امر بیل ۔قسط۔ ۹۔ عمیرہ احمد
باب 21
”ان این جی اوز کے آفس کینٹ کے علاقہ میں ہیں اور ظاہر ہے یہ تو ناممکن ہے کہ آرمی کے علاقے میں ہونے والی ایسی سرگرمیاں آرمی کی ایجنسیز سے خفیہ ہوں مگر وہ بھی صرف رپورٹس دے دیتے ہیں… کچھ کر نہیں سکتے۔”
وہاں اس عمارت کے بڑے کمرے میں سب لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے اسے عمر کی بات بے اختیار یاد آئی۔ وہ لوگ لاہور سے سیدھا اس گاؤں میں جانے کے بجائے پہلے اس این جی او کے آفس میں گئے جو شہر کے اندر کینٹ کے علاقے میں ایک خاصی بڑی کوٹھی میں واقع تھا، عمر کی ایک بات سچ ثابت ہوگئی تھی۔ وہاں انہیں اس این جی او کی طرف سے اپنے کام اور آفس کی دوسری سرگرمیوں کے بارے میں بریفنگ دی جانی تھی۔ اس وقت وہ چائے اور اسنیکس سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور علیزہ کو یہ دیکھ کر خاصی حیرت ہوئی کہ اس نسبتاً قدامت پسند علاقے میں بھی لڑکیوں کی ایک بڑی تعداداس این جی او کیلئے کام کر رہی تھی جو خاصی حیران کن بات تھی آفس کی عمارت کا ایک جائزہ لیتے ہوئے اسے قدم قدم پر حیرانی ہوئی تھی۔ عمارت میں موجود سہولتیں نہ صرف بے حد جدید تھیں۔ بلکہ خاصی وافر تھیں۔ اندر موجود کمپیوٹر اور فیکس مشینوں سے لے کر باہر موجود گاڑیوں کے ماڈلز تک یہ ظاہر کر رہے تھے کہ روپے کا خاصی فراوانی سے استعمال کیا جارہا ہے۔
”این جی او اگر واقعی دیہی علاقوں میں ریفارمز اور سوشل ڈیویلپمنٹ کیلئے کام کر رہی ہیں تو پھر ان کے آفسز بھی ان ہی گاؤں وغیرہ میں ہونے چاہئیں تاکہ وہ لوگوں کے ساتھ مسلسل اور بہتر رابطہ میں رہیں مگر کسی بھی این جی او کا آفس تم گاؤں کے اندر نہیں دیکھو گی۔ سارے آفسر شہر کے سب سے مہنگے اور محفوظ علاقے میں خاصے گم نام اور خفیہ رکھے گئے ہیں اگر ان کا کام لوگوں کی بہتری ہی ہے تو پھر انہیں تو لوگوں کے ساتھ رابطے زیادہ بڑھانے چاہئیں اپنے آفسزکو ایسی جگہوں پر رکھنا چاہیے جہاں زیادہ سے زیادہ لوگ ان کے نام سے واقف ہوں، ان کے پاس آسکیں مگر ایسا نہیں ہے شہر کے اردگرد گاؤں کے لوگ ان کے نام سے بہت آشنا ہیں مگر شہر میں اگر تم کینٹ کے علاقے میں بھی کھڑے ہو کر کسی سے کسی بھی این جی او کا نام بتا کر آفس کا پتا پوچھو تو وہ بے خبر ہوگا اگر انہیں کچھ لیک آؤٹ ہوجانے کا خطرہ نہیں ہے تو یہ لوگوں کو کھلے عام اپنے آفس میں کیوں آنے نہیں دیتیں۔ انٹرنیشنل میڈیا تو دھوم مچا رہا ہے ان کے کارناموں کی مگر مقامی اخبارات تک ان کے کام اور نام سے بے خبر ہیں۔” اسے عمر کے الزامات یاد آرہے تھے۔
چائے اور دوسرے لوازمات سے فارغ ہونے کے بعد انہیں اس این جی او کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے بریفنگ دینی شروع کی۔ ”جب ہم نے اس علاقے میں کام شروع کیا تھا اس وقت یہ پورا علاقہ ہر طرح سے پسماندہ تھا… یہاں زندگی کی بنیادی سہولیات تک نہیں تھیں صرف تیس فیصد بچے اسکول جاتے تھے اور پرائمری میں ڈراپ آؤٹ ریٹ بہت زیادہ تھا، اور وہ بہت سے مہلک امراض کا شکار ہو تے تھے۔ عورتوں کی حالت تو اس سے بھی زیادہ خراب تھی۔ ڈرگز کا استعمال بھی اس علاقے میں بہت زیادہ تھا۔”
وہ اب دوسرا ”Version” سن رہی تھی۔ ”اس علاقے میں موجود فیکٹریاں بانڈڈ لیبر کروا رہی تھیں۔ دیہاتی علاقے سے زمیندار زبردستی فیکٹریز کے مالکان کے مطالبے پر کام کیلئے لوگوں کو بھجواتے تھے۔ جو اجرت ان لوگوں کو دی جاتی تھی اسے سن کر آپ کو شاک لگے گا مگر لوگ کام کرنے پر اس لیے مجبور تھے کہ خواندگی کی شرح بہت کم تھی اور بے روزگاری بہت زیادہ تھی۔ بنیادی طور پر یہ زرعی علاقہ تھا مگر لوگوں نے اپنی زرخیز زمینیں فیکٹریز کی تعمیر کیلئے بیچنا شروع کردیں۔ اس سے یہ ہوا کہ اس علاقے میں کاشت کاری بہت کم ہوگئی۔ ایک بڑے علاقے میں ٹینریز بن گئیں اور ٹینریز سے نکلنے والے آلودہ پانی نے اس علاقے کی زرخیزی پر منفی اثرات مرتب کیے لوگوں کو نہ صرف مالی طور پر بہت سے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ بہت سے جلدی امراض بھی ان علاقوں میں پھیل گئے دوسرے لفظوں میں یا مختصراً آپ یہ سمجھ لیں کہ اس علاقے میں زیادہ استحصال ہو رہا تھا۔”
وہ بہت غور سے اس شخص کی باتیں سن رہی تھی۔
”پھر سب سے پہلے ہم نے اس علاقے میں کام شروع کیا۔ آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ یہ کتنا مشکل کام تھا بلکہ شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ ایک ہر کولین ٹاسک تھا، شروع شروع میں ہم جہاں جاتے تھے ہم سے تعاون نہیں کیا جاتا تھا بعض جگہوں پر تو ہمارے ممبرز پر حملے بھی کیے گئے۔ ہم پر دباؤ ڈالا گیا۔ مختلف فیکٹریز کی طرف سے کہ ہم یہ کام نہ کریں انہیں خوف تھا وہاں لوگوں میں شعور آئے گا تو ان کا بزنس ٹھپ ہوجائے گا اور یہ خوف بالکل درست تھا جن حالات اور شرائط پر وہ لوگ کام کررہے تھے شعور حاصل کرنے پر سب سے پہلے وہ ان فیکٹریز کیلئے کام کرنا ہی چھوڑتے، ہماری ثابت قدمی نے ایک طرف تو ان علاقوں کے لوگوں میں ہم پر اعتماد بڑھایا بلکہ دوسری طرف ہمیں دیکھ کر بہت سی دوسری این جی اوز بھی میدان میں آگئیں ایک پورا نیٹ ورک قائم ہوگیا۔”
اگر اسے عمر کی باتوں میں سچائی نظر آئی تھی تو اس شخص کے لہجے میں بھی وہ کوئی فریب ڈھونڈنے میں ناکام رہی اس کی الجھن بڑھ گئی تھی ”اپنی sense of Judgement۔” اسے عمر کی بات یاد آئی، مگر اسے استعمال کیسے کرتے ہیں اس نے سوچا تھا۔
”ہم لوگ گروپس بنا بنا کر سارا دن ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں اور دوسرے تیسرے گاؤں پھرتے رہتے ہمیں ایک ایک گھر جانا پڑا۔ وہاں سارے کوائف اکٹھے کرنے پڑے۔ گھر میں افراد کی تعداد کتنی ہے۔، ان میں عورتیں کتنی ہیں اور ان کی عمریں کیا ہیں، مرد کتنے ہیں اور کس عمر کے ہیں، بچوں کی تعداد کیا ہے اور کس عمر کے ہیں، گھر میں کام کرنے والے افراد کی تعداد کیا ہے؟ اور وہ کس کام سے منسلک ہیں۔ ان کی آمدنی کتنی ہے گھر میں کون سی سہولتیں ہیں، کیا بچے اسکول جاتے ہیں۔ گھر میں خواندہ افراد کتنے ہیں؟ یہ سب کچھ جاننے کیلئے ہمیں بڑے پاپڑ بیلنے پڑے کیونکہ لوگ ہمیں شک کی نظر سے دیکھتے تھے اور معلومات چھپاتے تھے یا غلط معلومات دیتے تھے یا پھر بات ہی نہیں کرتے تھے ہمیں ان معلومات کی ضرورت اس لیے تھی تاکہ ہم ان لوگوں کے مسائل حل کرنے کیلئے کوئی پراپر پلاننگ کرسکتے۔”
اس کے الجھے ہوئے ذہن میں اب کچھ اور گونج رہا تھا۔