”نہیں۔ میں نہیں چڑھ سکتی۔” وہ سر ہلاتے ہوئے ایک بار پھر پورچ کی چھت پر بیٹھ گئی۔اس نے ان لڑکوں کو کھڑکی سے غائب ہوتے دیکھا۔ چند منٹوں بعد پورچ کی چھت سے ایک سیڑھی لگائی گئی۔ علیزہ کو ایک بار پھر اسی لڑکے کا سر نظر آیا۔
”آپ یہاں سے آجائیں۔” وہ لڑکا کہتے ہوئے نیچے اتر گیا۔ علیزہ نے سیڑھی پکڑ کر نیچے جھانکا اور وہ نیچے اترنے کی ہمت نہیں کر سکی۔
نیچے بہت سے لوگ کھڑے تھے۔ وہ یک دم پیچھے ہٹ گئی۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ سیڑھی پر پہلا قدم رکھتے ہی نیچے گر جائے گی۔ اس کے پیروں میں اتنی لرزش تھی۔
پھر اس نے نیچے سے کسی کو اپنا نام پکارتے سنا، ایک لمحہ میں وہ آواز پہچان گئی۔ وہ عباس حیدر تھا۔ انکل ایاز حیدر کاتیسرا بیٹا… وہ بھی پولیس میں تھا اور لاہور میں ہی پوسٹڈ تھا۔
”علیزہ … میں عباس ہوں۔ نیچے آجاؤ، گھبرانے کی ضرورت نہیں، سب کچھ ٹھیک ہے۔” وہ بلند آواز میں اس کا نام پکارتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
وہ رونا نہیں چاہتی تھی مگر اسے بے تحاشا رونا آرہا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ عباس کی شکل دیکھتے ہی وہ خود پرقابو نہیں رکھ پائے گی بلکہ اس وقت اپنی فیملی کے کسی بھی شخص کو دیکھ کر وہ رونے کے علاوہ کچھ نہ کرتی۔ اس نے اپنے کپکپاتے ہونٹوں کو بھینچ لیا اور سیڑھی کی طرف بڑھ گئی۔
”نہیں۔ اتنے لوگوں کے سامنے مجھے رونا نہیں ہے اور پھر میں بالکل ٹھیک ہوں۔ کچھ بھی تو نہیں ہوا۔” اس نے دل ہی دل میں کہا اور نیچے جھانکا۔ عباس اب سیڑھی پر ہاتھ رکھے کھڑا تھا۔ شاید وہ چڑھنے کا سوچ رہا تھا مگر علیزہ کو نمودار ہوتے دیکھ کر وہ چند قدم پیچھے ہٹ گیا۔
”ویری گڈ علیزہ… آجاؤ نیچے۔” اس نے اسے پچکارتے ہوئے کہا۔ وہ ہونٹ بھنچتے کانپتے ہوئے قدموں کے ساتھ سیڑھی اترنے لگی۔
آخری سیڑھی پرآتے ہی عباس نے اسے آگے بڑھ کر تھام لیا۔
”تم ٹھیک ہو؟” وہ نرم لہجے میں اس سے پوچھنے لگا۔
علیزہ نے اس کے چہرے کی طرف دیکھے بغیر سر ہلایا۔ وہ خود پر قابو رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ اب پولیس والوں کو ہدایت دے رہا تھا۔
وہ اس کے ساتھ چلتی ہوئی پورچ میں آگئی اور تب ہی اس نے ایک شخص کو اپنی طرف بڑھتے دیکھا اور اس کا سارا حوصلہ جواب دے گیا۔ وہ عمر تھا۔ عباس کے برعکس وہ یونیفارم میں نہیں تھا۔ اسے ننگے پاؤں دوپٹے کے بغیر اس حالت میں اس کے سامنے آکر بے تحاشا بے عزتی کا احساس ہوا۔ مگر وہ جب اس کے قریب آیا تو وہ ننھے بچوں کی طرح اس سے لپٹ کر بلند آواز میں رونے لگی۔
”اسے گاڑی میں لے جاؤ۔” اس نے عباس کو کہتے سنا۔ عمر بہت نرمی کے ساتھ اسے اپنے ساتھ لپٹائے اس کا سر تھپک رہا تھا۔
”پانی لے کر آؤ” وہ اب کسی سے کہہ رہا تھا۔ اس نے علیزہ کو چپ کروانے کی کوشش نہیں کی۔
”گاڑی میں دیکھو، ان کا دوپٹہ اور جوتا ہے۔ اگر نہیں تو گھر کے اندر دیکھو… یا ان سے مانگ لینا۔” وہ مسلسل کسی کو ہدایت دے رہا تھا۔
”کافی ہے علیزہ…!” نرمی سے کہتے ہوئے اس نے علیزہ کو خود سے الگ کر دیا۔
”سر! یہ ان کا جوتا، دوپٹہ اور بیگ۔۔۔” ایک کانسٹیبل گاڑی کے اندر سے اس کی چیزیں لے کر پاس آگیا۔
عمر نے دوپٹہ اور بیگ پکڑ لیا۔ وہ جوتا پہننے لگی۔ عمر نے دوپٹا اس کے کندھے پر رکھ دیا۔ علیزہ نے دوپٹہ ٹھیک سے پھیلاتے ہوئے اس کے ایک کونے سے اپنا چہرہ صاف کیا اور بیگ کے لئے ہاتھ پھیلایا۔
”یہ میں پکڑ لیتا ہوں۔ تم پانی پی لو۔” اس نے اب گھر کے اندر سے منگوایا جانے والا پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھایا۔ علیزہ نے ایک ہی سانس میں پورا گلاس خالی کردیا۔
”اور چاہئے۔” اس نے پوچھا، اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔
عمر نے اس کے ہاتھ سے گلاس لیتے ہوئے اس شخص کی طرف بڑھایا۔جو پانی لے کر آیا تھا۔ گلاس دینے کے بعد اس نے بہت نرمی سے علیزہ کی ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کر چہرہ اوپر کرتے ہوئے اس کے چہرے کا جائزہ لیا۔
”یہاں کیا ہوا ہے؟” علیزہ کی آنکھوں میں ایک بار پھر نمی آنے لگی۔
”ان میں سے کسی نے مارا ہے؟” اس نے سر ہلا دیا۔ عمر نے اس کے چہرے سے اپنا ہاتھ ہٹا لیا۔
”آؤ چلیں۔ ” وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر آگیا۔ پولیس کی کسی گاڑی کی طرف لے جانے کے بجائے وہ اسے اپنی گاڑی کی طرف لے آیا۔ پچھلا دروازہ کھول کر اس نے اس کا بیگ اندر رکھا اور پھر اسے بیٹھنے کے لئے کہا۔
”میں ابھی آتا ہوں۔” وہ دروازہ بند کرکے چلا گیا۔ سڑک پر موجود پولیس کی گاڑیاں اب وہاں سے روانہ ہو رہی تھیں۔
علیزہ نے دور ایک گاڑی کے پاس عباس اور عمر کو چند دوسرے پولیس والوں کے ساتھ باتیں کرتے دیکھا۔ وہ دس پندرہ منٹ تک وہیں باتیں کرتے رہے۔ پھر اس نے عباس کو اس گھر کے اندر جاتے دیکھا جہاں عمر اس کی طرف آیا۔
گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر وہ اس کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ ”اب مجھے تفصیل سے بتاؤ۔ کیا ہوا تھا… شہلا سے میں بات کر چکا ہوں۔ یہ جانتا ہوں وہ چار لڑکے تھے۔ گاڑی کا نمبر بھی اس گھر کے چوکیدار نے بتا دیا ہے۔ میں شہلا کے گھر سے یہاں تک کی ساری تفصیل جاننا چاہتا ہوں۔” وہ بڑے نرم انداز میں کہہ رہا تھا۔
”اور علیزہ ! کچھ بھی چھپانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں سب کچھ جاننا چاہتا ہوں۔” علیزہ نے سیٹ کی پشت پر اپنا سر رکھ دیا۔ اسے وہ سب یاد کرتے ہوئے خوف آنے لگا تھا۔
”میں بہت تھک گئی ہوں۔ اس وقت مجھے گھر لے جائیں۔ میں صبح بتا دوں گی۔”
”میں تمہیں گھر لے جاؤں گا مگر یہ سب جاننا ضروری ہے۔ ہم انہیں ابھی پکڑنا چاہتے ہیں۔”
وہ چپ چاپ ونڈ اسکرین سے باہر دیکھتی رہی۔ عمر چند لمحے منتظر نظروں سے اسے دیکھتا رہا پھر کار کے کھلے دروازے سے نیچے اتر گیا۔
دس منٹ بعد وہ دوبارہ نمودار ہوا۔ علیزہ نے دور سے اس کے پیچھے چلتے ہوئے ایک شخص کے ہاتھ میں ایک ٹرے دیکھی۔ کار کے پاس آنے پر عمر نے دروازہ کھول دیا۔ اس شخص نے وہ ٹرے کار کی پچھلی سیٹ پر رکھ دی اور دروازہ کھلا چھوڑ کر چلا گیا۔
عمر اب پسنجر سیٹ پر بیٹھا ہوا گلو کمپارٹمنٹ سے کچھ نکال رہا تھا۔ چند لمحوں بعد وہ بسکٹ کا ایک پیکٹ لے کر پچھلی سیٹ پر آگیا۔ علیزہ اس وقت تک ٹرے میں رکھے ہوئے چائے کے دو کپس میں سے ایک اٹھا چکی تھی۔ عمر نے بسکٹ کا پیکٹ کھول کر ٹرے میں رکھ دیا اور دوسرا کپ اٹھا لیا۔