”اور کتنی دیر یہاں بیٹھو گی؟” گیٹ کی طرف جاتے جاتے ایک بار پھر اس نے اسے وہاں بیٹھے دیکھا تھا اور وہ اس کی طرف آ گیا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرائی تھی۔
”تم ان سیاہ کپڑوں میں ملبوس اس رات کا ایک حصہ لگ رہی ہو لیکن میں نہیں چاہتا کہ رات کی طرح تم بھی ختم ہو جائو۔ اس لیے اب اندر چلی آئو، سردی بڑھ رہی ہے۔” اس کے لہجے میں اس کے لیے وہی نرمی تھی جس کی وہ ہمیشہ سے عادی تھی۔
”تم کہاں جا رہے ہو؟” اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے اس نے سوال کیا تھا۔
”کچھ کام ہے مجھے، کسی دوست کی طرف جانا ہے۔”
اس نے یونہی کھڑے کھڑے بتایا تھا۔ بات کرتے کرتے اسے لگا جیسے اس نے اس کی بات دھیان سے نہیں سنی۔ وہ پھر سر اٹھا کر پہلے کی طرح آسمان کو دیکھ رہی تھی۔ وہ کچھ دیر تک اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ وہ کسی ملکوتی حسن کی مالک نہ تھی پھر بھی کوئی بہت عجیب بہت خاص چیز تھی اس کے چہرے میں، مگر کہاں؟ یہ وہ بتا نہیں سکتا تھا۔ ”شاید آنکھوں میں یا شاید مسکراہٹ میں ہاں لیکن صبا کچھ ہے ضرور تم میں جس کی میں کبھی وضاحت نہیں کر سکتا۔” عارفین نے ہمیشہ کی طرح اسے دیکھتے ہوئے سوچا تھا۔
”اندر جانے کا ابھی بھی کوئی ارادہ نہیں؟” اس نے ایک بار پھر اس سے کہا تھا۔ جواب اس کی توقع کے برعکس آیا تھا۔
”عارفین! تم نے کبھی خدا کو دیکھا ہے؟” اس کی نظریں ابھی بھی آسمان پر ہی تھیں۔ عارفین ایک گہری سانس لے کر اس سے کچھ فاصلے پر برآمدے کی سیڑھیوں میں بیٹھ گیا۔
”نہیں۔ کیا تم نے دیکھا ہے؟”
”نہیں۔میں نے بھی نہیں دیکھا لیکن میرا دل چاہتا ہے دیکھنے کو۔”
اس کے لہجے میں بچوں جیسا اشتیاق تھا اور چہرے پر ایک عجیب سی کیفیت، ستون سے سر ٹکائے وہ اب بھی آسمان کو ہی دیکھ رہی تھی۔
”خدا کو کیوں دیکھنا چاہتی ہو صبا؟” عارفین باہر جانے کا ارادہ ترک کر چکا تھا۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا تھا، وہ اس سے بات شروع کرتا پھر ہر کام بھول جاتا، دانستہ طور پر بعض دفعہ بھولنا بھی ایک نعمت لگتا ہے۔
”پتہ نہیں کیوں دیکھنا چاہتی ہوں لیکن بس دیکھنا چاہتی ہوں۔” اس کے لہجے میں عجیب سا اصرار تھا، عجیب سی بے چینی تھی۔
”صبا! یہ پوری دنیا اسی کی بنائی ہوئی ہے، اسے دیکھنے کی خواہش ہو تو ہر خوبصورت چیز دیکھو، وہ ہر خوبصورت چیز میں نظر آئے گا۔”
اس نے جیسے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی، وہ اب اس کا چہرہ دیکھنے لگی تھی۔
”صرف خوبصورت چیزوں میں، بدصورت چیزوں میں کیوں نہیں؟ کیا وہ اس نے نہیں بنائیں، اسے پھول میں ڈھونڈنا چاہیے کیونکہ پھول خوبصورت ہے، وہ اس میں نظر آئے گا پتھر میں نظر نہیں آئے گا کیونکہ وہ خوبصورت نہیں مگر عارفین! لوگ کہتے ہیں خوبصورتی کسی چیز میں نہیں دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے۔ مجھے پھول خوبصورت نہیں لگتا۔ پتھر حسین لگتا ہے تو میں کیا کروں۔” عارفین کی سمجھ میں نہیں آیا، اسے کیا جواب دے، بہت سوچ کر اس نے کہا تھا۔
”ہاں ٹھیک ہے۔ پتھر بھی خوبصورت نظر آ سکتا ہے اور پتھر بھی اس کی بنائی ہوئی چیز ہے تو بس تم دنیا کو دیکھو اور جو چیز تمھیں خوبصورت نظر آئے تم اس میں خدا کو۔۔۔۔۔۔”
مگر عارفین! میں خدا کو چیزوں میں ڈھونڈنا نہیں چاہتی نہ چیزوں میں دیکھنا چاہتی ہوں۔ میں اس کو الگ سے دیکھنا چاہتی ہوں، ایک واحد، جیسا کہ وہ حقیقتاً ہے ہم اچھے کام کریں گے۔ نیکیاں کریں گے۔ اس کی عبادت کریں گے تو کیا ہوگا؟ اس کا اجر ملے گا، جنت مل جائے گی، ہر خواہش پوری ہو جائے لیکن وہ تو پھر بھی نظر نہیں آئے گا۔ کیا یہ ظلم نہیں ہے۔”
عارفین نے کچھ بے بسی سے اسے دیکھا تھا۔ ”پتا نہیں صبا! مگر تم خدا کے بارے میں اتنا مت سوچا کرو پاگل ہو جائو گی۔” اس نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”پھر کس کے بارے میں سوچوں؟” وہ جیسے رہنمائی چاہتی تھی۔
”دنیا کے بارے میں سوچو، ان لوگوں کے بارے میں سوچو جو تمھارے اردگرد رہتے ہیں۔” عارفین نے بڑی سنجیدگی سے اسے سمجھایا تھا۔
”جو چیز سمجھ میں آ گئی ہے، اس کے بارے میں کیا سوچوں، جو سمجھ میں نہیں آ رہی، اس کے بارے میں کیوں نہ سوچوں؟”
”صبا! بعض دفعہ تم بہت عجیب باتیں کرتی ہو، ہے نا؟” اس نے عارفین کی بات پر سر جھکا لیا تھا۔
”پتا نہیں۔” کچھ افسردگی سے اس نے اسی طرح سر جھکائے ہوئے جواب دیا تھا۔
”تمہاری فرنچ کیسی جا رہی ہے؟” عارفین نے اس کی توجہ بٹانے کے لیے پوچھا تھا۔
”پتا نہیں کیسی جا رہی ہے، بس کوشش کر رہی ہوں۔” وہ بالآخر مسکرائی تھی۔
“نہیں خیر، اب ایسا بھی مت کہو، بہت اچھی فرنچ بولنے لگی ہو۔” عارفین نے اس کی ہمت افزائی کرنے کی کوشش کی تھی۔
”اگر واقعی کچھ بہتری ہوئی ہے تو یہ تمہاری وجہ سے ہے۔”
”نہیں خیر، اب ایسا بھی استاد نہیں ہوں میں۔ تمھیں صرف اس لیے یہ زبان سکھانا چاہتا ہوں تاکہ فرانس جا کر تمھیں اجنبیت محسوس نہ ہو ورنہ تم سارا دن خدا کو ڈھونڈتی رہا کرو گی۔” عارفین نے اسے چھیڑا تھا۔
”لیکن میں فرنچ اس لیے سیکھ رہی ہوں تاکہ وہاں کی خواتین کے ساتھ تمہاری گفتگو کو سمجھ سکوں۔”
”خیر، میں ایسا بھی دل پھینک نہیں ہوں۔”
”تم نہیں ہو مگر وہاں کی لڑکیاں ہوتی ہیں۔”
وہ اس بار اس کی بات پر کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ ”میں کوشش کر رہا ہوں صبا! کہ اپنا فلیٹ بدل لوں، یہ فلیٹ بینک کے تو قریب ہے لیکن اتنی پرسکون جگہ نہیں ہے جتنی تم چاہ سکتی ہو، ایک اور فلیٹ دیکھا ہے میں نے بہت خوبصورت جگہ ہے ،وہ مل جائے تو تمھیں زیادہ اچھا لگے گا، تمھیں اس کی تصویریں بھجوائوں گا۔ تم دیکھنا اور بتانا کیسا ہے۔”
”واپس کب جا رہے ہو؟”
”بس پندرہ بیس دن اور ہیں۔ سرمد کی شادی کے تین چار دن بعد کی فلائٹ ہے۔” اس نے کار کی رنگ ہلاتے ہوئے اپنا پروگرام بتایا تھا۔
”اس دفعہ تم گھر میں بہت کم رہے ہو، بس کراچی اور اسلام آباد کے چکر ہی لگاتے رہے ہو۔”
”ہاں، اس دفعہ بینک کے بہت سے کام ہیں جو نمٹا رہا ہوں حالانکہ چھٹیاں گزارنے آیا ہوں، لیکن مجھے اس لیے ان کاموں پر کوئی اعتراض نہیں کہ ان کی وجہ سے مجھے سال کے اینڈ پر شادی کے لیے چھٹیاں مل جائیں گی، ابھی بھی دو تین دن تک پھر مجھے اسلام آباد جانا ہے اور وہاں سے واپسی شاید ایک ڈیڑھ ہفتے تک ہو۔ تم سنائو تمہاری یونیورسٹی ٹھیک جا رہی ہے؟” عارفین نے اپنا تفصیلی پروگرام بتا کر اس سے پوچھا تھا۔
”ہاں ٹھیک جا رہی ہے۔” اس نے شال کو مزید لپیٹا تھا۔
”اب تو کسی کو اعتراض نہیں ہے؟” عارفین نے مسکراتے ہوئے پوچھا تھا۔
”جن کو اعتراض تھے ان کو اب بھی ہیں اور رہیں گے۔ اعتراض کرنے میں کوئی ٹیکس تو لگتا نہیں ہے کہ کسی کو فکر ہو، ہاں بس یہ ہے کہ اب بار بار کہتے نہیں ہیں مجھ سے نہ امی نہ تایا وغیرہ۔ ہاں پردے پر اب بھی اکثر لیکچر دیے جاتے ہیں۔”
وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے بتاتی جا رہی تھی۔
”ویسے کیا ہے صبا! اگر تم پردہ کر لو۔ خواہ مخواہ سب کو ناراض کیا ہے تم نے، پھر کچھ ماہ ہی کی تو بات ہے پھر فرانس آ کر تم جیسے چاہو رہنا۔ چاہو تو اسکرٹ پہننا، چاہو تو ٹرائوزرز مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔”
وہ اس کے لہجے میں چھپی شرارت بھانپ گئی تھی۔
”میں چادر سے اپنا آپ چھپاتی ہوں۔ میں دوسروں کی طرح بیہودہ لباس نہیں پہنتی ہوں نہ میک اپ کرتی ہوں۔ اگر لڑکوں کے ساتھ پڑھتی ہوں تو بھی انھیں ادائیں نہیں دکھاتی ہوں۔ ہاں روایتی برقع نہیں لیتی۔ کیا تم کو بھی اس بات پر اعتراض ہے؟” وہ مسکراتے ہوئے اس کی بات سنتا رہا تھا۔
”نہیں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے نہ لڑکوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے پر، نہ چادر لینے پر۔ میں صرف تمہاری آسانی کے لیے کہہ رہا ہوں۔ بہت حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے اتنی بہت سی ناراضگی اور مخالفت برداشت کرنے کے لیے۔”
”ہاں اور مجھ میں بہت سا حوصلہ ہے۔ تمھیں تو شاید کہیں جانا تھا۔” صبا کو بات کرتے کرتے اچانک یاد آیا۔
”ہاں جانا تو ہے، خیر پھر آپ کی گفتگو سے فیض یاب ہوں گے۔ اب اگر آپ کو برا نہ لگے تو اندر چلی جائیں۔”
عارفین گھڑی دیکھتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔ صبا نے ایک بار پھر تاروں سے بھرے ہوئے آسمان کو دیکھا تھا پھر وہ کھڑی ہو گئی۔
”خدا حافظ۔” وہ یہ کہہ کر برآمدے کی سیڑھیاں چڑھ کر دروازے کی طرف چلی گئی۔ عارفین وہیں کھڑا اسے جاتا ہوا دیکھتا رہا۔