صبا ان کی چچا زاد تھی۔ وہ دو بہنوں اور ایک بھائی میں سب سے بڑی تھی اور عارفین اپنی تینوں بہنوں سے چھوٹے اور اکلوتے تھے۔ ایک ہی بڑے سے احاطے میں ان چاروں بھائیوں کے چار کونوں میں گھر تھے اور چاروں گھروں کے درمیان کا وسیع صحن مشترکہ تھا۔ گھروں کے بیرونی طرف چاروں جانب لان تھا۔ گھروں کی بیرونی دیوار اور گیٹ بھی مشترکہ تھا۔ عارفین کے ابو سب سے بڑے تھے اور صبا کے والد بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔
صبا کے ابو شروع سے امریکہ میں مقیم تھے اور وہ سال میں دو بار پاکستان آیا کرتے تھے۔ لیکن صبا کی فیملی نے کبھی باہر شفٹ ہونے کی کوشش نہیں کی کیونکہ نہ تو اس کے ابو ان لوگوں کو باہر لے جانا چاہتے تھے اور نہ ہی خود صبا کی امی باہر جانا چاہتی تھیں۔ وہ اتنی دور نہیں رہ سکتی تھیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شادی کے بعد وہ اسی گھر میں ایک الگ حصے میں منتقل ہو گئیں۔ وقت آہستہ آہستہ گزر رہا تھا۔ یہ گھرانہ ایسا تھا جہاں لڑکیوں کو بس اتنی تعلیم دی جاتی تھی جس سے انھیں لکھنا پڑھنا آ جاتا۔ صبا کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ میٹرک کرنے کے بعد وہ حیران ہوئی تھی جب بڑے تایا نے اسے گھر بیٹھنے کے لیے کہا۔ امی کی بھی یہی رائے تھی کہ اتنی تعلیم لڑکیوں کے لیے کافی ہوتی ہے۔
”نہیں۔ مجھے تو آگے پڑھنا ہے اور میں ابو سے بات کر لوں گی لیکن میں تعلیم نہیں چھوڑوں گی۔”
اس کے دو ٹوک جواب پر اس کی امی سکتے میں آ گئی تھیں۔
”گھر میں کوئی اس بات کو پسند نہیں کرے گا اور خود تمھارے ابو بھی۔ پھر تمھیں پڑھ کر کرنا بھی کیا ہے؟” اس کی امی نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
”پڑھنا لکھنا کوئی ایسی چیز نہیں جس پر کسی کو اعتراض ہونا چاہیے اور مجھے پڑھ لکھ کر کیا کرنا ہے۔ یہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد طے کروں گی۔ ابھی کیسے بتا دوں۔”
اس نے بڑے سکون سے کہا اورپھر پتا نہیں اس نے اپنے باپ کو کیا لکھ کر بھیجا تھا کہ انھوں نے اسے کالج میں داخلہ لینے کی اجازت دے دی تھی۔
عارفین ان دنوں لندن اسکول آف اکنامکس میں اپنی تعلیم مکمل کر رہا تھا۔ وہ عمر میں صبا سے پانچ سال بڑا تھا۔ اپنی دوسری کزنز کی طرح اس نے صبا پر بھی کبھی دھیان نہیں دیا تھا۔ صبا سے اس کی پہلی باقاعدہ ملاقات تب ہوئی تھی جب تعلیم سے فارغ ہو کر اس نے ایک بینک میں جاب کر لی تھی اور چھٹیوں میں پاکستان آیا تھا۔ گھر پہنچتے ہی وہ باری باری ہر چچا کے گھر گیا تھا۔ صبا ان دنوں بی۔ اے میں داخلہ لینے کی کوششوں میں تھی۔ عارفین کے لیے چائے وہی لائی تھی اور چائے کا کپ دیتے ہی اس نے عارفین سے پوچھا تھا۔
”تعلیم کیسی چیز ہوتی ہے؟”
عارفین اس سوال پر قدرے حیران ہوا تھا۔ ”بہت اچھی چیز ہوتی ہے۔”
”صرف لڑکوں کے لیے یا لڑکیوں کے لیے بھی؟” سوال کا جواب ملتے ہی ایک اور سوال پوچھا گیا تھا۔
”صبا! کیا فضول سوال جواب شروع کر دیے ہیں۔” صبا کی امی نے اسے ٹوکا تھا۔
”دونوں کے لیے ہی اچھی ہے۔” عارفین نے چچی کی بات پر غور کیے بغیر اس کے سوال کا جواب دیا تھا۔
”پھر تایا تعلیم کے اتنے خلاف کیوں ہیں؟ اپنے بیٹے کو پڑھنے کے لیے لندن بھیج دیتے ہیں، دوسروں کو گھر سے باہر تک جانے نہیں دیتے۔”
”صبا! منہ بند کر لو۔ کیا بکواس لگا رکھی ہے۔ عارفین! تم اس کی بات پر دھیان مت دینا۔” صبا کی امی نے کچھ گھبرا کر عارفین سے کہا تھا جو کافی دلچسپی سے صبا کو دیکھ رہا تھا۔
”کس کو گھر سے باہر جانے سے روک دیا؟”
”مجھے۔” اس کے سوال کا فوراً جواب آیا تھا۔
”صبا بی بی! آپ تو پہلے ہی ایف۔ اے کر چکی ہیں۔ آگے اور کیا پڑھیں گی اور پھر پڑھ کر آپ کو کرنا بھی کیا ہے؟”
”آپ اتنا پڑھ کر کیا کریں گے؟” لہجہ ابھی بھی نرم تھا لیکن سوال نہیں۔
”بھئی۔ میں تو مرد ہوں۔ مجھے تو کمانا ہے تاکہ گھر چلا سکوں۔” اس نے کچھ شگفتگی سے کہا تھا۔
”اتنی زیادہ تعلیم حاصل کرنے کا واحد مقصد کمانا تھا؟” عارفین اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گیا تھا۔
”بہرحال، میں کمانے کے لیے تعلیم حاصل کرنا نہیں چاہتی۔ شعور حاصل کرنے کے لیے تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہوں۔” وہ بے حد سنجیدہ نظر آ رہی تھی۔
”شعور حاصل کر کے کیا کریں گی؟” عارفین نے بے اختیار پوچھا تھا۔
”دنیا کو سمجھوں گی۔ انسانوں کو جانچوں گی۔”
عارفین نے کچھ حیرانی سے اپنی اس کزن کا چہرہ دیکھا تھا۔
”آپ بی۔ اے میں داخلہ لینا چاہتی ہیں۔ ضرور لیں۔ میں ابو سے بات کر لوں گا۔ وہ اعتراض نہیں کریں گے۔”
عارفین نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی اور وہ اندر چلی گئی تھی۔
چچی ناراض ہونے لگی تھیں، انھیں سمجھانے میں عارفین کو کافی وقت لگ گیا تھا۔ پھر واقعی تایا نے پچھلی بار کی طرح اس بار مخالفت نہیں کی تھی لیکن یہ نہیں تھا کہ انھیں صبا کی تعلیم پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ ان کے اعتراضات اور ناپسندیدگی اپنی جگہ پر تھی اور انھوں نے اب صبا سے بات کرنا ہی چھوڑ دی تھی۔ صبا کو خود بھی اس بات کی قطعاً پروا نہیں تھی۔
”امی! مجھے لوگوں سے تعریف پا کر کرنا بھی کیا ہے۔ مجھے کوئی پسند کرے تو اس کا مجھے کیا فائدہ ہے؟ ناپسند کرے تو اس کا مجھے کیا نقصان ہے؟ ہاں بس میں یہ ضرور چاہتی ہوں کہ کوئی میری تعلیم میں مداخلت نہ کرے۔”
اس کی منطق، اس کی فلاسفی اس کی امی کی سمجھ سے باہر تھی۔ انھیں تو ہر وقت یہ ہی دکھ لگا رہتا تھا کہ ابھی تک صبا کے لیے خاندان میں سے کسی نے پیغام نہیں دیا اور صبا کی حرکتوں کو دیکھ کر انھیں یہ ممکن لگتا بھی نہیں تھا۔
مگر اس وقت عارفین کے ماں باپ پر بجلی گر پڑی تھی جب عارفین نے صبا کے لیے پسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ پورے خاندان کی نظریں جس پر لگی ہوئی تھیں اسے پسند آئی بھی تو بقول تائی امی ایک ”رسوائے زمانہ” لڑکی۔ تائی امی کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ صبا کو گولی مار دیں۔ یہی حال تایا کا تھا۔ صبا انھیں ہی سب سے زیادہ ناپسند تھی اور اب اسے بہو بنانا انھیں قیامت سے بھی زیادہ دشوار لگ رہا تھا۔ عارفین کو سمجھانے میں وہ ناکام رہے تھے۔ وہ کبھی ضد نہیں کرتا تھا مگر اس بار وہ اپنی بات پر اڑ گیا تھا۔ اسے صبا کی کسی بات میں کوئی خامی نظر نہیں آ رہی تھی بلکہ وہ اس کی تعلیم کو اس کی خوبی قرار دے رہا تھا۔ تایا اس پر زیادہ سختی نہیں کر سکتے تھے۔ آخر وہ ان کا اکلوتا بیٹا تھا اور وہ بھی لائق فائق۔ وہ اسے ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے انھوں نے دل پر جبر کرتے ہوئے صبا کا رشتہ مانگ لیا تھا۔
”امی! عارفین سے پوچھیں۔ آگے پڑھنے دیں گے؟ اگر اقرار کریں تو پھر مجھے اس رشتہ پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔”
صبا نے اس رشتہ پر اپنے ردعمل کا اظہار ایک جملہ میں کیا تھا۔ صبا کی امی سر پیٹ کر رہ گئی تھیں۔ انھیں یقین ہو چکا تھا کہ صبا کا دماغ خراب ہو چکا ہے ورنہ وہ اتنے اچھے رشتے پر خدا کا شکر ادا کرنے کے بجائے شرطیں نہ رکھتی۔ انھوں نے عارفین تک اس کا جواب پہنچا دیا تھا اور عارفین کو واقعی اس کی تعلیم پر کوئی اعتراض نہیں تھا نہ ہی وہ اسے مزید تعلیم حاصل کرنے سے روکنا چاہتا تھا۔
بڑی سادگی سے نسبت طے کرنے کے بجائے دونوں کا نکاح کر دیا گیا تھا۔ رخصتی دو سال بعد ٹھہرائی گئی تھی۔
صبا نے ایک بار پھر سب کو ناراض کرتے ہوئے ایم۔ اے میں داخلہ لے لیا تھا، اس بار اعتراضات اس لیے بھی زیادہ ہوئے تھے کیونکہ اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا اور خاندان بھر کو یہ سوچ کر ہی طیش آ رہا تھا کہ ان کے خاندان کی لڑکی اب لڑکوں کے ساتھ پڑھے گی۔ تایا جب اسے یونیورسٹی میں داخلہ لینے سے نہیں روک سکے تو انھوں نے شرط عائد کر دی تھی کہ وہ برقع اوڑھ کر یونیورسٹی جایا کرے کیونکہ وہ ان کے خاندان کی بہو ہے اور وہ یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ وہ اس طرح بے حیائوں کی طرح منہ کھولے لڑکوں کے ساتھ پڑھتی رہے۔ مگر ہر بات کی طرح اس بار بھی صبا کی منطق نرالی تھی۔ ”میں تعلیم حاصل کرنے جا رہی ہوں اور مجھے اپنی عزت کا پاس ہے اور میں یونیورسٹی بے پردہ نہیں جا رہی ہوں۔ چادر لے کر جائوں گی۔ میرا سر اور جسم اس چادر میں چھپا رہے گا مگر میں روایتی برقع نہیں پہنوں گی اور اگر پہنوں گی بھی تو گھر سے پہن کر جائوں گی اور دوسری لڑکیوں کی طرح یونیورسٹی جا کر اتار دوں گی۔ ایسے برقع کا ہمارے خاندان کو کیا فائدہ ہو گا۔”
تایا اور تائی اس کی ضد پر تلملا کر رہ گئے تھے۔ انھوں نے عارفین کو خط لکھ لکھ کر اس کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی تھی مگر ایسے لگتا تھا جیسے فرانس جا کر عارفین بھی اس کا ہم نوا ہو گیا تھا، وہ ان کے پانچ خطوں کے جواب میں ایک خط لکھتا اور وہ بھی اس بات کے ساتھ کہ صبا اگر برقع نہیں پہننا چاہتی تو نہ پہنے۔ اسے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ یہی بات وہ صبا کو بھی خط میں لکھتا تھا۔
دونوں کے درمیان مسلسل خط و کتابت ہوتی رہی تھی مگر یہ خطوط کوئی روایتی قسم کے خطوط نہیں تھے۔ ان میں اقرار و محبت اور اظہار محبت کے علاوہ سب کچھ ہوتا تھا اور شاید ان دو چیزوں کی دونوں کو کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ صبا کا خط عارفین کو کتاب کی طرح لگتا تھا۔ ہر لفظ کوئی نیا مفہوم، کوئی نیا معنی لیے ہوتا تھا وہ پڑھتا۔ کچھ جملوں پر حیران ہوتا کچھ پر سکتے میں آتا۔ کچھ پر اس کی سانس رک جاتی۔ خط دوبارہ پڑھتا تو کوئی دوسرا جملہ کسی دوسری دنیا کا دروازہ اس پر کھول دیتا۔ بعض دفعہ اس کا دل چاہتا، وہ صبا سے کہہ دے۔ ”چیزوں کے بارے میں ایسے مت سوچو ورنہ زندگی گزارنا بہت مشکل ہو جائے گی۔” ہر دفعہ وہ صرف سوچ کر رہ جاتا۔ اسے کبھی لکھ نہیں پاتا، اس میں اتنی جرأت ہی نہیں تھی۔ بعض دفعہ اس کا دل چاہتا۔ وہ اس سے کہے کہ ہر چیز کے بارے میں سوچتی ہو، مجھے لکھ دیتی ہو۔ میرے بارے میں کیا سوچتی ہو، یہ کیوں نہیں لکھتیں؟
ایک بار اس نے ہمت کر کے یہ سوال اسے لکھ ہی دیا تھا۔ اسے اس کا جواب ابھی تک یاد تھا۔ اس نے لکھا تھا۔
”جس چیز سے بے حد محبت ہو، اس کے بارے میں سوچنا نہیں چاہیے۔ سوچ شبہات کو پیدا کرتی ہے اور شبہ محبت کو ختم کر دیتا ہے۔ تم چاہتے ہو، تم سے میری محبت ختم ہو جائے؟”
وہ دوبارہ اس سے اپنے بارے میں کچھ جاننے کی فرمائش نہیں کر سکا تھا۔