اور تیسرے دن وہ واقعی اس کے سامنے تھا۔ علیزہ کو اس دن بھی ہلکا ہلکا بخار تھا اور وہ اپنے کمرے میں تھی جب وہ دروازے پر دستک دے کر اندر داخل ہوا۔ وہ اسے دیکھ کر بے اختیار مسکرانے لگی مگر عمر اسے دیکھ کر فکر مند ہو گیا۔ علیزہ اپنے بستر سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔ وہ سیدھا اس کے پاس آکر بیٹھ گیا۔
”کم آن علیزہ! کیا حال بنایا ہوا ہے تم نے، میں تو پہچان ہی نہیں سکا۔” وہ اس کے کندھے پر بازو پھیلائے کہہ رہا تھا۔ وہ مسکرائی۔
اس کی فکر مندی اسے اچھی لگ رہی تھی۔ اس کے خوش ہونے کے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ صرف اس کے لئے اتنی دور سے سب کچھ چھوڑ کر آگیا تھا۔
”تمہارا بخار کیسا ہے؟” عمر کو یک دم یاد آیا علیزہ کے جواب کا انتظار کیے بغیر اس نے علیزہ کے ماتھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
”ابھی بھی بخار ہے؟”
”ہاں لیکن زیادہ نہیں۔”
”ٹھیک ہے اگر زیادہ بخار نہیں تو پھر اٹھو۔” وہ کھڑا ہو گیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھانے لگا۔
”کہاں جانا ہے؟” وہ کچھ حیران ہوتے ہوئے اٹھ کرکھڑی ہو گئی۔
”کہیں دور نہیں جانا۔ بس لاؤنج تک جانا ہے۔ کسی سے ملوانا ہے تمہیں۔”
وہ اب اس کا ہاتھ پکڑے کمرے کے دروازے کی طرف جا رہا تھا۔
”کس سے ملوانا ہے؟”
”ایک دوست سے۔” وہ مسکرایا۔ علیزہ کچھ حیران ہوئی۔ اس سے پہلے عمر نے کبھی اسے اپنے کسی دوست سے ملوانے کی کوشش نہیں کی تھی، اب یک دم ایسا کون سا دوست آگیا ہے جس سے ملوانا وہ ضروری سمجھ رہا تھا۔
”میں کپڑے چینج کر لوں۔” اس نے ٹھٹکتے ہوئے کہا۔
”کوئی ضرورت نہیں۔ ” وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر دوبارہ کھینچنے لگا۔
”بالوں میں برش تک نہیں کیا ہے میں نے۔” علیزہ نے احتجاج کیا۔
”یار! تمہیں ضرورت ہی نہیں ہے برش کی، تم اس طرح بھی بہت خوبصورت لگتی ہو۔” وہ اب کمرے سے باہر نکل آئے تھے۔
”یہ دوست کہاں سے لائے ہیں؟” علیزہ نے تجسس کے عالم میں پوچھا۔ عمر کچھ کہنے کے بجائے پر اسرار انداز میں مسکرایا۔
لاؤنج میں داخل ہوتے ہی علیزہ ٹھٹھک گئی۔ اس کے بالکل سامنے صوفہ پر نانو کے ساتھ ایک غیر ملکی لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کی عمر تیئس چوبیس سال تھی اور اس کے نقوش خاصے تیکھے تھے، بلیک ٹراؤزر اور سفید ٹی شرٹ میں ملبوس وہ اس وقت لاؤنج کی سب سے نمایاں چیز تھی۔
علیزہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکی۔
”آؤ نا علیزہ ! رک کیوں گئی ہو؟”
عمر اب اس سے انگلش میں مخاطب تھا۔ اس لڑکی نے چونک کر ان دونوں کو دیکھا اور پھر اس کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ علیزہ نے کچھ خشمگیں نظروں سے عمر کو دیکھا اور پھر آگے بڑھ آئی۔
”علیزہ ہے، میری کزن اور علیزہ ! یہ جوڈتھ ہے میری بہت اچھی دوست۔ ”
عمر نے ان دونوں کا تعارف کروایا۔ علیزہ نے کسی رسمی مسکراہٹ کے بغیر اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ جوڈتھ نے اس سے ہاتھ نہیں ملایا۔ وہ چند قدم آگے بڑھی اور بڑی بے تکلفی کے ساتھ اس نے علیزہ کے دونوں شانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کا گال چوم لیا۔ علیزہ اس کی اس گرم جوشی پر بے اختیار سٹپٹائی۔
”کیسی ہو علیزہ؟” وہ اب پوچھ رہی تھی۔
”میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسی ہیں؟” اس نے کہا۔
علیزہ نے اس سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ اسے کیسا توقع کر رہی تھی۔ وہ یک دم ہر چیز میں دلچسپی کھو بیٹھی تھی چند لمحے پہلے تک عمر کو اپنے سامنے دیکھ کر وہ جتنی خوش ہوئی تھی۔ اب اس خوشی کا کہیں نام و نشان بھی باقی نہیں رہا تھا۔
جوڈتھ اب واپس نانو کے ساتھ صوفہ پر بیٹھ گئی تھی۔ علیزہ کچھ جھجکتے ہوئے ایک دوسرے صوفہ پر بیٹھ گئی۔ عمر اب جوڈتھ کا تفصیلی تعارف کروا رہا تھا۔
”ہماری دوستی دس سال پرانی ہے۔ جو ڈتھ اور میں ایک ہی اسکول میں جاتے رہے ہیں، پھر کیلی فورنیا یونیورسٹی میں بھی یہ میرے ساتھ ہی رہی۔”