Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

بجلی کے ایک جھماکے سے اسے یاد آیا کہ کمرے کی ایک اور چابی نانو کی درازمیں پڑی ہوئی ہے اور وہ اس چابی کو لاکر دروازہ کھول سکتی ہے۔ تقریباً بھاگتے ہوئے وہ نانو کے کمرے میں ائی تھی۔ اس نے ان کی دراز سے چابیوں کا گچھا نکالا اور تیز رفتاری سے واپس عمر کے کمرے کے دروازے کے پاس آگئی۔ کانپتے ہاتھوں کے ساتھ اس نے دروازے میں چابی گھمائی۔دروازہ کا لاک کھل گیا۔ اس نے ناب گھما تے ہوئے آہستہ آہستہ دروازہ کھولنا شروع کر دیا۔ کمرے میں لائٹ اب بھی آن تھی، اور دروازہ کھلنے کی آواز نے بھی عمر کو متوجہ نہیں کیا تھا۔ علیزہ نے دروازہ کھولتے ہوئے اپنا قدم اندر بڑھایا اور پھر جیسے اسے شاک لگا تھا۔
عمر بیڈ پر کمبل لپیٹے اوندھے منہ سویا ہوا تھا۔ اس کا سر تکیہ پر تھا، اور دایاں ہاتھ کہنی تک تکیہ کے نیچے تھا۔ جس کی وجہ سے تکیہ داہنی طرف سے کچھ اٹھ گیاتھا اور اس اٹھے ہوئے حصہ نے اس کے چہرہ کو مکمل طور پر کور کر لیا تھا۔



اس کے لئے حیران کن بات تھی کہ عمر لائیٹ جلتی چھوڑ کر سو گیا تھا۔ مگر اس وقت جس چیز سے اسے شاک لگا تھا وہ بیڈ کے کچھ فاصلے پر تپائی پر موجود دو تین بوتلیں اور ایک گلاس تھا وہ بوتلیں اس کے لئے نئی نہیں تھیں ۔وہ بہت دفعہ ویسی ہی بوتلیں بازار سے خرید کر انہیں بیلیں لگا نے کے لئے استعمال کرتی رہی تھی مگر وہ بوتلیں ہمیشہ خالی ہوتی تھیں۔ آج پہلی بار وہ ان بوتلوں کا اصلی مصرف دیکھ رہی تھی اور وہ بھی عمر کے کمرے میں۔۔۔۔۔
وہ کچھ دیر تک ساکت کھڑی ان بوتلوں کو دیکھتی رہی تھی۔ پھر دھیمے قدموں سے تپائی کی جانب جانے لگی۔ تپائی کے قریب پہنچ کر اس نے جھک کر ان بوتلوں کو دیکھاتھا۔ ایک بوتل خالی تھی جبکہ دوسری بوتل آدھی خالی تھی۔ عمر کے بیڈ سائڈ ٹیبل پر پڑی ہوئی ایش ٹرے سگریٹ کے جلے ہوئے ٹکڑوں سے بھری ہوئی تھی۔
وہ اب جان چکی تھی کہ رات کو کمرہ لاک کرنے کے بعد وہ کیا کرتا رہا ہو گا اور شاید نشہ کی ہی حالت میں وہ لائٹ بند کیے بغیر ہی سو گیاتھا۔ علیزہ ابھی بھی کچھ بے یقینی سے ان چیزوں کو اور بیڈ پر پڑے ہوئے عمر کو دیکھتی رہی۔
”عمر تو یہ دونوں چیزیں استعمال نہیں کرتا تھا۔ پھر اب کیوں؟” اس نے مایوسی سے سوچا، چند لمحے وہیں کھڑی وہ بے مقصد عمر کو دیکھتی رہی۔ پھر کچھ مایوسی سے اسی طرح دھیمے قدموں سے کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔ نانو کے کمرے میں چابی رکھنے کے بعد وہ ایک بار پھر لاؤنج میں آگئی تھی۔
لاؤنج کے صوفہ پر بیٹھ کر وہ ایک بار پھر رات کے واقعات کے بارے میں سوچنے لگی تھی۔



”کیا عمر اٹھ گیا ہے؟”
وہ اچانک نانو کی آواز پر چونکی تھی۔ وہ پتا نہیں کس وقت کچن سے نکل کر لاؤنج میں آگئی تھیں۔ علیزہ نے انہیں دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلا دیا۔ نانو کچھ فکر مند کھڑی تھیں۔
”ابھی تک نہیں جاگا؟ تم نے اسے جگانے کی کوشش کی؟” انہوں نے علیزہ سے پوچھا تھا۔
”نہیں۔” اس نے ایک بار پھر نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”کیوں نہیں جگایا؟ تمہیں جگانے کی کوشش کرنی چاہئے تھی۔”
وہ کچھ خفا ہو کر بولی تھیں۔
”آپ نے کہا تھاکہ اسے سونے دو۔”
اس نے انہیں یاد دلایا تھا۔
”ہاں ،میں نے کہا تھا لیکن اب تو بہت دیر ہو گئی ہے۔ مجھے خود ہی جاکر دیکھنا چاہئے۔”
نانو نے بڑ بڑا تے ہوئے کہا۔ علیزہ خاموشی سے انہیں لاؤنج سے جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔
نانو کی واپسی بہت جلدی نہیں ہوئی تھی۔ وہ تقریباً دس منٹ کے بعد واپس آئی تھیں۔
”آپ نے اسے اٹھا دیا۔”
علیزہ نے ان کے چہرے پر موجود اطمینان دیکھ کر کہا تھا۔
”ہاں بہت دیر دروازہ بجانا پڑا لیکن وہ اٹھ گیا۔ کہہ رہا ہے ابھی آتا ہوں۔”
انہوں نے ایک بار پھر کچن میں جاتے ہوئے کہا تھا۔
علیزہ نے اندازہ لگا نے کی کوشش کی تھی کہ کیا نانو عمر کے کمرے کے اندر گئی تھیں یا عمر نے دروازہ کھولے بغیر انہیں اندر سے ہی جواب دے دیا تھا۔
”نانو ! آ پ عمرکے کمرے میں گئی تھیں۔”
علیزہ نے وہیں بیٹھے بیٹھے ہی بلند آواز میں پوچھاتھا۔
”نہیں ! اندر نہیں گئی ، کیوں پوچھ رہی ہو۔”
نانو نے کچن سے باہر آئے بغیر جواب دیا تھا۔
”بس ایسے ہی۔”
اس نے ایک بار پھربلند آواز میں کہا تھا۔
اس کا مطلب ہے نانو نے وہ بوتلیں نہیں دیکھی ہیں۔ یہ اچھا ہی ہوا ورنہ نانو کو تکلیف پہنچتی۔ انہوں نے تو کبھی یہ نہیں سوچا ہو گا کہ عمرڈرنک کرے گا اور پھر یوں ان کے گھر، پر ان کے سامنے۔ علیزہ نے کچھ مطمئن ہو کر سوچا تھا۔ عمر نے بھی اسی لئے دروازہ کھولے بغیر نانو کو جواب دیا ہو گا تاکہ نانو اندر آکر بوتلیں نہ دیکھ سکیں۔ مگرآخر عمر یہ سب کچھ کیوں کر رہا ہے۔ وہ تو ایسا نہیں تھا۔ وہ تو کبھی بھی ایسا نہیں تھا؟ اس کا ذہن ایک بار پھر الجھ گیا تھا۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!