آمنہ! اب اٹھ جائو یار! کتنی دیر سوتی رہو گی!” گل کی آواز نے اسے بیدار کر دیا تھا۔
وہ تھکے تھکے انداز میں اٹھ کر بیٹھ گئی۔
گل آئینہ ہاتھ میں لیے تیزی سے ہونٹوں پر لپ اسٹک لگا رہی تھی، وہ بے خیالی میں اس کا چہرہ دیکھتی رہی وہ روز اس وقت اسی طرح سج دھج کر باہر جاتی تھی، اس کے بقول وہ اپنے منگیتر کے ساتھ گھومنے پھرنے جاتی تھی مگر اس کا منگیتر ہر تیسرے چوتھے دن بدل جاتا تھا سارہ کو اس کے منگیتر پر اعتراض تھا نہ منگیتر کے بدلنے پر۔
”بس میں اب جا رہی ہوں۔ تم دروازہ بند کر لینا، ہاں اور عذرا آج دیر سے آئے گی۔ وہ مجھے صبح بتا کر گئی تھی۔”
گل نے باہر نکلتے ہوئے اسے بتایا تھا۔ اس نے اٹھ کر دروازہ بند کر لیا۔
روزہ افطار ہونے میں ابھی تھوڑا ہی وقت رہ گیا تھا۔ وہ کچن میں آ گئی۔ وہاں کچھ بھی پکا ہوا نہیں تھا۔ پچھلی رات کے پکائے ہوئے کچھ دال چاول ابھی بھی پڑے ہوئے تھے۔ وہ جانتی تھی کہ عذرا اور گل دونوں باہر سے کھانا کھا کر آئیں گی اور شاید اپنے لیے کچھ ساتھ لے بھی آئیں۔ چاولوں کو گرم کرنے کے بعد ایک گلاس میں پانی اور چاول لے کر وہ کمرے میں آ گئی دونوں چیزوں کو اس نے فرش پر رکھ دیا تھا اور خود دوبارہ اپنے بستر پر بیٹھ گئی تھی۔
وہ روز سہ پہر کو سوتی نہیں تھی مگر آج خاص بات تھی۔ آج ایک بار پھر وہ اس کے ہتھے چڑھتے چڑھتے بچی تھی۔ ڈیڑھ ماہ میں یہ تیسرا موقع تھا جب سارہ کا اس سے سامنا ہوتے ہوتے رہ گیا تھا۔
پہلی دفعہ اس کا حیدر سے ٹکرائو تب ہوتے ہوتے رہ گیا تھا جب کچھ دن اپنی دوست کے پاس رہنے کے بعد اس نے اس کے ذریعے ایک ہاسٹل میں کمرہ کرائے پر لیا تھا۔ اسے ہاسٹل میں آئے تیسرا دن تھا جب وہ کسی کام سے باہر گئی تھی اور واپسی پر اس نے بہت دور سے ہی اس کی سلور گرے سوک ہاسٹل کے باہر دیکھ لی تھی وہ بہت محتاط ہو کر کچھ اور آگے گئی تھی۔ نمبر پلیٹ کو وہ پہچان گئی تھی۔ کار میں کوئی نہیں تھا۔ یقینا وہ ہاسٹل کے اندر ہوگا۔ کار سے کچھ آگے پولیس کی ایک وین بھی کھڑی تھی۔ وہ الٹے قدموں اپنی دوست کے پاس گئی تھی۔
”سارہ! تم نے مجھے دھوکا دیا تمھارے انکل اور خالہ تمہاری شادی کسی بوڑھے کے ساتھ نہیں کر رہے۔ میں حیدر سے مل چکی ہوں اس نے مجھے نکاح نامہ بھی دکھایا ہے اور تمھارے کارنامے کے بارے میں بھی بتایا ہے پھر اس کے بعد میرے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ میں اس کو تمہارا ٹھکانا بتا دیتی۔”
اس کی دوست عامرہ نے اس کے شکوے پر کہا تھا، وہ فیکٹری میں اس کے ساتھ کام کرتی تھی اور سارہ شادی والے دن سیدھی اس کے پاس گئی تھی۔ سارہ کے پاس اب کہنے کو کچھ نہیں رہا تھا۔ وہ اس کے پاس سے چلی آئی۔
پھر وہ دوبارہ ہاسٹل نہیں گئی تھی۔ اس کا بیگ اس کے پاس تھا جس میں اس کی ساری رقم موجود تھی، ہاسٹل میں پڑے ہوئے تھوڑے سے سامان کی اسے پرواہ نہیں تھی۔ اس نے کسی دوسرے ہاسٹل میں کمرہ ڈھونڈنے کے بجائے ایک پراپرٹی ڈیلر کے ذریعے ایک گندے سے گنجان آباد علاقے میں ایک فلیٹ چھ سو روپے ماہانہ پر کرائے پر لے لیا تھا، فلیٹ میں پہلے بھی دو لڑکیاں رہتی تھیں اور فلیٹ صرف ایک کمرے چھوٹے سے کچن اور اسی سائز کے باتھ روم پر مشتمل تھا اور اس کی حالت خاصی خراب تھی مگر سارہ کو اس کی پروا نہیں تھی، اس کے لیے سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ اپنے سر پر چھت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
دوسری بار حیدر سے تب اس کا سامنا ہوتے ہوتے رہ گیا تھا جب اس نے کام کی تلاش شروع کی تھی، اس کے پاس اس کی تعلیمی اسناد اور سرٹیفکیٹ نہیں تھے اور ان کے بغیر وہ کوئی ڈھنگ کی جاب حاصل نہیں کر سکتی تھی۔ تب ہی اسے خیال آیا تھا کہ جس اکیڈمی کے ذریعے اس نے پہلے ٹیوشنز حاصل کی تھیں وہاں اس نے اپنی اسناد کی فوٹو کاپیز جمع کروائی تھیں اور وہ اس اکیڈمی کے ذریعے ایک بار پھر ٹیوشن حاصل کر سکتی تھی۔
وہ ایک روز وہاں گئی تھی۔ اکیڈمی کے مالک کا رویہ کچھ عجیب سا تھا۔ اس نے اس سے بیٹھنے کو کہا تھا اور پھر کسی ضروری کام سے اندر چلا گیا تھا کچھ دیر بعد وہ واپس آیا تھا اور اس نے کہا تھا کہ کسی بچے کے والد تھوڑی دیر میں آنے والے ہیں اور ان کے بچے کو ٹیوشن کی ضرورت ہے اس لیے سارہ وہاں بیٹھ کر کچھ انتظار کرے وہ بس آدھ گھنٹہ میں پہنچ جائیں گے اس نے دس منٹ وہاں بیٹھ کر انتظار کیا تھا اور پھر یکدم اس کی چھٹی حس اسے کسی خطرے سے خبردار کرنے لگی تھی اس نے اس اکیڈمی کے مالک سے پانی مانگا تھا وہ پانی لینے اندر گئے تھے اور وہ بیرونی دروازہ کھول کر باہر آ گئی تھی۔
تیز قدموں سے چلتے ہوئے اس نے سڑک پار کر لی تھی اور پھر جیسے ہی اس نے موڑ کاٹا تھا۔ سلور گرے رنگ کی وہی جانی پہچانی کار اس کے قریب سے گزر گئی تھی۔ خوف کی ایک لہر اس کے پورے وجود میں دوڑ گئی تھی۔
”اگر چند منٹ اور میں وہاں ٹھہرتی تو یہ شخص میرے سامنے ہوتا۔” اس نے بے اختیار سوچا تھا۔ وہ اس کے بعد نہ صرف اس اکیڈمی بلکہ کسی اکیڈمی بھی نہیں گئی۔ اس نے اپنی تعلیمی اسناد دوبارہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ صرف ان ہی کے ذریعے وہ کسی فیکٹری میں کوئی معقول جاب حاصل کر سکتی تھی۔ کل وہ اپنا میٹرک کا سرٹیفکیٹ دوبارہ بنوانے کے لیے اسکول گئی تھی اور کلرک نے اسے دوسرے دن آنے کے لیے کہا تھا اور آج جب وہ اپنے اسکول گئی تھی تو اسکول کے گیٹ سے تیس چالیس فٹ کے فاصلے پر کھڑی اسی خالی کار نے ایک بار پھر اسے دہلا دیا تھا۔
”اے خدا! یہ شخص کیوں سانپ کی طرح میرے پیچھے لگا ہوا ہے۔”
اس نے بے اختیار سوچا تھا اور گم صم سی وہاں سے واپس آ گئی اس نے رستے میں ہی اپنی تعلیمی اسناد کے حصول کا ارادہ بھی ترک کر دیا تھا اور پورا رستہ وہ سوچتی رہی تھی کہ اب وہ کیا کرے گھر آ کر وہ بستر میں گھس کر سو گئی تھی اور اٹھنے کے بعد بھی وہ خالی الذہنی کے عالم میں بیٹھی ہوئی تھی۔
اس رات اس نے سب کچھ سنا تھا۔ اقصیٰ یہ بھول گئی تھیں کہ سارہ صبا کے کمرے میں ہے اور صبا کے کمرے کی کھڑکی اسی برآمدے میں کھلتی تھی جہاں وہ بیٹھی رو رہی تھیں۔ اس نے مایوں کے کپڑے پہننے کے لیے سب کو کمرے سے نکال کر دروازہ بند کیا تھا اور تب ہی اس نے اقصیٰ اور عظیم کی باتوں کی آواز سنی تھی وہ کھڑکی کے پاس آ گئی تھی اور پھر ہر راز کھلتا گیا تھا۔ اس کی ماں نے کیا کیا تھا، اس کے ساتھ کیا ہوا تھا اس نے کیوں اس طرح اپنی زندگی برباد کر دی تھی۔ کچھ بھی اس کے لیے راز نہیں رہا تھا۔
وہ ایک مجسمہ کی طرح ساکت کھڑی رہ گئی تھی اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ روئے، چیخے، چلائے، وہاں سے بھاگ جائے کیا کرے، پھر اس کی کزنز نے دروازہ بجانا شروع کر دیا تھا اور وہ جیسے ہوش میں آ گئی تھی۔ اس نے دروازہ کھول دیا تھا۔ پھر مہندی کی رسم کے لیے اسے باہر صحن میں لے جا کر پھولوں سے سجی ہوئی چوکی پر بٹھا دیا گیا تھا۔ پھر باری باری خاندان کی مختلف عورتوں نے اس کے سر میں تیل لگانا اور اس کے ہاتھ پر مہندی رکھنا شروع کر دیا۔
اس نے یک دم رونا شروع کر دیا تھا۔ ہر بار جب کسی کا ہاتھ اس کے سر پر تیل لگاتا اسے لگتا جیسے کسی نے اسے جوتا مارا ہو، اسی طرح صحن کے بیچوں بیچ جس طرح چوبیس سال پہلے اس کی ماں کو مارے گئے تھے۔ اس کا دل چاہ رہاتھا وہ دھاڑیں مار مار کر روئے۔ سب یہی سمجھ رہے تھے کہ وہ اسی طرح رو رہی ہے جیسے سب لڑکیاں شادی پر روتی ہیں۔ اسے ان سب کے چہرے بھیانک اور کریہہ لگ رہے تھے۔ چند گھنٹے پہلے تک وہ اسے عظیم لگ رہے تھے جنھوں نے سب کچھ بھول کر اسے اپنایا تھا اور اب وہ ان سب سے دور بھاگ جانا چاہتی تھی، اسی طرح جیسے اس کی ماں بھاگ گئی تھی، اس کی گود نوٹوں سے بھرتی جا رہی تھی اور اسے اپنا وجود کسی مزار پر رکھے ہوئے اس ہدیے کے ڈبے کی طرح لگ رہا تھا جس میں لوگ خود کو بخشوانے کسی منت کے پورا ہونے یا اپنی زندگی میں کامیابی کے لیے کچھ نہ کچھ ڈال کر جاتے ہیں۔ ہاں وہ سب بھی یہی کر رہے تھے صبا سے کی جانے والی زیادتی کے کفارے کے لیے اس کی بیٹی پر روپے نچھاور کر رہے تھے۔ وہ روتے روتے چپ ہو گئی تھی۔ ایک آگ نے اس کے وجود کو جلانا شروع کر دیا تھا۔ اسے کیا کرنا تھا اس نے سوچ لیا اور پھر اس نے وہی کیا تھا جو اس نے سوچا تھا۔ وہ اس عمارت میں گئی تھی اور پھر اس کے پچھلے گیٹ سے نکل کر سیدھی اپنی دوست کے پاس فیکٹری میں گئی تھی۔ وہاں اس نے رو رو کر اسے بتایا تھا کہ کس طرح خالہ اور انکل ایک بوڑھے شخص کے ساتھ زبردستی اس کی شادی کرنا چاہتے ہیں اور وہ گھر سے بھاگ آئی ہے۔ عامرہ اور اس کے گھر والے بھی اسی عمارت میں رہتے تھے جہاں وہ اپنی ماں کے ساتھ رہتی تھی۔
انھوں نے اسے گھر میں پناہ دے دی تھی۔ دوسرے دن اس عمارت میں پولیس آئی تھی اور اس نے سارہ کے بارے میں سب سے پوچھ گچھ کی تھی۔ سارہ کا پرانا فلیٹ اب کسی اور رہائشی کے پاس تھا اور پولیس صرف اس عمارت میں ہی نہیں گئی تھی بلکہ اس فیکٹری میں بھی پہنچ گئی تھی جہاں وہ کام کرتی رہی تھی۔
عامرہ کے گھر والوں نے اس کے بارے میں ڈر کے مارے پاس پڑوس میں بھی کسی کو نہیں بتایا تھا۔ تیسرے دن عامرہ اخبار لے آئی تھی جس میں اس کی گمشدگی کی خبر کے ساتھ اس کی مایوں پر کھینچی جانے والی ایک تصویر اور ایک بڑے انعام کی آفر تھی۔ وہ بے حد خوفزدہ ہو گئی تھی۔ اس کی تصویر ایک ہفتہ تک روزانہ اخبار میں شائع ہوتی رہی تھی اور اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اسے ڈھونڈنے کے لیے کتنی سرتوڑ کوشش کی جا رہی ہے۔
سارہ جانتی تھی کہ عامرہ بہت دیر تک اسے اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتی تھی۔ اس کے پاس وہ ساری رقم موجود تھی جو مہندی پر اسے دی گئی تھی اور اسی لیے اس نے عامرہ سے اپنے لیے کسی اور جگہ کا بندوبست کرنے کے لیے کہہ دیا تھا۔ اسے خدشہ تھا کہ وہ لوگ کہیں اسے ڈھونڈتے ہوئے عامرہ کے گھر تک نہ پہنچ جائیں اور بعد میں اس کا خدشہ سچ ثابت ہوا تھا۔
اخبار میں شائع ہونے والی تصویر میں اس کا چہرہ میک اپ سے بالکل عاری تھا اور یہ اس کے حق میں بہت اچھا ثابت ہوا تھا۔ گل اور عذرا کو اس نے اپنا نام آمنہ بتایا تھا۔ گل اور عذرا کون تھیں وہاں کیوں رہتی تھیں۔ اسے کچھ پتا نہیں تھا نہ اس نے جاننے کی کوشش کی تھی، اسے صرف یہ پتا تھا کہ وہ دونوں کسی فیکٹری میں کام کرتی ہیں۔ کیا کرتی ہیں وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی۔
ان دونوں نے سارہ سے اس کا حدود اربعہ معلوم کرنے کی کوشش کی تھی۔ خاص طور پر اس کے کلائیوں تک مہندی سے بھرے ہاتھوں نے انھیں کئی قسم کے شبہات میں ڈالا تھا اور ہر بار جب وہ اس سے کچھ پوچھنے کی کوشش کرتیں تو وہ رونا شروع کر دیتی۔ تنگ آ کر انھوں نے اس سے کچھ پوچھنا چھوڑ دیا تھا۔
کئی دنوں تک ایسا ہی ہوتا رہا تھا۔ سارہ کو خود پتا نہیں چلتا تھا، کس بات پر اس کا دل بھر آتا اور وہ رونا شروع کر دیتی پھر کئی کئی گھنٹے وہ روتی رہتی عزت اور خودداری کی خاطر آسائشوں کو ٹھوکر مارنا کتنا مشکل کام تھا۔ یہ اسے اب معلوم ہوا تھا۔ وہ صرف چار ماہ آسائش میں رہی تھی اور اس کے لیے اب پہلے کی طرح ٹھوکریں کھاتے ہوئے زندگی گزارنا مشکل ہو گیا تھا۔
”امی تو پیدائش سے جوانی تک آسائشوں میں رہی تھیں پھر انھوں نے کیسے سب کچھ چھوڑ دیا؟” وہ سوچتی اور آنسو بڑھتے جاتے۔
گل نے ایک دن اس سے پوچھا تھا۔ ”تم اتنی خاموش کیوں رہتی ہو؟”
وہ اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی تھی، اسے یاد آیا تھا اس نے بھی کئی دفعہ امی سے یہی سوال کیا تھا۔ وہ ہر بار خاموشی سے اسے دیکھتی رہتی تھیں۔ جواب نہیں دیتی تھیں۔ لوگ خاموش کیوں ہو جاتے ہیں اب اس کی سمجھ میں آ گیا تھا۔ کیوں دل چاہتا ہے کہ اپنوں کی نظروں سے اپنے وجود کو چھپا لیا جائے۔ دوبارہ ان کے سامنے نہ آیا جائے نہ ان سے کبھی بات کی جائے یہ بھی اس کی نظر میں راز نہیں رہا تھا۔
چار سال اس نے صرف ماں کے معمے کو حل کرنے کے لیے فرنچ پڑھی تھی مگر وہ انھیں بوجھنے، انھیں سمجھنے میں ناکام رہی تھی۔ کتابیں پڑھنے اور زبانیں سیکھنے سے لوگوں کے اسرار سمجھ میں نہیں آتے اور اب اسے ماں کی طرح رہتے ڈیڑھ ماہ ہوا تھا اور وہ ان کی ذات کے ہر راز کو جاننے لگی تھی۔
…ظ…