Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”جہنم میں جائیں وہ لوگ جو مجھ سے محبت کرتے ہیں، مجھے ضرورت نہیں ہے کسی کی محبت کی……نہ ہی محبت کرنے والے لوگوں کی۔ میں تھک چکا ہوں اور تنگ آچکا ہوں ان لغویات سے۔”
اس کے لہجے میں اتنی بیزاری تھی کہ نانو چپ کی چپ ہی رہ گئی تھیں۔
وہ جھنجھلایا ہوا اپنے کمرے کی جانب جانے لگا تھا، لیکن جاتے جاتے وہ ایک بار پھر رک گیا اور اس نے انگلی اٹھا کر علیزہ سے کہا تھا۔
”آئندہ کبھی ایسی کوئی حرکت میرے ساتھ مت کرنا۔”
اس کے جواب یا رد عمل سے پہلے ہی وہ لاؤنج سے نکل گیا تھا ۔ چند لمحوں بعد علیزہ نے ایک دھماکے کے ساتھ اس کے کمرے کا دروازہ بند ہوتے سناتھا۔ نانو ابھی بھی وہیں کھڑی تھیں اور اب علیزہ کے لئے ان سے نظر ملانی مشکل ہو گئی تھی۔
وہ یک دم اٹھ کر ہی بھاگتی ہوئی لاؤنج سے نکل گئی تھی۔ اس نے اپنے عقب میں نانو کی آواز سنی تھی مگر وہ رکی نہیں تھی۔
وہ ان کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی۔
”وہ مجھ سے اس طرح کیسے بات کر سکتاہے؟”
اسے اب بھی یقین نہیں آ یا تھا کہ یہ سب اس نے عمر سے سنا تھا۔ اس نے صوفہ پر بیٹھ کر دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کو چھپا لیا تھا۔



”عمراتنا ………تلخ کیسے ہو سکتا ہے……اور……اور وہ بھی میرے ساتھ؟”
اس نے بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ سوچا تھا۔
”اس نے کبھی مجھے اس طرح نہیں ڈانٹا……کبھی یوں بات نہیں کی پھر اب کیوں؟” اس کے آنسوؤں کی رفتار میں اضافہ ہو گیا تھا۔
”اس طرح سب کے سامنے اس نے ……کیا وہ مجھے اتنا ناپسند کرتا ہے۔”
اس کا دل ڈوبنے لگا…
”مگر میں نے ایسا کیا کیا ہے؟ میں تو… !”
اس نے اپنے کمرے کے دروازہ کھلنے کی آواز سنی تھی وہ جانتی تھی نانو اس کے پیچھے آئی ہوں گی اور یک دم اس کے وجود کو شرمندگی نے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ اس کی وجہ سے عمر نے نانو کے ساتھ بھی بدتمیزی کی۔ اس نے چہرے سے اپنے ہاتھ نہیں ہٹائے تھے۔
نانو اس کے پاس صوفہ پر بیٹھ گئی تھیں اور انہوں نے بڑی شفقت سے اپنا بازو اس کے گرد پھیلا لیا تھا۔
”تمہیں اس کے کمرے میں اس طرح نہیں جانا چاہئے تھا۔”
اس نے ان کی دھیمی سی آواز سنی تھی۔
”آئی ایم سوری نانو ! میں پریشان تھی اس لئے……میں صرف یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ وہ ٹھیک ہے۔”
اس نے اسی طرح چہرہ ڈھانپے اور سسکیوں میں کہا تھا۔
”میں جانتی ہوں مگر پھر بھی تمہیں اس کے کمرے میں اس طرح نہیں جانا چاہئے تھا وہ اس وقت ذہنی طور پر بہت پریشان ہے اور معمولی سی بات بھی اسے مشتعل کر دینے کے لئے کافی ہے۔ اس لئے تم آئندہ محتاط رہنا۔”
نانو نے اس کی پشت تھپتھپا تے ہوئے کہاتھا۔

”لیکن کیا نانو آپ کو لگتا ہے کہ میں اس کا تماشا……؟”
اسے اور رونا آیا تھا۔
”آخر اس نے اتنی بڑی بات کیوں کہی؟”
”علیزہ رونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور اس وقت تو اس سے کسی بھی بات کی توقع کی جاسکتی ہے، اور ان باتوں پر کڑھنے کا بھی تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ بہتر ہے سب کچھ بھلا دیا جائے۔” انہوں نے اس کو سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔
”تم رونا بند کردو۔ مجھے پتا ہے، کہ تمہیں اس کی باتوں سے تکلیف ہوئی ہے۔ مگر وہ خود بھی اس وقت تکلیف میں ہے ، جب وہ نارمل ہو گا تو اسے خود ہی اپنی غلطی کا احساس ہو جائے گا۔”
نانو نے اسے دلاسا دیتے ہوئے کہاتھا۔ پھر وہ بہت دیر تک اس کے پاس بیٹھی رہیں۔



اٹھ کر جانے سے پہلے انہوں نے کہاتھا۔
”لنچ کی ٹیبل تیار ہو چکی ہو گی اور عمر بھی آنے ہی والا ہو گا تم بھی آجاؤ۔”
”نہیں نانو ! مجھے بھوک نہیں ہے۔”
وہ اب عمر کا دوبارہ سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔
”نہیں علیزہ ! تم آؤ یہ اچھی بات نہیں ہے۔ میں نے تم سے کہا ہے کہ اس وقت اس سے ناراض ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ تم ناراض ہوگی تو وہ اور پیچھے ہٹ جائے گا۔ اس وقت اس کی ہر تلخ بات کو نظر انداز کر دو۔ تم لنچ باہر آکر کرو میں چاہتی ہوں وہ یہ محسوس نہ کرے کہ ہم اس کی کسی بات پر ناراض ہیں۔”
نانو نے ایک بار پھر بڑی ملائمت سے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔
”ٹھیک ہے میں تھوڑی دیر میں آتی ہوں۔”
اس نے چند لمحے سوچنے کے بعد کہاتھا۔ نانو مسکرا کر کمرے سے نکل گئی تھیں۔
علیزہ نے واش روم میں جاکر منہ پر پانی کے چھینٹے مارنے شروع کر دئیے تھے۔ واش بیسن کے اوپر لگے ہوئے آئینے میں اس نے اپنا چہرہ دیکھا، اس کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں، اور اس وقت اس کے سامنے جانے پر بھی یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ روتی رہی ہے۔ مگر وہ باہر نہ جاکر ایک بار پھر نانو کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس نے ٹاول اسٹینڈ سے تولیہ لے کر چہرہ خشک کیاتھا، اور پھر کمرے سے باہر نکل آئی تھی
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!