی۔”



اس نے گاڑی سے اتر کر دروازہ بند کر دیا تھا۔ اقصیٰ نے بادل نخواستہ اسے جانے دیا۔ وہ اسے تیار کروانے کے لیے بیوٹی پارلر لے کر جا رہی تھیں، جب اس نے اپنی کسی دوست سے ملنے کی فرمائش کی تھی اور ڈرائیور کو پتا بتایا تھا۔ اقصیٰ نے بڑے آرام سے ڈرائیور کو وہاں جانے کا کہہ دیا تھا کیونکہ بارات کو شام پانچ بجے آنا تھا اور اس وقت صرف ایک بجا تھا۔ گاڑی میں اقصیٰ کے ساتھ ان کی بڑی بیٹی افشاں اور عظیم کی بیوی بھی تھی۔ قائداعظم روڈ پر ایک بلند و بالا کمرشل عمارت کے سامنے اس نے گاڑی رکوائی تھی۔
”یہیں اوپر اس کا فلیٹ ہے۔”
سارہ نے اقصیٰ کو بتایا تھا۔ پھر وہ گاڑی سے اتر کر چلی گئی تھی۔ ڈرائیور نے کار پارکنگ میں گاڑی کھڑی کر دی اور وہ آپس میں باتیں کرتے ہوئے اس کا انتظار کرنے لگیں۔ انھیں وہاں بیٹھے پندرہ منٹ گزر گئے لیکن وہ باہر نہیں آئی۔ اقصیٰ نے گھڑی دیکھنا شروع کر دیا تھا پھر آدھ گھنٹہ گزر گیا لیکن وہ باہر نہیں آئی اب اقصیٰ کو بے چینی ہونے لگی تھی۔ بیوٹیشن کے ساتھ ان کی دو بجے کی اپائنٹمنٹ تھی اور ڈیڑھ یہیں بج چکا تھا۔
”تم لوگ بیٹھو، میں اسے دیکھ کر آتی ہوں۔” اقصیٰ نے گاڑی سے اترتے ہوئے کہا تھا۔
”امی! اب کہیں یہ نا ہو کہ آپ سارہ کو ڈھونڈنے جائیں اور وہ اتنی دیر میں آ جائیں پھر ہم آپ کے انتظار میں بیٹھے رہیں۔” افشاں نے ماں سے کہا تھا۔
”نہیں اگر سارہ آ جاتی ہے تو تم لوگ بیوٹی پارلر چلے جانا میں ٹیکسی لے کر آ جائوں گی۔”
اقصیٰ یہ کہہ کر گاڑی سے اتر گئی تھیں۔ یہ ایک کمرشل عمارت تھی اور کافی لوگ اندر آ جا رہے تھے۔
”فلیٹس کس منزل پر ہیں؟” اقصیٰ نے چوکیدار سے پوچھا تھا۔
”بی بی! اس عمارت میں کوئی فلیٹ نہیں ہے بس آفس ہیں۔”
اقصیٰ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی تھی انھوں نے حواس بحال رکھتے ہوئے ایک بار پھر اس سے پوچھا تھا۔
”نہیں۔ آفس تو گرائونڈ فلور پر ہوں گے۔ اوپر والی منزلوں پر فلیٹ ہوں گے؟”
”بی بی! یہ عمارت میرے سامنے بنی تھی۔ میں پندرہ سال سے یہاں ہوں، یہاں ساری منزلوں پر ہی آفس ہیں، فلیٹ کوئی نہیں۔ اوپر والی دو منزلیں تو اس کمپنی نے لے رکھی ہیں۔” اس نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی کا نام بتایا تھا۔
”نیچے کی دو منزلوں پر بھی صرف آفس ہیں پھر بھی اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو آپ اندر جا کر پتا کر لو۔” اقصیٰ کو لگا تھا جیسے ان کے سر پر آسمان گر پڑا ہو۔ وہ تقریباً بھاگتی ہوئی واپس کار پارکنگ میں آئی تھیں۔
”چوکیدار کہہ رہا ہے کہ اس عمارت میں کوئی فلیٹ نہیں ہے۔ صرف آفس ہیں۔” انھوں نے بوکھلائے ہوئے افشاں اور مریم کو بتایا تھا۔ وہ دونوں گاڑی سے اتر آئی تھیں۔



”آئیں ہم خود چل کر دیکھتے ہیں۔”
عظیم کی بیوی بھی بوکھلائی ہوئی تھی۔ وہ تینوں عمارت کے اندر گئی تھیں اور وہاں انھوں نے جس سے بھی پوچھا تھا۔ اس نے یہی کہا تھا کہ وہاں کوئی فلیٹ نہیں ہے صرف آفس ہیں۔ وہ تینوں بے حد پریشان ہو کر عمارت کے اندرونی دروازے پر بیٹھے گارڈ کے پاس گئی تھیں اور اسے انھوں نے سارہ کا حلیہ بتا کر اس کے بارے میں معلومات لینے کی کوشش کی تھی مگر وہ بھی سارہ کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکا تھا۔
”آپ خود دیکھ لیں، اس عمارت میں اتنی عورتیں آتی ہیں۔ ہم کس کس کو یاد رکھ سکتا ہے۔”
گارڈ نے ان سے کہا تھا۔ اب ان تینوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگی تھیں۔
”امی! آپ پاپا اور انکل عظیم کو رِنگ کریں وہی کچھ کر سکتے ہیں۔”
افشاں نے ماں کو سمجھایا تھا، ایک پبلک کال آفس سے فون کر کے انھوں نے عظیم کو بلایا تھا اور وہ آدھ گھنٹہ بعد حواس باختہ سے وہاں پہنچے تھے۔ انھوں نے بھی چوکیدار اور گارڈ سے سارہ کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کرنا چاہی تھی مگر وہ بھی ناکام رہے تھے، سارہ کا کہیں کوئی نام و نشان نہیں تھا۔
”یہ شادی اس کی پسند سے ہو رہی ہے پھر وہ کہاں غائب ہو سکتی ہے؟” عظیم کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔
”تم اسے یہاں لے کر کیوں آئی تھیں؟ تم سے کس نے کہا تھا کہ اسے اکیلے اندر جانے دو؟”
وہ بری طرح اقصیٰ پر برس پڑے تھے اقصیٰ کچھ بولنے کے قابل نہیں رہی تھیں۔ عظیم نے موبائل پر کال کر کے اقصیٰ کے شوہر اسد کو بھی وہیں بلوا لیا تھا۔ ان تینوں کو انتظار کرنے کا کہہ کر وہ دونوں ایک بار پھر اندر غائب ہو گئے تھے، ایک گھنٹے بعد ستے ہوئے چہروں کے ساتھ ان کی واپسی ہوئی تھی۔
”اب اور کوئی چارہ نہیں سوائے اس کے کہ عارفین کو یہاں بلا لیا جائے۔ اب تک تو بارات بھی روانہ ہو چکی ہو گی۔ تم لوگ ہوٹل چلے جائو کیونکہ وہاں بارات کے استقبال کے لیے تو گھر والوں میں سے کسی کو ہونا چاہیے۔ اقصیٰ! تم یہیں رہو اور مریم! تم عارفین کو یہاں بھجوا دو اسے ابھی سارہ کی گمشدگی کے بارے میں مت بتانا۔ صرف یہ کہنا کہ عظیم نے کسی ضروری کام کے لیے یہاں بلا لیا ہے اور کسی سے بھی ابھی سارہ کے بارے میں کچھ مت کہنا۔ بس یہی کہنا کہ وہ ابھی بیوٹی پارلر میں ہے اور اقصیٰ اس کے پاس ہے۔” عظیم نے انھیں ہدایات دی تھیں اور پھر انھیں بھجوا دیا تھا۔
آدھ گھنٹہ بعد عارفین آئے تھے اور وہ کافی پریشان نظر آ رہے تھے شاید وہ سمجھ نہیں پائے تھے کہ انھیں وہاں کیوں بلایاگیا تھا۔ عظیم نے انھیں پورا واقعہ بتا دیا تھا اور ان کا چہرہ زرد پڑ گیا تھا۔
”یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ سارہ کہاں جا سکتی ہے؟ اقصیٰ! کہیں تم نے تو اسے کچھ نہیں بتایا۔” عارفین کا ذہن فوراً اقصیٰ کی طرف گیا تھا۔
”نہیں عارفین! یقین کرو میں نے اسے کچھ نہیں بتایا۔ میری تو خود سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ یوں اچانک کیوں غائب ہو گئی ہے۔” اقصیٰ نے صفائی پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔
”خدا کے لیے اقصیٰ! اگر یہ سب تم نے کیا ہے تو ایسا مت کرو، وہاں پورا خاندان اکٹھا ہے۔ میرے سب دوست احباب، ملنے والے جمع ہیں۔ میں ان کا سامنا کیسے کروں گا؟” عارفین عباس نے منت آمیز انداز میں اقصیٰ سے کہا تھا۔
”عارفین! میرا یقین کرو۔ میں قسم کھانے کو تیار ہوں کہ سارہ کو میں نے نہیں بھیجا۔ اپنی مرضی سے گئی ہے، غلط بیانی کر کے گئی ہے کہ یہاں اس کی دوست کا فلیٹ ہے۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ اس کے چلے جانے سے صرف تمہاری رسوائی ہے؟ نہیں عارفین ہم بھی کسی کا سامنا نہیں کر سکیں گے۔” اقصیٰ بے اختیار رو پڑی تھیں۔
عارفین انھیں بے بسی سے دیکھ کر رہ گئے تھے۔ کچھ دیر تک انھوں نے بھی ایک موہوم سی امید میں اس عمارت میں اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی اور پھر بالآخر انھوں نے اپنے ایک دوست کو فون کر کے پولیس کو بلوا لیا تھا، پولیس کی تھوڑی سی تفتیش سے ہی یہ پتہ چل گیا تھا کہ وہ سامنے والے گیٹ سے داخل ہونے کے بعد عقبی گیٹ سے باہر نکل گئی تھی۔ انھیں یہ اندازہ پہلے بھی تھا کہ وہ اپنی مرضی سے غائب ہوئی تھی مگر اب یہ بات طے ہو گئی تھی کہ وہ باقاعدہ منصوبہ بنا کر وہاں آئی تھی۔ یقینا وہ پہلے بھی اس عمارت میں آتی جاتی رہی تھی اور جانتی تھی کہ اس عمارت کا ایک عقبی گیٹ بھی ہے اور وہ وہاں سے آسانی سے جا سکتی ہے۔
شام ہو چکی تھی اور وہ وہاں سے واپس آ گئے تھے۔ عارفین نے ہوٹل واپس آ کر حیدر کو ایک کمرے میں بلایا تھا اور اسے سب کچھ بتا دیا تھا وہ سکتے میں آ گیا تھا۔
”پاپا! یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟” اسے یقین نہیں آ رہا تھا ”وہ کہاں جا سکتی ہے اور کیوں جائے گی؟” وہ روہانسا ہو گیا تھا ”مجھے بتائیں، میں کیا کروں میں لوگوں کے سامنے کیسے جائوں؟”
”حیدر! خود پر قابو پائو، اقصیٰ سب سے کہہ رہی ہے کہ سارہ کو فوڈ پوائزننگ ہو گئی ہے اور اس وجہ سے اسے ہاسپٹل ایڈمٹ کروانا پڑنا ہے، ہم بھی سب سے یہی کہیں گے۔”
”پاپا! لوگ بے وقوف نہیں ہیں۔ آپ کو کیا لگتا ہے، وہ اس بات پر یقین کر لیں گے۔ میں ان کے سوالوں کا جواب کیسے دوں گا؟ مجھے سچ بتائیں۔ وہ کیوں گئی ہے؟ ایسا کیا ہوا ہے؟” حیدر کو لگ رہا تھا اس کا نروس بریک ڈائون ہو جائے گا۔ ”میں اب کسی کے سامنے نہیں جائوں گا میں اس کمرے سے باہر نہیں جائوں گا۔ اس سے میری شادی آپ کا فیصلہ تھا۔ آپ جائیں، لوگوں سے جو بھی کہنا ہے آپ کہیں۔ میں کسی کا سامنا نہیں کروں گا۔”
حیدر نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔ عارفین کچھ کہے بغیر باہر چلے گئے۔
…ظ…
”پاپا! آپ کو جو کچھ مجھ سے چھپانا تھا۔ آپ نے چھپا لیا۔ اب مجھ سے صرف سچ بولیں۔ مجھے بتائیں۔ صبا سے آپ کا کیا رشتہ تھا۔ آپ دونوں کے درمیان کیا ہوا تھا۔ سارہ کس وجہ سے چلی گئی؟”



اس رات سارے مہمانوں کو رخصت کرنے کے بعد وہ دونوں گھر آئے تھے اور حیدر گھر آتے ہی سارہ کے کمرے میں چلا گیا تھا، سارہ اپنی چیزیں صبا کے گھر لے کر گئی تھی، اس کا باقی سامان یہیں پر تھا اور اس کی چیزیں دیکھتے ہوئے حیدر کو جھٹکے پر جھٹکے پہنچ رہے تھے۔ اس کے ہاتھ عارفین کے صبا کے نام لکھے ہوئے خطوط اور کارڈز لگے تھے اور ان کی وہاں موجودگی نے اسے جتنا حیران کیا تھا۔ اس سے بھی بڑھ کر اس انکشاف نے اسے دم بخود کیا تھا کہ صبا عارفین کی منکوحہ رہ چکی تھیں۔ پھر اس کے ہاتھ سارہ کی تعلیمی اسناد لگی تھیں اور وہ یہ جان کر ساکت ہو گیا تھا کہ وہ گریجویشن تک فرنچ کو ایک آپشنل سبجیکٹ کے طور پر پڑھتی رہی ہے۔ پھر وہ باپ کے پاس آیا تھا اور اب وہ ان سے سوال کر رہا تھا۔ اس نے وہ کارڈز اور خطوط ان کے سامنے ٹیبل پر پھینک دیے تھے۔ عارفین انھیں دیکھ کر ساکت رہ گئے تھے۔
”یہ تمھیں کہاں سے ملے؟”
”سارہ کے کمرے سے، اسے یہ کہاں سے ملے؟ یہ آپ کو پتا ہوگا اور یہ جان کر آپ کو مزید صدمہ ہو گا کہ وہ کالج میں فرنچ پڑھتی رہی ہے اب آپ مجھ سے کچھ نہ چھپائیں۔ مجھے بتائیں وہ سب کچھ جو آپ نے نہیں بتایا اور جس کی سزا مجھے ملی ہے۔”
عارفین نے اپنا سر جھکا دیا تھا۔
…ظ…

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!