دوسرے دن ایک ملازم سے پوچھ کر وہ اسٹڈی میں آئی تھی۔ اسٹڈی میں واقعی کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود تھا۔ اس میں پنجابی، اردو، انگلش اور فرنچ چاروں زبانوں میں کتابیں موجود تھیں۔ وہ کچھ دیر تک مختلف کتابیں نکال نکال کر دیکھتی رہی۔ پھر ایک کتاب نکال کر بیٹھ گئی۔
دوپہر تک وہ وہیں اسٹڈی میں رہی۔ پھر اس نے ڈائننگ روم میں آ کر لنچ کیا۔ عارفین اسے بتا چکے تھے کہ وہ لنچ آفس میں ہی کرتے ہیں اور حیدر بھی لنچ کرنے گھر نہیں آتا تھا۔ لنچ کرنے کے بعد وہ ایک بار پھر اسٹڈی میں آ گئی تھی۔ اس بار وہ اپنے کمرے سے اپنی ڈائری اٹھا لائی تھی اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھ کر اس نے وہ قلم اٹھا لیا جس نے اسٹڈی میں آتے ہی اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی تھی۔ وہ سیاہ رنگ کا ایک فائونٹین پین تھا جس کی نب کے اطراف میں چھوٹے چھوٹے سٹونز لگے ہوئے تھے۔ سونے سے بنی ہوئی نب بھی اسے بہت پرُکشش لگ رہی تھی۔
قلم ہاتھ میں لے کر اس نے شاعری کی ایک کتاب سے کچھ اشعار اپنی ڈائری میں اتارنے شروع کر دیے۔ قلم اتنی خوبصورتی، نفاست اور روانی سے لکھ رہا تھا کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بہت دیر تک اس سے لکھتی رہی تھی۔ اس کی توجہ تب ہٹی تھی جب کوئی ایک جھٹکے سے دروازہ کھول کر اندر آیا تھا سارہ نے بے اختیار مڑ کر دیکھا تھا۔ آنے والا حیدر تھا۔
وہ خود بھی خلاف توقع اسے یہاں دیکھ کر حیران ہوا تھا۔ چند لمحے وہ یونہی دروازے کا ہینڈل پکڑے کھڑا رہا پھر وہ دروازہ بند کر کے تیزی سے اس کی طرف آیا تھا۔ اس کے بالکل قریب آ کر وہ جھکا تھا اور باری باری اس نے اسٹڈی ٹیبل کے دراز کھولنے شروع کر دیے تھے۔ سارہ کا سانس حلق میں اٹکا ہوا تھا۔ وہ بالکل بے حس و حرکت تھی۔ حیدر نے ایک دراز میں سے کچھ پیپرز نکالے تھے پھر اس نے اسٹڈی ٹیبل کے ایک کونے میں رکھی ہوئی کچھ کتابیں اٹھا لی تھیں۔
“Please pen” (پلیز میرا قلم دے دیں) اس نے سیدھا ہونے کے بعد سارہ کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے قلم کی طرف اشارہ کیا تھا اور ہاتھ آگے بڑھا دیا تھا۔
سارہ نے بے اختیار پین کی طرف دیکھا تھا اور پھر اسے حیدر کے ہاتھ میں پکڑانے کے بجائے ٹیبل پر پڑی ہوئی اس ڈبیا میں رکھ دیا جس میں سے اس نے اسے نکالا تھا۔ حیدر نے اس کی اس حرکت پر کچھ عجیب سے تاثرات سے اسے دیکھا تھا اور پھر ٹیبل پر پڑی ہوئی وہ ڈبیا اٹھا کر اسٹڈی سے باہر چلا گیا۔ سارہ کی جان میں جان آ گئی تھی۔
”اور اگر یہ کوئی بدتمیزی کرتا تو میں کیا کرتی؟” وہ بے حد فکر مند تھی۔
پچھلے تین دن سے حیدر کے رویے نے اسے پریشان نہیں کیا تھا۔ وہ سارا دن گھر سے باہر ہوتا تھا اور رات کو کھانے کے بعد اوپر چلا جاتا۔ جتنی دیر وہ اس کے سامنے ہوتا وہ اس کو نظر انداز کیے رکھتا تھا اور سارہ کو یہ بات پسند تھی لیکن اس وقت وہ پریشان ہو رہی تھی۔
”کیا امی کو پتا تھا کہ وہ جہاں مجھے بھیج رہی ہیں۔ وہاں عارفین عباس کا بیٹا بھی ہوگا اور وہاں کوئی دوسری عورت نہیں ہوگی اور گھر کا ملازم مجھے اس کے ساتھ اکیلا دیکھ کر کچھ بھی سمجھ سکتا ہے۔ میں دوبارہ کبھی بھی اسٹڈی میں نہیں بیٹھوں گی۔” اس نے یکدم خود ہی فیصلہ کر لیا تھا۔
——————————————————————————————————————————-