”صبا! بعض دفعہ تم مجھے بہت embarrass (شرمندہ) کر دیتی ہو۔” اس روز عارفین کا موڈ خاصا خراب تھا۔
”تم آج پھر یونیورسٹی آ گئے ہو؟” صبا نے اس کی بات نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا تھا۔
”تمھیں اچھا نہیں لگا؟”
”میں نے ایسا کب کہا۔”
”امی نے کل مجھ سے پوچھا تھا کہ میں یونیورسٹی تم سے ملنے گیا ہوں میں نے کہہ دیا نہیں۔ انھوں نے میری بات کی تصدیق کے لیے تم سے پوچھا اور تم نے صاف کہہ دیا کہ ہاں میں یونیورسٹی آیا تھا۔”
”عارفین! اس میں چھپانے والی کون سی بات تھی؟” صبا کے لہجے میں اطمینان برقرار تھا۔
”بات سچ جھوٹ کی نہیں ہے۔ تمھیں پتا ہے۔ امی کو میرا تم سے ملنا پسند نہیں ہے۔ انھیں یہ بھی اچھا نہیں لگتا کہ میں تمھارے گھر آنا جانا رکھوں کیونکہ یہ خاندانی روایات کے خلاف ہے۔ میں صرف ان کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے تمھارے گھر نہیں آتا۔ یونیورسٹی آ جاتا ہوں لیکن تم نے اس بات کی بالکل پروا نہیں کی کہ امی کو کتنا برا لگے گا اور وہ مجھ سے کتنی ناراض ہوں گی۔”
”عارفین! میں تم سے چوری چھپے نہیں ملتی ہوں۔ سب کے سامنے ملتی ہوں اور وہ بھی اس لیے کہ تم میرے شوہر ہو اگر منگیتر ہوتے تو میں کبھی نہ ملتی نہ یونیورسٹی میں نہ گھر پر۔ جو چیز غلط ہے ہی نہیں میں اسے غلط طریقے سے کیوں کروں۔ اگر میں اپنی امی کو سچ بتا دیتی ہوں تو تمہاری امی سے غلط بیانی کیوں کروں پھر بھی اگر میری وجہ سے تمھیں کوئی تکلیف پہنچی ہے تو میں اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔”
”خیر، میں نے ایکسکیوز کرنے کو تو نہیں کہا بہرحال میں تمھیں یہ بتانے آیا تھا کہ میں کل اسلام آباد جا رہا ہوں۔” عارفین نے موضوع بدل دیا تھا۔
”کتنے دنوں کے لیے جا رہے ہو؟”
”ابھی تو ایک ہفتہ کے لیے جا رہا ہوں لیکن ہو سکتا ہے چند دن اور لگ جائیں۔ تم یہ بتائو تمھارے لیے کیا لائوں؟” عارفین نے اس سے پوچھا تھا۔
”عارفین! تم جانتے ہو، میں چیزوں کی فرمائش نہیں کیا کرتی۔” صبا نے بڑی رسانیت سے جواب دیا تھا۔
”پھر بھی یار! کچھ تو فرمائش کیا کرو۔ مجھے اچھا لگے گا۔” ”پہلے بھی اپنی مرضی سے گفٹ لاتے ہو، اب بھی جو دل چاہے لے آنا۔”
صبا! میرا دل چاہتا ہے، کبھی تم مجھ سے کوئی فرمائش کرو۔ پھر دیکھو، میں اسے کیسے پورا کرتا ہوں۔”
وہ اس کی بات پر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ ”چلو کبھی مانگوں گی تم سے کچھ۔ دیکھوں گی میری فرمائش پوری کرتے ہو یا نہیں۔”
“Any Time” عارفین نے خوش دلی سے سر ہلایا تھا۔
”ایک بات کہوں عارفین؟” صبا یکدم سنجیدہ ہو گئی تھی۔
”ہاں ضرور۔ اس میں پوچھنے والی کیا بات ہے؟”
”یہ جو انسان ہوتا ہے بعض دفعہ یہ بنا مانگے تو کچھ بھی دے دیتا ہے لیکن مانگنے پر کچھ بھی نہیں دیتا۔”
”تمہارا اشارہ میری طرف ہے؟” وہ کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتا رہا تھا۔
”مجھے ایسا لگتا ہے جیسے تمھیں مجھ پر اعتبار نہیں ہے۔”
”عارفین! کیا انسان اعتبار کے قابل ہے؟”
”صبا! میں اپنی بات کر رہا ہوں۔”
وہ اس کی بات پر کچھ جھنجھلا گیا تھا۔
”عارفین! یہ ضروری نہیں ہے جس سے محبت کی جائے، اس پر اعتبار بھی کیا جائے جیسے یہ ضروری نہیں کہ جس پر اعتبار کیا جائے اس سے محبت بھی کی جائے۔”
وہ اس کی بات کے جواب میں خاموش بیٹھا رہا۔
”ناراض ہو گئے ہو؟” صبا نے اسے خاموش دیکھ کر پوچھا تھا۔
”نہیں۔ ناراض کس بات پر ہونا ہے۔ تم نے کوئی اتنی قابل اعتراض بات تو نہیں کہی۔”
”پھر بھی تمھیں برا لگا ہے نا؟” صبا اس کی دلجوئی کرنے کی کوشش میں تھی۔
”ہاں۔ برا لگا ہے لیکن بہت زیادہ نہیں۔ خیر تم پریشان مت ہو۔ میرا خیال ہے، اب مجھے چلنا چاہیے۔” عارفین نے گھڑی دیکھی تھی۔
”لیکن جانے سے پہلے ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ مجھے تمہاری بہت پروا ہے، کل بھی تھی اور ہمیشہ رہے گی۔”
وہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے جاتے دیکھتی رہی۔
——————————————————————————————————————————-