”سارہ! میں پرسوں صبا کے لیے قرآن خوانی کروا رہا ہوں۔ سب خاندان والے آئیں گے اور بھی کافی لوگ ہوں گے۔ میں نے ملازمین سے کہہ دیا ہے وہ سارے انتظامات دیکھ لیں گے مگر پھر بھی تم خود ان کی نگرانی کرنا۔”
صبح ناشتہ پر عارفین عباس نے اس سے کہا تھا۔ حیدر نے باپ کے چہرے کو غور سے دیکھا تھا۔ ان کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ شاید وہ رات کو سوئے نہیں تھے۔ وہ ان سے کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ اس نے ایک نظر سارہ پر ڈالی۔ وہ چائے کے کپ کے گرد ہاتھ جمائے کسی سوچ میں گم تھی۔ چند لمحوں تک ا س نے سارہ کے چہرے پر نظر جمائے رکھی۔ نامحسوس طور پر اسے احساس ہوا تھا کہ اس کے چہرے کے نقوش بہت دلکش تھے۔ خاص طور پر دراز پلکوں والی آنکھیں۔ ”اس کی امی بھی اسی کی طرح ہوں گی ورنہ پاپا جیسے شخص کو محبت جیسا روگ کیسے ہو سکتا ہے۔ مگر کیا صرف اچھی شکل کی وجہ سے پاپا ان کی محبت میں گرفتار ہو گئے تھے؟ کیا ممی سے زیادہ خوبصورت تھیں وہ؟” وہ اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے مسلسل سوچ رہا تھا۔ یکدم اس نے سارہ کو چونکتے ہوئے دیکھا تھا۔ یقینا اسے لاشعوری طور پر احساس ہو گیا تھا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔
حیدر نے بڑے سکون سے اپنی نظر ناشتے کی پلیٹ پر مرکوز کر لی۔ سارہ نے عارفین عباس کو دیکھا۔ وہ بریڈ پر جیم لگا رہے تھے پھر اس نے حیدر کو دیکھا۔ وہ بڑے انہماک سے اپنی پلیٹ پر جھکا چھری سے انڈے کو کاٹنے اور کانٹے سے اسے کھانے میں مصروف تھا۔ وہ ایک بار پھر سوچوں میں گم ہو گئی۔
”عارفین عباس کو تو امی سے کوئی شکایت نہیں ہے مگر باقی خاندان والوں کا ردعمل کیا ہوگا؟”
یہ سوال تھا جو بار بار اسے تنگ کر رہا تھا۔ درحقیقت وہ یہ سن کر خوفزدہ ہو گئی تھی کہ اسے امی کے خاندان والوں کا سامنا کرنا ہوگا۔
اس دن وہ کافی بے چین رہی۔ دوپہر کو عارفین گھر نہیں آئے تھے نہ ہی حیدر آیا تھا۔ عارفین نے اسے فون کر کے لنچ کرنے کے لیے کہہ دیا۔ اسے عجیب سی آزادی کا احساس ہوا تھا۔ اس نے بھی دوپہر کا کھانا نہیں کھایا بلکہ وہ لان میں آ کر بیٹھ گئی۔
”میرے ابو میں ایسی کون سی خاص بات تھی جو امی نے عارفین عباس جیسے شخص کو چھوڑ دیا۔ وہ یہاں اچھی زندگی گزار سکتی تھیں۔ اس زندگی سے بہت بہتر جو انھوں نے وہاں گزاری۔”
اسے بار بار وہ سیلن زدہ ایک کمرے کا فلیٹ یاد آ رہا تھا۔ جو برسات میں بہت سی جگہوں سے ٹپکتا اور وہ بہت دل گرفتگی سے پانی کے ان قطروں کو دیکھتی رہتی جو آہستہ آہستہ پورے کمرے کو گیلا کر دیتے۔
”اگلی دفعہ برسات سے پہلے کچھ روپے جمع کر کے اس کی مرمت کروا لیں گے۔”
ہر برسات میں وہ اپنی امی سے یہی کہتی مگر کبھی بھی اتنے پیسے جمع نہیں ہو پائے جس سے وہ اس چھت کی مرمت کروا پاتے۔ صرف سارہ تھی جو اس فلیٹ اور وہاں موجود چیزوں کی حالت کے بارے میں فکر مند رہتی تھی ورنہ اس نے اپنی امی کو کبھی ان چیزوں کے بارے میں پریشان نہیں دیکھا تھا۔ ہاں شاید وہ اگر کسی چیز کی پروا کرتی تھیں تو وہ سارہ کا وجود تھا۔ اسے یاد تھا۔ وہ بچپن میں اسے خود اسکول چھوڑنے جاتیں اور پھر اسکول سے لے کر آتیں۔ انھوں نے کبھی بھی اسے دوسرے بچوں کے ساتھ کہیں آنے جانے نہیں دیا تھا۔ سارہ کو اسکول سے لے کر وہ سیدھا اپنی فیکٹری چلی جاتی تھیں۔ جہاں وہ ریڈی میڈ کپڑوں کی پیکنگ کیا کرتی تھیں اور سارہ وہیں ایک کونے میں بیٹھ کر اسکول کا ہوم ورک کرتی اور بعض دفعہ تھک جانے پر وہیں ایک طرف سو جاتی۔
اس نے اپنی امی کو فیکٹری میں بھی کبھی کسی کے ساتھ ضرورت سے زیادہ بات چیت کرتے نہیں دیکھا تھا۔ ان کا پورا دھیان صرف اپنے کام پر ہوتا تھا شاید یہی وجہ تھی کہ سارہ نے کبھی اپنی ماں کو کسی کی جھاڑ کھاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ ایک مشین کی طرح کپڑوں کو لفافوں میں اور بعد میں ڈبوں میں بند کرتی تھیں اور سارہ کو یہ سب ایک دلچسپ کھیل کی طرح لگتا تھا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ بڑی ہوتی گئی تھی اور اس کھیل سے اسے اکتاہٹ ہونے لگی تھی۔ ابھی بھی وہ اسکول سے ماں کے ساتھ ہی فیکٹری چلی جاتی تھی اور میٹرک تک اس کی یہی روٹین رہی۔
میٹرک کے بعد اس نے اپنی امی سے کہا تھا کہ وہ پڑھنے کے بجائے کوئی کام کرنا چاہتی ہے مگر امی نے اسے سختی سے منع کر دیا تھا۔ اس نے کالج میں داخلہ لے لیا تھا مگر وہ زیادہ خوش نہیں تھی۔ امی کی صحت آہستہ آہستہ خراب ہو رہی تھی اور ہر گزرتا دن اسے خوفزدہ کر دیتا تھا وہ فورتھ ائیر میں تھی جب اس کی امی بہت بیمار ہو گئی تھیں۔ وہ کام پر نہیں جا پاتی تھیں۔
چند ماہ تک جوں توں کر کے جمع پونجی سے گھر چلایا گیا پھر بی۔ اے کے پیپرز دینے کے بعد سارہ نے اسی فیکٹری میں سپروائزر کے طور پر کام شروع کر دیا تھا جہاں اس کی امی کام کرتی تھیں۔
فیکٹری اس کے گھر کے قریب تھی اور وہاں جاب حاصل کرنے کے لیے اسے کسی گارنٹی کی ضرورت نہیں پڑی۔ کچھ عرصہ کے بعد امی کی حالت ٹھیک ہو گئی تھی اور انھوں نے دوبارہ فیکٹری جانا شروع کر دیا تھا۔ سارہ نے ان کے اصرار پر جاب چھوڑ دی تھی اور ایک بار پھر سے پرائیویٹ طور پر اکنامکس میں ایم۔ اے کی تیاری شروع کی تھی مگر آٹھ نو ماہ بعد پھر امی پہلے کی طرح بیمار پڑ گئیں اور اس بار وہ کافی عرصہ تک بیمار رہیں۔ سارہ نے ایک بار پھر اسی فیکٹری میں جاب کر لی تھی اور پھر امی کے ٹھیک ہونے اور ان کے اصرار کے باوجود اس نے جاب نہیں چھوڑی۔ فیکٹری سے اسے اتنے روپے مل جاتے تھے جس سے فلیٹ کا کرایہ اور باقی اخراجات پورے ہو جاتے تھے اور سارہ کے لیے یہ کافی تھا۔
کسی دوسری جگہ پر اس نے جب بھی جاب حاصل کرنے کی کوشش کی۔ گارنٹی کا مسئلہ اس کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آتا اور اب اسے جاب کی ضرورت ہی نہیں رہی تھی۔ اس نے ایک طویل سانس لے کر سر کرسی سے ٹکا دیا۔
——————————————————————————————————————————-