شام کچھ اور ڈھلی اور لان میں تاریکی اترنے لگی، مگر وہ وہیں بیٹھی رہی۔ بالآخر اس نے عمر کو پورٹیکو میں نکلتے دیکھا وہ بے اختیار خوش ہوئی اس کا خیال تھا کہ وہ اسے منانے کے لئے آیا تھا۔ مگر ایسا نہیں تھا عمر لان کی طرف دیکھے بغیر پورٹیکو میں کھڑی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ علیزہ کو جیسے کرنٹ لگا۔
”کیا وہ واپس جا رہا ہے، مگر اس نے تو رات کا کھانا بھی نہیں کھایا۔”
وہ بے چین ہو گئی…اسے توقع تھی کہ وہ رات کے کھانے تک رکے گا مگر… کرسٹی لان میں پھر رہی تھی، عمر کو لاؤنج سے باہر نکلتے دیکھ کر وہ بھاگتی ہوئی اس کی طرف گئی۔ عمر نے گاڑی کے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا ہی تھا جب وہ اس کے قریب پہنچ گئی اور اس کی ٹانگوں سے اپنا جسم رگڑنے لگی۔ علیزہ نے عمر کو رکتے دیکھا اس نے جھک کر کرسٹی کو گود میں اٹھا لیا پھر علیزہ نے اسے پلٹتے دیکھا۔ وہ اب لان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر علیزہ نے اسے اپنی جانب آتے دیکھا۔ اس کے قریب آنے پر علیزہ نے اپنی ناراضی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پوچھا۔
”آپ جا رہے ہیں؟”
”ہاں۔۔۔” عمر نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ کرسٹی کو اس نے دوسرے بازو میں پکڑا ہوا تھا۔
”’کھانے کے لئے نہیں رکیں گے؟” علیزہ نے اس کے ہاتھ کو نظر انداز کرتے ہوئے مایوسی سے کہا۔ ”نہیں۔۔۔”
علیزہ نے اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو دیکھا اور پھر اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔
اس کا خیال تھا وہ اس سے ہاتھ ملانا چاہتا تھا مگر ایسا نہیں تھا۔ عمر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا۔
”اٹھ جاؤ علیزہ۔۔۔” وہ نرم آواز میں کہہ رہا تھا۔ علیزہ اس کے ہاتھ کو پکڑ کر کھڑی ہو گئی۔
”ناراضی ختم ہو گئی تمہاری؟” وہ اب اس سے پوچھ رہا تھا۔
”میں ناراض نہیں ہوں، آپ ناراض ہیں۔”
”واک آؤٹ تو تم نے کیا تھا۔”
”آپ بھی تو کر رہے ہیں۔” وہ اس بار اس کی بات پر مسکرایا۔
”ہاں میں بھی کر رہا ہوں مگر یہ احتجاجاً نہیں ہے اور جہاں تک تم سے خفگی کا تعلق ہے تو میں تم سے کبھی بھی ناراض نہیں ہو سکتا۔”
”پھر آپ کھانا کھائے بغیر کیوں جا رہے ہیں؟” علیزہ نے فوراً کہا۔
”کیونکہ مجھے جوڈی کے ساتھ کھانا کھانا ہے۔”
وہ اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی۔ وہ اب کرسٹی کو اس کی طرف بڑھا رہا تھا۔ علیزہ نے بے دلی کے عالم میں کرسٹی کو پکڑ لیا۔
”آپ کے لئے جوڈتھ بہت اہم ہے۔”
”میرے لئے تم بھی بہت اہم ہو۔” عمر نے اس کی بات کے جواب میں بلا تامل کہا۔
”مگر جوڈتھ جتنی نہیں۔” اس کی آواز میں مایوسی تھی۔
”اگر تم میرے لئے کم اہم ہوتیں تو میں تمہارے کہنے پر یوں فوراً نہ آجاتا…اپنا موازنہ کسی دوسرے سے مت کرو… میرے لئے جو تم ہو، وہ تم ہو۔”
وہ خوش نہیں ہوئی۔ ”اور جو جوڈتھ ہے، وہ جوڈتھ ہے۔”
”ہاں۔” عمر نے ایک بار پھر بلا تامل کہا۔
ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہوئے وہ لان سے باہر آنے لگے۔
”آپ اور وہ دونوں یہاں آجائیں… ہوٹل میں نہ رہیں۔” علیزہ نے اس سے کہا۔
”نہیں… اب نہیں۔۔۔” عمر نے قطعی لہجے میں کہا۔
”کیوں…؟”
”جو لوگ مجھ سے وابستہ ہوں، میں ان کی بے عزتی برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر کسی کو مجھے عزت دینی ہے مجھ سے پہلے ان لوگوں کو دینی ہو گی جو مجھ سے منسلک ہیں۔ مجھے جوڈتھ کے ساتھ تمہارا رویہ اچھا نہیں لگا اور ایک بار واپس لے جانے کے بعد میں اسے دوبارہ رہنے کے لئے تو یہاں نہیں لاؤں گا۔ اگر میں ایسا کرتا ہوں تو یہ جوڈتھ کی انسلٹ ہو گی، اور میں ایسا کبھی نہیں کروں گا۔”
”میں نے ان کی انسلٹ نہیں کی۔” اس نے کمزور لہجے میں کہا۔
”ہاں مگر تم نے یہ ضرور ظاہر کیا ہے کہ تم اسے ناپسند کرتی ہو۔”
”میں ان سے ایکسیکیوز کر لوں گی۔” علیزہ چلتے چلتے رک گئی۔
”اور میں یہ بھی کبھی نہیں چاہوں گا، میں تم کو ڈی گریڈ کبھی نہیں کر سکتا۔ مجھے اس میں بھی اپنی بے عزتی محسوس ہو گی۔”
اس کے لہجے میں صاف گوئی تھی، وہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر اس نے کہا۔”آپ جوڈتھ سے محبت کرتے ہیں؟”
وہ خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔
”اس لئے اسے ناپسند کر رہی ہو تم؟ ” اس کے بات کے جواب میں اس نے بڑے پر سکون لہجے میں کہا۔
علیزہ نے کرسٹی کو زمین پر اتار دیا۔ وہ جانتی تھی عمر کو اس کے جواب کی ضرورت نہیں۔ اس کا ہر جواب بقول عمر اس کے چہرے پر تحریر ہوتا تھا اور عمر کو یقیناً وہ جواب مل گیا تھا۔
”وہ آپ کو بہت اچھی لگتی ہے؟” اس نے اکھڑے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
”ہاں۔۔۔” عمر نے بلاتامل کہا۔
”پھر آپ اس سے شادی کرلیں۔”
”مجھے تو سڑک پر چلنی والی ہر خوبصورت لڑکی اچھی لگتی ہے۔ کیا سب سے شادی کر لوں؟”
”میں جوڈتھ کی بات کر رہی ہوں۔”
عمر نے ایک گہرا سانس لیا۔ ”تم کو اور جوڈی کو کچھ دیر اکھٹے بیٹھنا چاہئے، اس کے ساتھ وقت گزارو گی تواتنا ناپسند نہیں کرو گی اسے اور اگر صرف اس لئے اسے ناپسند کررہی ہو کہ میں اسے پسند کرتا ہوں تو پھر تم کو یہ جان لینا چاہئے کہ میں ہمیشہ اسے پسند کرتا رہوں گا۔ میں اپنے دوست اور دشمن کبھی نہیں بدلتا، وہ میری دوست تھی، دوست ہے، اور ہمیشہ دوست ہی رہے گی۔”