وہ ایک بہت بڑا کمرہ تھا اور اس کی لائٹ آن تھی۔ بستر کی سلوٹوں سے محسوس ہو رہا تھا کہ وہاں چند لمحے پہلے کوئی سویا یا لیٹا ہوا تھا مگر اب وہاں کوئی بھی نہیں تھا اور تب ہی اس کی نظر بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھے ہوئے فون پر پڑی۔ اکھڑے ہوئے سانس اور پسینے سے بھیگے ہوئے وجود کے ساتھ وہ چیل کی طرح فون پر جھپٹی ، اس نے برق رفتاری سے ریسیور اٹھا کر شہلا کا نمبر ملانا شروع کر دیا۔ اسے سیڑھیوں پر کسی کے بھاگتے قدموں کی آواز سنائی دی۔ وہ لوگ یقیناً اب اوپر آرہے تھے۔ اس کا سانس رکنے لگا۔ وہ کسی بھی لمحے اس تک پہنچنے والے تھے بیل ہو رہی تھی مگر کوئی بھی ریسیور نہیں اٹھا رہا تھا۔
”یا اللہ… یااللہ… اللہ کے واسطے فون اٹھاؤ۔” وہ التجائیہ انداز میں بڑبڑانے لگی اور تب ہی دوسری طرف سے ریسیور اٹھا لیا گیا۔
”ہیلو۔” اس نے شہلا کی آواز سنی مگر اس سے پیشتر کہ وہ کچھ بولتی ، اس نے ساتھ والے دروازے پر کسی کو ٹھوکر مارتے سنا اور پھر کوئی بلند آواز میں گالیاں دیتے ہوئے اسے دروازہ کھولنے کے لئے کہنے لگا۔
”شہلا! میں علیزہ ہوں۔” اس نے اکھڑے ہوئے سانس کے ساتھ سرگوشی میں کہا۔ وہ ابھی اس کا دروازہ نہیں بجا رہے تھے اور وہ چاہتی تھی کہ انہیں یہ شک نہ ہو کہ وہ اس کمرے کے بجائے ساتھ والے کمرے میں ہے۔
”علیزہ تم… تم گھر پہنچ گئی ہو؟” شہلا نے دوسری طرف سے اس سے پوچھا۔
”میں گھر نہیں پہنچی ہوں۔”
”کیوں اور تم اتنا آہستہ کیوں بول رہی ہو؟” شہلا کی آواز میں حیرت تھی۔
”شہلا پلیز ! اس وقت کوئی سوال مت کرو صرف میری بات سنو۔ میں مصیبت میں ہوں، وہ لوگ میرے پیچھے آئے تھے۔ میں ایک گھر میں گھس گئی ہوں اور ایک کمرے سے تمہیں فون کر رہی ہوں۔ وہ لوگ بھی اندر آچکے ہیں۔ اور اب ساتھ والے کمرے کا دروازہ کھلوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔۔” اسے دوسری طرف سے شہلا کی چیخ سنائی دی۔
”پلیز! پلیز میری مدد کرو… وہ مجھ تک پہنچ جائیں گے۔” علیزہ کی ہمت جواب دے گئی وہ رونے لگی۔
”تم کہاں ہو…؟ کس گھر میں ہو؟”
”مجھے کچھ پتا نہیں… مجھے کچھ بھی پتا نہیں… مگر میں تمہارے ہی علاقے میں ہوں۔ ”
”گھر کا ایڈریس بتا سکتی ہو؟”
”نہیں۔”
”گھر کی کوئی نشانی؟ ”
”نہیں… نہیں۔” وہ گڑگڑائی اور تب ہی اس نے اپنے کمرے کے دروازے کے باہر ایک آواز سنی۔
”مجھے لگتا ہے ، وہ یہاں ہے۔ اس کمرے کی لائٹ آن ہے۔ نیچے جا کر چابیاں لاؤ۔”
”شہلا… شہلا! وہ میرے کمرے تک پہنچ گئے ہیں۔” اس نے روتے ہوئے اسے بتایا۔
”ممی…!ممی…! موبائل سے پولیس کا نمبر ملائیں… ممی! موبائل سے پولیس کا نمبر ملائیں۔” اس نے شہلا کو چلا کر اپنی ممی کو ہدایت دیتے سنا۔
اب دروازے پر ٹھوکریں ماری جار ہی تھیں۔ وہ گالیوں کی آوازیں سن رہی تھی۔ علیزہ گھٹی ہوئی آواز میں رو رہی تھی۔
”علیزہ… ! علیزہ…! فون بند مت کرنا۔ ہم کال ٹریس کرواتے ہیں۔ دیکھو گھبرانا مت۔” وہ شہلا کی آواز سن رہی تھی۔ وہ بھی اب رو رہی تھی۔
”علیزہ…! علیزہ…! ” اس نے ریسیور پر اب شہلا کے بھائی فاروق کی آواز سنی۔
”فاروق…! دروازہ ٹوٹنے والا ہے۔ وہ اندر آجائیں گے، وہ ابھی اندر آجائیں گے۔ ” وہ یک دم بلند آواز میں چلا اٹھی۔ دروازہ اب واقعی اتنی بری طرح دھڑدھڑایا جا رہا تھا کہ یوں لگتا تھا وہ کسی بھی لمحے ٹوٹ کر نیچے گر پڑے گا۔
”علیزہ کمرے میں باتھ روم دیکھو… وہاں اگر باتھ روم ہے تو اس کے اندر جا کر دروازہ بند کر لو اور کمرے کی لائٹ آف کر دینا۔ فون اگر باتھ روم کے اندر لے جا سکتی ہو تو لے جاؤ اگر تار لمبی نہیں ہے تو پھرفون اٹھا کر بیڈ کے پیچھے چھپا دو مگر فون بند مت کرنا۔” فاروق بلند آواز میں اسے ہدایات دینے لگا۔
”ہم کال ٹریس کر لیتے ہیں۔ ہم ابھی تم تک پہنچ جائیں گے۔ گھبرانا مت… رو ؤ مت۔”
”مجھے ایک دروازہ نظر آرہا ہے۔ وہ باتھ روم کا ہی ہو گا۔”
”تم وہاں چلی جاؤ… اور اندر جا کر دیکھو، وہاں کوئی ایسی چیز ہے جسے تم اپنے دفاع کے لئے استعمال کر سکتی ہو اور مجھے یہ بتاؤ تم جس گھر کے اندر گئی ہو کیا گاڑی لے کر گئی ہو۔”
”ہاں۔” دروازے پر کوئی چیز ماری گئی تھی۔ علیزہ کے ہاتھ سے ریسیور گر پڑا۔ دروازہ بری طرح ہلا تھا۔ وہ بھاگتے ہوئے باتھ روم کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی اور بولٹ چڑھا لیا۔
باتھ روم میں ایک نظر دوڑاتے ہی اسے اپنے بالکل سامنے ایک اور دروازہ نظر آیا۔ وہ باتھ روم یقیناً دو کمروں کے درمیان تھا اور وہ کمرہ وہی تھا جسے اس نے سب سے پہلے کھولنے کی کوشش کی تھی مگر وہ بند تھا۔ اس نے برق رفتاری سے وہ دروازہ کھولا اور اس کے حلق سے چیخ نکلی۔