Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

اسے کہیں بہت دور سے شور کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ لاشعو ر میں اٹھنے والا شور آہستہ آہستہ جیسے بلند ہوتا جارہا تھا۔ یوں جیسے دروازے پر کوئی دستک دے رہا ہو۔ شعو ر نے آہستہ آہستہ اس شور کو پہچان لیا تھا۔ عمر نے اوندھے پڑے ہوئے آنکھیں کھولنی شروع کر دیں۔ چند لمحے تو وہ آنکھیں کھولنے میں بالکل ہی ناکام رہا۔ مگر پھر کچھ جدو جہد کے بعد اس نے آنکھیں کھول دی تھیں۔کمرے میں روشنی تھی۔ کچھ دیر تک تو وہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو پہچاننے کی کوشش کرتا رہا، اور پھر اس کا دھیان دروازے پر ہونے والی دستک پر چلا گیا۔ کوئی بڑی مستقل مزاجی سے دروازہ بجا رہا تھا اور ساتھ اس کا نام بھی پکار رہا تھا۔
عمر کا سر چکرا رہا تھا ، وہ لیٹے لیٹے ہی کروٹ لے کر سیدھا ہو گیااور آواز کو پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔ آواز کو شناخت کرنے میں اسے کچھ وقت لگاتھا۔ مگر وہ آواز کو پہچان گیا، وہ آواز نانو کی تھی اور وہ بار بار اسی کا نام پکار رہی تھیں۔
”گرینی ! میں جاگ گیا ہوں ابھی باہر آجاؤں گا۔”
اس نے بے اختیار بلند آواز میں ان کی آواز کے جواب میں کہا تھا۔
اس وقت اس کے دروازے پر ہونے والی دستک اس کے اعصاب کو جھنجھوڑ رہی تھی اور وہ اسے روک دینا چاہتا تھا دستک یک دم رک گئی تھی۔
”ٹھیک ہے، عمر جلدی باہر آجاؤ بہت دیر ہو گئی ہے۔ میں کھانا لگوا رہی ہوں!”
اس نے گرینی کو کہتے ہوئے سنا۔



وہ کچھ کہے بغیر ہی چپ چاپ بستر میں پڑا رہا ، انگلیوں کے پوروں سے اس نے اپنی کنپٹیوں کو دبانے کی کوشش کی تھی۔ مگر وہ سر میں ہونے والی اس تکلیف سے نجات حاصل نہیں کر سکا تھا۔ اس کے لئے یہ ساری کیفیا ت نئی نہیں تھیں۔ وہ جانتا تھا کہ وہ زبردست قسم کے hang over کا شکار ہو رہا ہے۔
کچھ دیر وہ اسی طرح لیٹا اپنے اعصاب کو پر سکون کرنے کی کوشش کرتا رہا پھر جدوجہد کرتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ گیا۔ اس نے سر کو دو تین بار جھٹک کر کمرے میں لگے ہوئے وال کلاک پر نظر دوڑانے کی کوشش کی تھی مگر وہ وقت دیکھنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔
سامنے تپائی پر پڑی ہوئی بوتلوں نے ایک بار پھر رات کے تمام مناظر کو اس کے سامنے کھڑا کر دیا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک تلخ مسکراہٹ ابھری تھی۔
”اوراس کمرے کے باہر ایک بار پھر وہی شیطان ہوگا۔ کاش میں کہیں غائب ہو سکتا ؟”
اس نے کمبل کو ایک جھٹکے سے دور پھینکتے ہوئے سوچا تھا۔ بیڈ سے کھڑا ہونے کی کوشش میں وہ لڑ کھڑا گیا۔ اسے متلی ہو رہی تھی۔
چند لمحوں کے لئے وہ ایک بار پھر بیڈ پر بیٹھ گیا۔ پھر ہمت کر کے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے کنپٹیوں کو دباتے ہوئے وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے وہ ڈریسنگ روم کی طرف چل دیا۔
ڈریسنگ روم میں داخل ہونے کے بعد اس نے وارڈروب میں پڑا ہوا بریف کیس نکال لیاتھاوہ اب جلد از جلد اس hang over سے نجات حاصل کرنے کے لئے بریف کیس میں پڑی ہوئی گولیاں لینا چاہتا تھا۔
مگر بریف کیس کھولنے کے بعد بھی وہ بریف کیس میں سے اپنی مطلوبہ گولیاں تلاش نہیں کر پایا تھا۔

”اف!”
اس نے بریف کیس کو دور پھینک دیاتھا۔ کچھ دیر گھومتے ہوئے سر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے ڈریسنگ ٹیبل کے اسٹول پر بیٹھا رہاتھا۔ پھر وہ اٹھ کر لڑ کھڑاتے قدموں سے واش روم کی طرف بڑھ گیا۔



نل کو پوری رفتا ر سے کھولتے ہوئے وہ واش بیسن کے سامنے جھک کر دائیں ہاتھ کی انگلیاں اپنے حلق میں ڈالنے لگا یہ کوشش کامیاب رہی۔ اسے اپنا معدہ خالی ہوتا ہوا محسوس ہواتھا۔ مگر اس کے چکراتے ہوئے سر کو زیادہ افاقہ نہیں ہواتھا۔
چند منٹوں بعد اس نے صابن سے ہاتھ دھونے کے بعد اپنے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارنے شروع کر دئیے تھے۔ مگر یہ ترکیب بھی کچھ زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوئی۔ چند لمحے وہ اسی طرح وہیں کھڑا رہا۔پھر کچھ بے چارگی کے عالم میں واش روم سے نکل آیا۔ اب کچن میں جانے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
وہ جانتا تھا۔ کچن میں اس وقت خانساماں کے علاوہ گرینی بھی ہوں گی اور شاید علیزہ بھی اور وہ اس حالت میں ان لوگوں کے سامنے نہیں جانا چاہتا تھا۔ مگر اب اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔
آہستہ آہستہ چلتے ہوئے وہ ڈریسنگ روم سے نکلا تھااور پھر اپنے کمرے کے دروازے تک پہنچ گیا۔
دروازہ کی ناب پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے لاک کھولنے کی کوشش کی تھی اور ٹھٹک گیاتھا۔ اسے بہت اچھی طرح یاد تھا کہ رات کو علیزہ کے کمرے سے نکلنے کے بعد اس نے سب سے پہلا کا م دروازے کو لاک کرنے کا کیا تھا۔ مگر اس وقت لاک کھلا ہوا تھا۔ وہ hang over کا شکار تھا مگر وہ رات کو ہونے والے تمام واقعات یاد کر سکتا تھا۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ اس نے دروازے کو خود لاک کیا تھا تاکہ علیزہ یا کوئی اور دوبارہ اس کے کمرے میں نہ آئے اوراس کے بعد وہ ڈرنک کرنے لگا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!