Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

وہ اس وقت کھانے کی میز پر نانو کے ساتھ بیٹھی اس کا انتظار کر رہی تھی جب وہ تقریباً پندرہ منٹ کے بعد بالآخر اپنے کمرے سے نکل آیا۔
اس وقت وہ بالکل ہی نارمل لگ رہا تھا۔ ایک ہاتھ میں بریف کیس پکڑے اور دوسرے ہاتھ میں موبائل پکڑے وہ بہت سنجیدہ مگر پر سکون نظر آرہا تھا۔
”ڈائننگ روم میں داخل ہو کر اس نے ڈائننگ ٹیبل کے ایک کونے میں بریف کیس رکھ دیا تھا اور پھر کچھ اور کہے بغیر اپنی کرسی کی طرف دیکھا اب وہ پانی کا گلاس اٹھا کر پانی پی رہا تھا۔



”عمر ! یہ دیکھو ، کباب بنوائے ہیں میں نے تمہارے لئے۔”
نانو نے بات شروع کی تھی۔ اس نے کچھ بھی کہے بغیر ان کی بڑھائی ہوئی ڈش میں سے ایک کباب اٹھا کر اپنی پلیٹ میں رکھ لیاتھا۔
”یہ چاول لو……!”
نانو نے خاموشی توڑنے کے لئے اپنی کوششوں کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔ خاموشی نہیں ٹوٹی تھی۔ چاول خاموشی سے لئے گئے تھے۔ نانو نے ہمت نہیں ہاری تھی۔ اس بار عمر کی طرف رشین سلاد بڑھایا گیا تھا۔
”یہ بھی لو نا ، تمہیں پسند ہے میں نے خود تمہارے لئے بنا یا ہے۔”
”گرینی ! مجھے جس چیز کی ضرورت ہو گی، میں خود ہی لے لوں گا۔ آپ مجھے خاموشی سے کھانا کھانے دیں۔ بار بار ڈسٹرب نہ کریں۔”
اس بار عمر نے سلاد لینے کی بجائے اپنا دایاں ہاتھ اٹھا کر بڑے روکھے انداز میں کہا تھا۔
نانو بے ساختہ شرمندہ ہو گئی تھیں۔ انہوں نے سلاد کا ڈونگا میز پر رکھ دیا۔ علیزہ نے کھانا کھاتے ہوئے سر اٹھاکر نانو کو دیکھا تھا۔ وہ کچھ کھسیانی سی ہو کر اب اپنی پلیٹ میں چاول نکال رہی تھیں۔
مرید بابا ٹیبل پر کوئی چیز رکھنے آئے تھے جب عمر نے ان سے کہاتھا۔
”مرید بابا ! ڈرائیور سے کہیں وہ گاڑی نکالے اور میرے کمرے میں جو بیگز ہیں، وہ ذرا گاڑی میں رکھوا دیں۔”
علیزہ کا ہاتھ رک گیا تھا۔ وہ اسی اطمینان سے کھانا کھانے میں مصروف تھا۔ علیزہ نے نانو کو دیکھا تھا وہ بھی عمر کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ مرید بابا باہر جاچکے تھے۔



”سامان کیوں؟”
نانو نے کچھ بے چین ہو کر پوچھا تھا۔
”میں یہاں سے جارہا ہوں!”
بڑے اطمینان سے جواب دیا گیا تھا۔
”کہاں جارہے ہو؟”
”فی الحال تو ہوٹل میں بکنگ کروائی ہے۔”
”مگر کیوں؟”
”کیوں سے کیا مطلب ہے ؟ ظاہر ہے مجھے یہاں سے جانا ہی تھا، یہ میرا گھر نہیں ہے۔ میں نے یہاں آکر غلطی کی تھی۔”
وہ کباب کے ٹکڑے کرتے ہوئے بڑے اطمینان سے کہہ رہا تھا۔
”عمر ! یہ تمہارا گھر ہے۔”
”نہیں گرینی ! یہ میرا گھر نہیں ہے، یہ آپ کا گھر ہے ، علیزہ کا گھر ہے میرا نہیں۔”
اس کا لہجہ بہت دو ٹوک تھا۔
”اگرآپ میری وجہ سے یہ گھر چھوڑ کر جا رہے ہیں تو پلیز میں اپنی غلطی کے لئے ایکسکیوز کرتی ہوں۔آپ مجھ سے ناراض ہو کر یہاں سے نہ جائیں۔”
اس بار علیزہ نے اس سے کہاتھا۔
”میں کسی سے بھی ناراض ہو کر یہاں سے نہیں جارہا۔ بس مجھے اب یہاں نہیں رہنا۔”
اس نے علیزہ کی طرف دیکھے بغیر ہی کہا تھا۔
”مگر تم تو یہاں رہنے آئے تھے۔”
”ہاں، میں رہنے آیا تھا ، اور مجھے نہیں آنا چاہئے تھا۔ میں نہیں جانتا تھا یہاں اپ کا بیٹا میرے پیچھے آجائے گا۔”
”مگر اب تو وہ چلا گیا ہے۔”
”ابھی چلا گیا ہے مگر میں دوبارہ آنے سے کسی کو کیسے روک سکتا ہوں۔”



”عمر ! جب تک تم یہاں ہو میں اسے یہاں نہیں آنے دوں گی، آئے گا بھی تو بھی کوئی تم سے اس معاملے پر بات نہیں کرے گا۔ مگر تم یہاں سے مت جاؤ۔”
”نہیں گرینی ! مجھے یہاں نہیں رہنا ہے۔ مجھے یہاں سکون نہیں ہے۔”
اس نے بے حد سنجیدگی سے کہاتھا۔
”تمہیں یہاں سکون ہے یا نہیں مگر تم یہاں سے کہیں نہیں جارہے، میں تمہیں کہیں جانے نہیں دوں گی۔ یہ بات تم کان کھول کر سن لو۔”
نانو یک دم کہتے ہوئے میز سے اٹھ گئی تھیں۔
”مرید……مرید! اس کا سامان واپس اندر رکھ آؤ…… وہ کہیں نہیں جا رہا۔”
انہوں نے مرید کو بیگ لاتے ہوئے دیکھ کر کہاتھا۔
”گرینی ! جذباتی مت ہوں میں یہاں نہیں رہنا چاہتا اور نہ ہی رہوں گا۔ مجھے جانے دیں۔”
اس کا لہجہ ہنوز سرد تھا۔
”کیا ہو گیا ہے عمر تمہیں؟ کیوں کر رہے ہو اس طرح؟ اتنے ضدی نہیں تھے تم؟”
علیزہ نے گرینی کی آنکھوں میں آنسو امڈتے ہوئے دیکھے تھے۔اس نے عمر کو ان سے نظریں چراتے ہوئے اور پھر شکست خوردہ انداز میں سر جھکاتے ہوئے دیکھا تھا۔
”مرید……! سامان واپس رکھ آؤ۔”
نانو نے ایک بار پھر خانساماں سے کہا تھا۔ عمر اس بار بالکل خاموش رہا۔ مرید بابا چند لمحے اس کے رد عمل کا انتظار کرتے رہے اورپھر خاموشی سے بیگز اٹھا کر واپس مڑ گئے۔ علیزہ کے چہرے پر اطمینان جھلکنے لگا تھا۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!