Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

امر بیل ۔قسط۔ ۲۲۔ عمیرہ احمد

”آرمی مانیٹرنگ کمیٹی… اب یہ کیا بکواس ہے؟” عمر جہانگیر نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی فائل کو میز پر تقریباً پٹختے ہوئے کہا۔
فوجی حکومت کو اقتدار سنبھالے چند ہفتے ہو گئے تھے اور آرمی مانیٹرنگ کمیٹیوں کا شوروغوغا ہر جگہ سنائی دے رہا تھا پولیس کے اعلیٰ حکام کے اندر ان مجوزہ کمیٹیز کے خلاف بہت زیادہ غصہ اور احتجاج پایا جاتا تھا مگر کھلے عام اس پر کوئی بھی تنقید کرنے سے خوفزدہ تھا۔ ہر ایک جانتا تھا ایسی کسی تجویز کی مخالفت کم سے کم ٹرانسفر اور زیادہ سے زیادہ معطلی کی موجب بن جائے گی اس لیے ہر ایک آرمی مانیٹرنگ کمیٹیز کو ناپسند کرنے کے باوجود ان کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کر رہا تھا۔
فوجی حکومت کا خیال تھا کہ آرمی کو براہ راست سویلین معاملات میں ملوث کرنے سے وہ اس کرپشن پر قابو پا لے گی جو پورے نظام کی جڑیں کھوکھلی کر رہی تھی اور ایک بار اس نظام کی خرابی رک جاتی تو شاید لوگوں کا اعتماد بھی بحال ہو جاتا مگر دوسرے بہت سے محکموں کی طرح پولیس کو بھی ان کمیٹیز کے قیام پر اعتراض تھا۔ اگرچہ وہ ان کمیٹیز کے خلاف بات کرتے ہوئے اپنے اختیارات میں کمی اور اپنے معاملات میں مداخلت کا حوالہ دے رہے تھے مگر جو حقیقی خدشات ان کے ذہنوں میں تھے وہ کرپشن کی ان لمبی کڑیوں والی زنجیر کو بچانا تھا جس کے منظر عام پر آنے سے بہت سے نامی گرامی لوگوں کے لیے بھی اپنی عزت بچا لینا بہت مشکل ہو جاتا جو آفیسرز ہاتھ کی صفائی دکھانے میں ماہر تھے انہیں یہ خوف تھا کہ ان کا پچھلا کرپشن کا کوئی معاملہ پکڑا نہ بھی گیا تب بھی آئندہ کے لیے کرپشن کے دروازے بند ہو جائیں گے اور یہ ان کے اور ان کے خاندانوں کے لیے 440 وولٹ کے شاک کی طرح تھا۔



دوسری طرف آرمی مانیٹرنگ کمیٹیز کے ذریعے پہلی بار فوج کو انتظامیہ کے ان اختیارات اور معاملات میں دخل اندازی کا موقع مل رہا تھا۔ جہاں وہ پہلے خاصی بے بس رہی تھی۔ فصل کاٹنے اور بدلے چکانے کا موسم آ چکا تھا، وہ انتظامیہ جو پہلے فوج کو گھاس نہیں ڈالتی تھی، اب ان کی زیر نگرانی کام کرنے پر مجبور تھی اور ان کی چپقلش شروع ہو چکی تھی۔
عمر جہانگیر بھی پولیس سروس کے دوسرے تمام آفیسر کی طرح ان کمیٹیز کو ناپسند کرنے اور ان پر تنقید کرنے والوں میں پیش پیش تھا۔
اس دن بھی صوبائی دارالحکومت میں پولیس آفیسرز کا ایک اجلاس ہو رہا تھا جس میں آرمی اور حکومت کے لتے لیے جا رہے تھے۔ ایک دن پہلے صوبائی گورنر ان ہی پولیس آفیسرز سے اپنے خطاب کے دوران پولیس کی ناقص کارکردگی اور کرپشن پر انہیں کھری کھری سنا چکے تھے۔ انہوں نے اپنی پینتالیس منٹ کی فی البدیہی تقریر میں ایک بار بھی پولیس کو کسی کام کے لیے نہیں سراہا تھا اور اس چیز نے ان آفیسرز کے غصے کو کچھ اور ہوا دی تھی۔
”گورنر چوبیس گھنٹے لاء اینڈ آرڈر کی بات کرتے رہتے ہیں۔ انہیں پتا ہے لاء اینڈ آرڈر ہوتا کیا ہے؟”
اس روز آفیسرز میں سے ایک نے گورنر کی تقریر پر بات کرتے ہوئے کہا۔
”ان کا تعلق آرمی سے ہے، رات کو سوئے صبح انہیں پتا چلا کہ وہ گورنر بن گئے ہیں اور پھر انہیں اچانک یاد آگیا کہ صوبہ میں ایک پولیس فورس بھی ہے جسے برا بھلا کہیں گے تو اگلے دن اخبار کے پہلے صفحے پر ہیڈ لائن بن جائے گی۔ لوگوں میں گورنر کی نیک نامی بڑھے گی۔ اپنے نمبر بنانے کے علاوہ اور کر کیا رہے ہیں وہ۔” ایک اور پولیس آفیسر نے تبصرہ کیا۔
” ان کا کام صرف ایک ہے باری باری اخبار نویسوں اور کالم نویسوں کو اپنے ساتھ مختلف علاقوں کے ذاتی دوروں پر لے جانا اور پھر واپسی پر ان کالم نویسوں کے تعریفوں سے بھرپور کالم پڑھنا۔ لوگ سمجھتے ہوں گے کیا گورنر پایا ہے، خلفاء راشدین کا زمانہ لوٹ آیا ہے کہ گورنر ہر وقت گشت پر رہنے لگا ہے۔ انہیں یہ پتا نہیں ہے کہ گورنر بھی ایک سیاست دان کی طرح کنویسنگ کر رہا ہے، اپنے لیے نہیں اپنے اوپر کے باسز کے لیے۔”
ایک فہمائشی قہقہہ لگایا گیا شاید عمر وہاں واحد تھا جو سنجیدہ رہا تھا۔
”ان کا خیال ہے اس طرح چوبیس گھنٹے ہمارے سر پر سوار رہ کر وہ ہمیں نکیل ڈال دیں گے۔ ہمیں اپنے اشاروں پر چلا لیں گے۔” ایک اور تند مزاج آفیسر نے کہا۔ ”اور یہ جو نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے کہ ان کمیٹیز کے ساتھ مکمل تعاون کیا جائے۔ آخر کیوں مکمل تعاون کیا جائے۔ سول سروس میں ہم اس لیے آئے تھے کہ ہم بالآخر ان کیپٹن اور میجر کے رینک کے آفیسرز کو اپنے تعاون کی یقین دہانیاں کرواتے پھریں۔” عمر ایک بار پھر بولا۔
”پہلے ہی فیلڈ میں ان سروس آرمی آفیسر کو ڈیپوٹیشن پر بھجوا رہے ہیں، جو پہلے ریٹائر ہو چکے ہیں۔ انہیں دھڑا دھڑ کانٹریکٹس کے ذریعے ہر جگہ لا بٹھایا ہے۔ آرمی والوں کو سول سروس میں لیا جا رہا ہے۔ پھر بھی کبھی انہیں چین نہیں ہے۔ وہ چاہتے ہیں جو تھوڑی بہت پاورز دوسرے محکموں کے لوگوں کے پاس رہ گئی ہیں، انہیں بھی چھین لیا جائے۔
ایک اور آفیسر نے کہا۔
”نہیں یہ کام وہ نہیں کریں گے ۔ براہ راست ہماری سیٹوں پر آکر نہیں بیٹھیں گے۔ یہ تو گالیاں کھانے والی جگہ ہے یہاں آکر وہ عوام سے گالیاں کیوں کھائیں، وہ بس ہمیں اپنی مٹھی میں رکھنا چاہتے ہیں، عوام بھی خوش کہ بھئی بڑی محنت کر رہی ہے آرمی، پولیس کی کارکردگی بہتر کرنے کے لیے۔” اس بار عمر نے کہا ”اور اوپر سے ہمارا محکمہ منہ اٹھائے سوچے سمجھے بغیر دھڑا دھڑ نوٹیفکیشنز اور سرکلرز جاری کر رہا ہے۔ فرمانبرداری اور تابعداری کے لیے سبق پڑھا رہا ہے ہمیں۔” عمر کو اپنے محکمے کے افسران بالا پر اعتراض ہوا۔



”ان کی مجبوری ہے وہ کیا کریں، اگر یہ نہ کریں تو…کون حکومت سے مخاصمت مول لینا چاہے گا اور وہ بھی اپنی جاب اور اپنے کیریئر کو داؤ پر لگا کر، سب سے بہتر طریقہ اپنی جان بچانے کا یہی ہے کہ سر جھکاؤ اوپر والوں کی ہاں میں ہاں ملاؤ اور اپنی جان بچاؤ مائٹ ازرائٹ اور اس وقت یہ مائٹ کس کے پاس ہے سب ہی جانتے ہیں۔”
ایک قدرے جونیئر افسر نے کہا۔
”اور یہ مقابلہ کرتے ہیں ہمارے ساتھ اور نصیحتوں کے ٹوکرے لے کر آ جاتے ہیں۔ جتنا کام پولیس کا ایک سپاہی کرتا ہے اتنا فوج کے ایک جوان کو کرنا پڑے تو انہیں پتا چلے بارہ، بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی دینے کے بعد بھی انہیں ملتا کیا ہے نہ بیوی بچوں کو کوئی سہولتیں ہوتی ہیں نہ خود اسے اور جو عام لوگوں کی بے عزتی برداشت کرنی پڑتی ہے وہ الگ اور یہ جنہیں بچوں کی تعلیم سے لے کر ان کے علاج تک کی سہولتیں دستیاب ہوتی ہیں اور گھر کے راشن تک پر رعایت ملتی ہے ، یہ ہر قدم پر اپنا اور ان کا مقابلہ کرنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی ذرا اسی چار پانچ ہزار میں ان تمام سہولتوں کے بغیر دھکے کھاتے ہوئے عوام کی خدمت کریں تو پھر میں مانوں کہ ہاں بھئی بڑا جذبہ اور ڈسپلن ہے ان میں…واقعی حب الوطنی پائی جاتی ہے۔”
ایک اور آفیسر نے تنفر بھرے انداز میں کہا۔
”بہرحال یہ بات طے ہے کہ کم از کم میں اپنے کاموں میں انہیں مداخلت کے لیے کھلی چھٹی نہیں دو ں گا مجھے انہیں سر پر نہیں چڑھانا۔” عمر نے جیسے حتمی انداز میں کہا۔
”اب اس کی وجہ سے سروس ریکارڈ خراب ہوتا ہے تو ہو جائے۔ گلے میں رسی باندھ کر کم از کم میں کسی کے سامنے میں میں میں نہیں کر سکتا۔ اگر یہی کام کرنا ہوتا تو پھر اس سروس میں آنے کے بجائے کہیں اور بیٹھا ہوتا۔”
عمر نے جیسے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔ وہاں بیٹھے ہوئے دوسرے کسی آفیسر نے اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا تھا مگر ان کے چہروں کے تاثرات واضح طور پر یہ بتا رہے تھے کہ وہ سب ہی آئندہ آنے والے دنوں میں تقریباً اسی قسم کی حکمت عملی اپنانے والے تھے جو عمر نے اپنانے کا اعلان کیا تھا۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!