Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”کیوں نہ کہوں۔میں نے تو اسے دنیا کی ہر لگژری دے رکھی ہے ،اور آج سے نہیں،بچپن سے اور یہ……یہ میری ایک بھی بات مانے پر تیار نہیں ہے۔ وہاں شادی نہیں کرنا چاہتا تو پھر کہاں کرنا چاہتا ہے۔ وہ لڑکی اچھے کردار کی نہیں تو پھر میں اسے ایک اور لڑکی دکھا دیتا ہوں۔ یہ وہاں شادی کر لے مگر نہیں، یہ وہاں بھی شادی نہیں کرے گا۔ یہ ایسی کسی جگہ شادی نہیں کرے گا جہاں میں اس کی شادی کرنا چاہتا ہوں۔ اسے لگتا ہے باپ اس کا سودا کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے یہ باپ کو کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ ہاں باپ اس کا ملازم ہے، وہ اسے ساری عمر فائدے پہنچاتا رہا ہے اور پہنچاتا رہے گا۔”
”جہانگیر ! تم اس معاملہ میں ضد نہ کرو۔ جوان اولاد سے ضد کرنا ٹھیک نہیں ہے اور پھر جوان بیٹے سے۔…تم سمجھتے کیوں نہیں۔ وہ تمہاری بات نہیں مانتا تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔ اس طرح اس کے پیچھے مت پڑو۔ آج اس نے جو کچھ کرنے کی کوشش کی ہے اس نے مجھے دہلا دیا ہے۔”
”آپ خوفزدہ مت ہوں……یہ پہلے بھی دوبار ڈرامہ کرنے کی کوشش کر چکا ہے۔”
انکل جہانگیر اب بھی تلخ تھے۔



”اگر وہ پہلے بھی دو بار یہی کوشش کر چکا ہے تو تمہیں زیادہ فکر مند ہونا چاہئے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ واقعی اس حد تک زچ ہو چکا ہے کہ اس آخری قدم کو اٹھانے سے بھی گریز نہیں کر رہا۔”
نانو نے انکل جہانگیر کو سمجھانے کی کوشش کی تھی، مگر وہ کچھ بھی سننے کو تیار نہیں تھے۔
”آپ اسے مجھ سے بہتر نہیں سمجھتیں ، میں جانتا ہوں، مجھے اسے کس طرح سے ہینڈل کرنا ہے اور میں کرلوں گا۔ آپ اس معاملے میں اس کی سائیڈ مت لیں۔”
”میں اس کی سائیڈ نہیں لے رہی۔میں صرف تمہیں سمجھا رہی ہوں۔ کہ یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔ تم کسی تیرہ سالہ لڑکے کو ہینڈل نہیں کر رہے۔ تیس سالہ مرد کا سامنا ہے تمہیں۔ اسے بچہ سمجھ کر کسی چیز کو اس پر ٹھونسنے کی کوشش مت کرو۔”
”اس پر کسی بھی چیز کو ٹھونسنے کی کوشش نہ کروں اور اپنا کیرئیر تباہ کر لوں۔”
”اگر وہ نہ ہوتا تو پھر تم کیا کرتے، پھر بھی تو کسی نہ کسی طرح خود کو مصیبت میں سے نکالتے ہی نا پھر اب بھی کچھ نہ کچھ کر لو۔”
”تب کی بات اور ہوتی مگر اب میں یہ سوچ کر نہیں چل رہا ہوں کہ وہ نہیں ہے۔ اب اگر وہ ہے تو پھر اسے میرے کام آنا ہو گا۔جیسے میں ہمیشہ اس کے کام آتا رہا ہوں۔”
”جہانگیر ! تم اتنی ضد کیوں کر رہے ہو؟ تمہیں یاد نہیں ہے،تمہارے باپ نے کبھی تم چاروں کے ساتھ اس طرح ضد نہیں کی تھی۔ تم لوگوں نے جو کرنا چاہا، انہوں نے تمہیں کرنے دیا۔ چاہے وہ اپنی مرضی سے شادی یا طلاق جیسا احمقانہ فیصلہ ہی کیوں نہ ہوں۔”
”مجھے ڈیڈی کی مثال مت دیں۔ تب حالات اور تھے، لیکن اب صورت حال کچھ اور ہے۔”
انکل جہانگیر نے تیزی سے کہاتھا۔



” اس لئے صورت حال اور ہے کیونکہ تم اب کسی اور کے باپ ہو ، بیٹے نہیں۔ اب تمہاری ڈیمانڈز بھی بدل گئی ہیں۔”
”چلیں آپ ایسا ہی سمجھ لیں ڈیڈی اور طرح کے تھے، میں اور طرح کا ہوں۔”
”جہانگیر ! ابھی اسے چھوڑ دو ، تم اس کے پیچھے کس حد تک بھاگ سکتے ہو۔ اسے مجبور کرو گے تو وہ یہاں سے چلا جائے گا پھر کیا کرو گے۔ کہاں کہاں اس کے پیچھے جاؤ گے؟”
”آپ اسے سمجھانے کی بجائے مجھے سمجھا رہی ہیں؟”
”میں اسے بھی سمجھاؤں گی مگر تم خود کو تھوڑا ٹھنڈا تو کرو۔ میں تمہاری طرح اس کے پیچھے پنجے جھاڑ کر نہیں پڑسکتی۔ ابھی اسے کچھ بھی مت کہو۔ ابھی اسے اس کی مرضی کے مطابق جو وہ چاہے وہ کرنے دو۔ کچھ عرصہ گزر جائے گا تو اس کا غصہ بھی ٹھنڈا ہو جائے گا، پھر میں اس سے بات کروں گی۔”
نانو انکل جہانگیر کوسمجھا رہی تھیں مگر وہ کچھ سمجھنے پر تیار نہیں تھے۔ وہ اپنی ضد پراڑے ہوئے تھے۔ علیزہ نے ایک بار پھر دروازے کو دیکھا۔ کمرے میں بالکل خاموشی تھی پتا نہیں وہ اندر کیا کر رہا تھا۔ پھر اسے پتا نہیں کیا خیال آیا اور وہ لان میں چلی گئی۔ عمر کے کمرے کی کھڑکیاں باہر لان میں کھلتی تھیں۔ اس کا خیال تھا کہ وہ کھڑکیوں میں سے اندر دیکھ سکے گی، لیکن اسے مایوسی ہوئی۔ کھڑکیاں بند تھیں اور ان کے آگے پردے تنے ہوئے تھے۔ وہ کسی بھی طرح اندر نہ دیکھ سکی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!