Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”کیا حق پہنچتا ہے تمہیں کہ تم لوگوں کی ذاتیات میں دخل اندازی کرو منہ اٹھا کر چوری چھپے دوسروں کے کمروں کے لاک کھول کر وہاں جاؤ۔”
اس کی آواز اتنی بلند اور لہجہ اتنا تلخ تھا کہ علیزہ کے ہاتھ پیر کانپنے لگے تھے۔
”تم ہوتی کون ہو، یہ سب کچھ کرنے والی۔ یہ گھر تمہارا یا تمہارے باپ کا نہیں ہے کہ تم یہاں کے ہر کمرے میں جھانکنے لگو۔”
وہ انگلی اٹھا کر تیز آواز میں اس سے کہہ رہا تھا۔
”جتنا حق تمہارا اس گھر پر ہے اتنا ہی میرا ہے اس لئے تمہیں اپنی حدود کاپتا ہونا چاہئے۔”
”عمر ! اتنے غصہ میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ علیزہ کا کوئی قصور نہیں ہے میں نے ہی اسے تمہارے کمرے میں جانے کے لئے کہا تھا۔”
نانو نے بڑی نرمی سے اسے روکنے کی کوشش کی تھی۔ عمر کو ایک دم دھچکا لگا تھا۔
”آپ نے کہا تھا؟”
”ہاں ! میں نے کہا تھا؟”
عمر نے اپنے بازو پر رکھا ہوا ان کا ہاتھ ایک جھٹکے سے ہٹا دیا۔
”آپ نے کیوں کہا تھا؟”
”تمہیں اتنی دیر ہو گئی تھی ، تم اٹھ ہی نہیں رہے تھے۔ میں پریشان ہو گئی تھی، اس لئے میں نے علیزہ سے کہا کہ وہ لاک کھول کر اندر جائے اور دیکھے کہ تم ٹھیک ہو۔”
نانو نے بہت مہارت سے جھوٹ بولتے ہوئے کہاتھا۔
”میں جب چاہوں گا ، اٹھوں گا اور آپ کو کیا حق پہنچتا ہے کہ اس طرح میرے کمرے میں جاسوس بھیجیں۔”
وہ اب نانو سے الجھنے لگا تھا۔



”کیوں مجھے تمہارے بارے میں پریشان ہونے کا کوئی حق نہیں ہے ؟”
نانو نے اس سے شکوہ کیا۔
”نہیں ! آپ کو میرے بارے میں پریشان ہونے کا کوئی حق ہے نہ ہی اس کی ضرورت ہے۔میں یہاں اس لئے نہیں آیا کہ اپنے بیڈ روم میں بھی آزادی سے نہ رہ سکوں۔”
”عمر ! جو لوگ تم سے محبت کرتے ہیں وہ……!”
اس نے جھنجھلائے ہوئے انداز میں نانو کی بات کاٹ دی تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!