Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

امر بیل ۔قسط۔ ۱۶۔ عمیرہ احمد

باب 44

دوسری طرف عباس تھا اس کی آواز سنتے ہی ریسیور پر علیزہ کے ہاتھ کی گرفت سخت ہو گئی۔
”ہیلو علیزہ… کیا پرابلم ہے؟ تم نے دوبار فون کیا… سب کچھ ٹھیک تو ہے۔”
”میں نے نیو ز پیپر دیکھ لئے ہیں۔”
دوسری طرف یک دم خاموشی چھا گئی۔
”عباس بھائی! مجھے یقین نہیں آرہا کہ، آپ اس طرح چار انسانوں کو قتل کر سکتے ہیں۔ ”
”علیزہ! تم ان چیزوں کو نہیں سمجھتیں۔” عباس نے بڑے مطمئن انداز میں کہا۔
”تم نے صرف اسی موضوع پر بات کرنے کے لئے فون کیا تھا؟” عباس نے اس کے سوال کا جواب گول کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں مجھے صرف اسی بارے میں بات کرنی ہے۔ آپ نے مجھ سے کہاتھا کہ آپ ان لوگوں کو پولیس اسٹیشن لے جانا چاہتے ہیں اس لئے اکٹھے کر رہے ہیں مگر آپ نے انہیں ما ردیا۔” وہ یک دم پھٹ گئی۔
”کوئی انسان اتنی بے رحمی کا مظاہرہ نہیں کر سکتا۔”
”تم تو واقعی غصے میں ہو علیزہ۔” وہ جیسے اس کے غصے سے محظوظ ہوا، علیزہ کو ہتک کا احساس ہوا۔
”آپ کو احساس ہے کہ آپ نے کتنا بڑاظلم کیا ہے؟”
”بالکل احساس ہے کہ میں نے کیا کیا ہے۔ البتہ میں تمہاری طرح اسے ظلم نہیں سمجھتا۔ میں نے وہی کیا ہے جو مناسب سمجھا۔” اس کے اطمینان اور سکون میں رتی بھر کمی نہیں آئی۔



”چار بے گناہ انسانوں کو اس طرح اٹھا کر مار دینا کہاں سے مناسب لگا ہے آپ کو؟”
”پہلی بات تو یہ کہ وہ بے گناہ نہیں تھے اور دوسری بات یہ کہ انہیں میں نے نہیں مارا۔ پولیس مقابلے میں مرے ہیں وہ۔” عباس نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔
”پولیس مقابلہ…؟ کون سا پولیس مقابلہ؟ مجھے تو بے وقوف نہ بنائیں۔ میرے سامنے آپ نے ان چاروں کو اپنی گاڑی میں بٹھایا ہوا تھا۔”
”ٹھیک … اگر تمہیں یہ یاد ہے تو پھر یہ بھی یاد ہو گا کہ میں نے انہیں کیوں پکڑا تھا۔”
”میری وجہ سے پکڑا تھا آپ نے انہیں،اور میری وجہ سے ہی مار دیا۔”
”تو کیا غلط کیا۔ اب اگر لوگ ہماری عورتوں تک آنا شروع کر دیں۔ تو ہم Don’t do it again (آئندہ ایسا نہیں کرنا) کہہ کر گال کو سہلا کر تو کسی کو نہیں چھوڑ سکتے۔”
”میں نے آپ کو انہیں چھوڑنے کے لئے تو نہیں کہا تھا، آپ انہیں گرفتار کر لیتے مگر اس طرح مارتے تو نہ۔”
”علیزہ! تم ان باتوں کو نہیں سمجھتیں… بہتر ہے اس معاملے کے بارے میں بات نہ کرو۔”
”میں کیا نہیں سمجھتی ۔ میں سب کچھ سمجھتی ہوں۔”
”تمہیں اتنی ہمدردی کیوں ہو رہی ہے ان سے؟”



”مجھے ہمدردی نہیں ہو رہی، میں صرف اس غلط کام کی نشاندہی کر رہی ہوں جو آپ نے کیا ہے؟”
”غلط یا صحیح کام کی تعریف تم میرے لئے چھوڑ دو، تم اس کے بارے میں اپنے ذہن کو مت الجھاؤ ،میں اپنا کام بہت اچھی طرح سے جانتا ہوں۔” عباس کی آواز میں اس بار سرد مہری تھی۔
”کیا کام جانتے ہیں آپ، صرف لوگوں کو جانوروں کی طرح قتل کردینا، اور جعلی پولیس مقابلے قرار دے کر میڈلز بانٹنا۔”
”ان چاروں کے ساتھ وہی ہوا ہے جس کے وہ مستحق تھے۔ میرے خاندان کی عورت کے پیچھے کوئی اس طرح آئے گا تو یہی کروں گا۔ ان کتوں کو عام عورتوں اور ہماری فیملی کی عورتوں میں کوئی فرق نہیں لگا۔”
”وہ نہیں جانتے تھے کہ میرا تعلق کس خاندان سے ہے میرے خاندان کے بارے میں چھان بین کرکے انہوں نے میرا پیچھا کرنا شروع نہیں کیا۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!