Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”اندر دیکھو۔” اس لڑکے نے اندر دیکھا۔ علیزہ سے اس کی آنکھیں ملیں اور اس نے آنکھیں چرالیں۔
”میں نہیں پہچانتا۔” اس نے عباس سے کہا۔ عباس نے علیزہ کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”تم پہچانتی ہو اسے؟”
”ہاں… یہ ان میں سے ایک ہے۔” عباس نے ایک اور تھپڑ اس لڑکے کے منہ پر مارا۔
”اب حرام زادے یا تو تم ان دونوں کے بارے میں بتاؤ گے یا پھر میں تمہاری قبر اسی وقت یہاں بنوا دوں گا۔”
”میں بتا دیتا ہوں… وہ … ان دونوں کو گھر چھوڑ آئے ہیں ان کے… سر ! غلطی ہو گئی ہم سے… پلیز معاف کر دیں۔” وہ یک دم عباس کے سامنے ہاتھ جوڑنے لگا۔
عباس نے پولیس کے ایک سپاہی کو اسے موبائل میں بٹھانے کے لئے کہا۔ عباس وہیں کھڑا رہا۔ علیزہ نے عمر کو گاڑی کی طرف آتے دیکھا۔ عباس گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گیا۔
”عمر! تم ان لوگوں کی گاڑی میں بیٹھ جاؤ۔ ان دونوں میں سے ایک لڑکے کو بھی اسی گاڑی میں بٹھا دیتا ہوں۔ ان دونوں لڑکوں کے گھروں پر جا کر اسی لڑکے کو گیٹ پر بھجوانا۔ یہ انہیں باری باری باہر بلوائے گا اور پھر ہم انہیں پکڑ لیں گے۔ یہ نہ ہو کہ انہیں کوئی شک ہو جائے اور وہ باہر ہی نہ آئیں۔ جج کے گھر پر تو ویسے بھی گارڈ لگی ہو گی اور میں نہیں چاہتا۔ وہ کسی یونیفارم والے کو دیکھے۔ مجھے تو ویسے ہی پہچان جائیں گے۔ اس لئے میں گاڑی پیچھے رکھوں گا۔”
ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولتے ہی عباس نے عمر سے کہا۔
عمر دوبارہ گاڑی سے نکل گیا۔ عباس پسنجر سیٹ سے ڈرائیونگ سیٹ پر آگیا۔



”پلیز مجھے تو گھر چھوڑ دیں، مجھے نیند آرہی ہے۔” علیزہ نے ایک بار پھر عباس سے کہا۔
”ڈونٹ وری… چھوڑ دیتے ہیں۔ چھوڑ دیتے ہیں۔” اس نے گاڑی اسٹارٹ کر دی۔ علیزہ نے پولیس کی موبائل اور ان لڑکوں کی گاڑی کو سڑک پر حرکت میں آتے دیکھا۔
عباس کی گاڑی ان دونوں گاڑیوں سے پیچھے تھی۔ دس منٹ کے بعد علیزہ نے موبائل کی رفتار آہستہ ہوتے دیکھی۔ عباس نے اسے اوورٹیک کر لیا۔ اب اس کے آگے ان لڑکوں کی گاڑی تھی۔ علیزہ نے اچانک اس گاڑی کی ایک کھڑکی سے عمر کا بازو باہر نکلتے دیکھا۔ وہ کوئی اشارہ کر رہا تھا۔
عباس نے گاڑی کی رفتار کو آہستہ کرتے ہوئے گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی کر دی۔ ان لڑکوں کی گاڑی مسلسل چلتی رہی اور پھر ان کی گاڑی سے خاصا آگے جا کر وہ گاڑی رک گئی۔ علیزہ نے گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ سے ایک لڑکے کو اتر کر دائیں طرف کے ایک گیٹ پر جاتے دیکھا۔ وہ لڑکا اب گیٹ پر بیل بجا کر چوکیدار سے بات کر رہا تھا۔
پانچ منٹ کے بعد علیزہ نے گھر کے اندر سے ایک اور لڑکے کو باہر آتے دیکھا۔ وہ اس لڑکے کے ساتھ گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ علیزہ نے ان دونوں کو گاڑی میں بیٹھتے اور گاڑی کو تیزرفتاری کے ساتھ آگے بڑھتے دیکھا۔ اس گاڑی کے آگے بڑھتے ہی عباس نے اس گاڑی کے پیچھے جانے کی بجائے وہیں سڑک پر گاڑی موڑلی اور بہت تیزرفتاری سے گاڑی ڈرائیو کرنا شروع کر دی۔ علیزہ نے کچھ فاصلے پر ایک بار بھر موبائل کو اپنے پیچھے آتے دیکھا۔ کچھ دیر بعد اس موبائل وین نے ان لوگوں کی کار کو اوورٹیک کیا اور آگے نکل گئی۔ عباس اب اس کے پیچھے جا رہا تھا۔
ایک سڑک پر ٹرن لیتے ہی علیزہ نے ان لڑکوں کی گاڑی کو وہاں کھڑے دیکھا۔ پولیس کی گاڑی بھی اس کے پاس جا کر رکی اور علیزہ نے کار سے ایک اور لڑکے کو پولیس کی گاڑی میں منتقل ہوتے دیکھا۔
ایک بار پھر وہ تینوں گاڑیاں آگے پیچھے دوڑنے لگیں۔ ایک سڑک پر مڑنے کے بعد عباس نے گاڑی روک لی۔ پولیس کی موبائل بھی وہیں رک گئی جبکہ عمر والی گاڑی آفیسر ز کالونی میں داخل ہو گئی۔ اب وہ گاڑی ان کی نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی۔ علیزہ کی بے چینی اور اضطراب میں بہت اضافہ ہو گیا تھا۔
”عباس بھائی! پلیز مجھے تو گھر چھوڑ دیں میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔” علیزہ نے ایک بار پھر عباس سے کہا۔
”علیزہ بس دس منٹ اور… اس کے بعد میں تمہیں گھر چھوڑ دوں گا۔ تم آرام سے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر سو جاؤ۔” عباس نے اس سے کہا۔
دس منٹ بعد اچانک عباس کے موبائل کی گھنٹی بجنے لگی۔
”ہیلو۔” عباس فون پر بات کرنے لگا۔
”کچھ پرابلم ہو گیا ہے۔” علیزہ نے دوسری طرف سے عمر کی آواز سنی۔گاڑی میں اتنی خاموشی تھی کہ وہ دوسری طرف سے آنے والی آواز بھی سن رہی تھی۔
”وہ لڑکا باہر نہیں آرہا۔ اس کے باپ نے کہا ہے کہ وہ سو گیا ہے۔”



”تم اس لڑکے سے کہو کہ اس لڑکے سے موبائل پر کانٹیکٹ کرے اگر ا س لڑکے کے پاس موبائل ہے تو وہ اس پر اس سے کانٹیکٹ کرے ورنہ پھرگھر کے نمبر پر۔” عباس نے موبائل بند کر دیا۔ پانچ منٹ اور اسی طرح گزر گئے۔
پھر موبائل پر ایک بار کال آنے لگی۔ ” نہیں وہ لڑکا باہر نہیں آیا۔ اس نے اپنا موبائل آف کر دیا ہے۔جبکہ گھرکا فون اس کے باپ نے اٹھایا ہے اور وہ یہی کہہ رہا ہے کہ وہ سو گیا ہے۔” علیزہ نے ایک بار پھر عمر کی آواز سنی۔ عباس نے اس کی بات کے جواب میں کچھ گالیاں دیں اور پھر کہا۔
”اس نے اپنے باپ کو اپنے کرتوت کے بارے میں بتا دیا ہو گا اور مجھے لگتا ہے انہیں کوئی شک ہو گیا ہے۔ میں سول کپڑوں میں کچھ لوگوں کو بلواتا ہوں۔ اٹھا لائیں گے وہ اسے اندر سے گارڈ کا پتا کرتا ہوں کہ وہاں کس کی ڈیوٹی ہے کچھ دیر کے لئے اسے وہاں سے ہٹا دیتا ہوں۔ جب اس لڑکے کو اندر سے لے آئیں گے تو پھر گارڈ کو واپس بھجوا دیں گے۔ ” عباس نے ایک بار پھر موبائل بند کر دیا اور وائرلیس سیٹ پر کسی سے بات کرنے لگا۔
”مجھے سول کپڑوں میں آٹھ بندے چاہیں اور گاڑیاں بھی پرائیویٹ ہونی چاہئیں’ نمبر پلیٹ بدلوا دینا۔” علیزہ کی غنودگی یک دم ختم ہو گئی۔ وہ اس کی بات غور سے سننے لگی۔ وہ اب ایک جج کا نام لیتے ہوئے دوسری طرف ہدایات دے رہا تھا۔
”پتا کراؤ کہ اس کے گھر میں کون تعینات ہے۔ پتا کروانے کے بعد ان لوگوں کو کہنا کہ کچھ دیر کے لئے اسے وہاں سے ہٹا دیں۔ جج اور اس کی فیملی کو کچھ نہیں کہنا’ انہیں کسی کمرے میں بند کر دینا۔ اس کے بس ایک بیٹے کو وہاں سے لے کر آنا ہے۔ اس کا حلیہ تمہیں اس کے گھر کے باہر کھڑی گاڑی سے بتا دیا جائے گا۔ آپریشن بہت اچھے طریقے سے ہونا چاہئے۔ کوئی گڑ بڑ نہیں ہونی چاہئے اور ہاں انہیں کہنا ‘ واپس آنے سے پہلے گارڈ کو باندھ دیں اوور۔” عباس نے وائرلیس پر پیغام ختم کیا تو علیزہ نے اس سے پریشانی کے عالم میں پوچھا۔
”عباس بھائی! آپ کیا کرنے والے ہیں۔” وہ گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرایا۔
”پولیس ریڈ۔۔۔”
”مگر اس طرح ۔۔۔”
”ہاں بھئی، اس طرح بھی ہوتا ہے۔”
”آپ ان کے گھر جا کر خود سب کچھ بتا دیں اور اسے پکڑ لیں مگر اس طرح ۔۔۔” وہ سمجھ نہیں پائی کہ اس سے کیا کہے۔ ”آپ زبردستی گھر میں گھسیں گے؟”
”نہیں۔ پریشان مت ہو… وہ اندر جا کر بتا دیں گے… اندر تو جانا ہے کسی طرح۔” عباس کے لہجے میں حد درجہ اطمینان تھا۔
”مگر آپ تو کہہ رہے تھے۔ کہ وہ ۔۔۔” عباس نے اس کی بات کاٹ دی۔
”اس بات کو چھوڑو کہ میں کیا کہہ رہا تھا… مجھے یہ بتاؤ کہ چہرے پر زیادہ درد تو نہیں ہو رہا۔” علیزہ نے بے اختیار اپنا گال چھوا۔ وہ اندازہ لگا سکتی تھی کہ اس کا گال سوج چکا تھا اور یقیناً اس پر نیل بھی ہو گا۔
”نہیں۔ ٹھیک ہے۔” اس نے کہا۔
”اگلی بار جب بھی تم گھر سے نکلو تو اپنا موبائل ضرورساتھ رکھو۔ موبائل ہے نا تمہارے پاس؟ ”
”نہیں۔ مجھے اس کی کبھی ضرورت نہیں پڑی۔”
”میں صبح تمہیں ایک بھجوا دوں گا۔”
”نہیں’ میں خرید لوں گی۔”
”میں نے کہانا بھجوا دوں گا۔ رزلٹ کب تک آرہا ہے… یا آچکا ہے؟”
”ابھی نہیں آیا’ چند ہفتوں تک آجائے گا۔”
”پتا چلا تھا مجھے کوئی میگزین جوائن کیا ہوا ہے تم نے؟”
”ہاں… تھوڑا عرصہ ہوا ہے۔”
”کیسا کام جا رہا ہے؟” وہ اسے اپنے کام کی تفصیل بتانے لگی۔ وہ بڑی دلچسپی سے سن رہا تھا۔ علیزہ کو اندازہ نہیں ہوا کہ وہ کتنی مہارت سے بات کاموضوع بدل چکا ہے۔ وقتاً فوقتاً وہ گاڑی سے باہر نظریں دوڑاتا رہا۔
وہ اس کے ایک اور سوال کا جواب دے رہی تھی جب اس نے سنسان سڑک پر اچانک آگے پیچھے تیز رفتاری کے ساتھ دو گاڑیاں اس کالونی کے اندر جاتے دیکھیں۔ عباس بھی ان ہی گاڑیوں کو دیکھ رہا تھا۔ جب گاڑیاں اندر مڑ گئیں تو اس نے علیزہ سے کہا۔



”تم خاموش کیوں ہو گئیں؟ تمہیں چاہئے تم کوئی اس سے اچھا میگزین جوائن کرو۔” علیزہ نے کچھ الجھ کر اسے دیکھا اور پھر اس کے چہرے پر سنجیدگی پائی تو ایک بار پھر اس کے سوالوں کا جواب دینے لگی۔
پندرہ منٹ بعد اس نے اچانک عمر والی گاڑی کو اس کالونی سے نکلتے دیکھا۔ عباس نے بڑی پھرتی سے گاڑی اسٹارٹ کر دی۔ عمر کی گاڑی ان کے بالکل پاس آکر رکی اور عمر نیچے آیا۔ڈرائیونگ سیٹ سے ایک لڑکا بھی نیچے اترا اور پھر پچھلی سیٹ سے ایک کانسٹیبل کے ساتھ ایک اور لڑکا نیچے اترا۔ علیزہ نے ایک ثانیے میں اسے پہچان لیا۔ وہ وہی لڑکا تھا۔ جس نے اس کی گاڑی کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی تھی۔ عمر اپنی گاڑی کی طرف آیا اور پسنجر سیٹ کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گیا۔
”علیزہ ! وہ کون لڑکا ہے جس نے تمہیں مارا تھا؟” اندر بیٹھتے ہی اس نے علیزہ سے پوچھا۔
”جس کو آپ ابھی لے کر آئے ہیں یہ۔” عباس اور عمر کے درمیان نظروں کا خاموش تبادلہ ہوا۔
”ٹھیک ہے اب تم علیزہ کو لے جاؤ… اور علیزہ! گھر جا کر بالکل آرام سے سو جاؤ… گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ Every thing is over۔” عباس نے گاڑی سے نکلتے ہوئے گردن موڑ کر اس سے کہا اور ڈرائیونگ سیٹ چھوڑ دی۔ وہ صرف سر ہلا سکی۔
عمر اب ڈرائیونگ سیٹ پر آچکا تھا اور اس نے گاڑی موڑ لی۔ موبائل کے پاس سے گزرتے ہوئے علیزہ نے موبائل کے پچھلے حصے کی طرف عباس کو اس لڑکے کو پیٹتے ہوئے دیکھا۔ وہ اس لڑکے کو بری طرح ٹھوکریں مار رہا تھا۔ جبکہ وہ لڑکا زمین پر گرا ہوا تھا۔
پھر گاڑی تیز رفتاری سے آگے بڑھ گئی۔ ”یہ کیا کر رہے ہیں؟” وہ بے اختیار خوفزدہ ہوئی۔
”ابھی ان چاروں کو کیا کریں گے؟”
”کچھ نہیں۔ پولیس اسٹیشن لے جائے گا۔ ایف آئی آر کاٹے گا… اور پھر بند کر دے گا۔”
”اس کے بعد؟”
”اس کے بعد کورٹ میں کیس چلے گا… سزا وغیرہ ہو جائے گی۔” علیزہ کو اطمینان ہوا۔
”میری ضرورت تو نہیں پڑے گی اب؟”
”نہیں۔ بالکل بھی نہیں۔” علیزہ نے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں۔



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!