Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

وہ لنچ کرنے کے بعد گھر سے نکل گیاتھا۔ نانو وقفے وقفے سے اس کے موبائل پر کال کرتی رہیں۔ وہ رات گیارہ بجے کے قریب واپس آیا۔ علیزہ اس وقت اپنے کمرے میں جاچکی تھی۔ نانو نے اس سے کھانے کا پوچھا، اور اس نے انکار کر دیاتھا۔ وہ کھانا باہر سے کھا کر آیا تھا۔
اگلی صبح جس وقت علیزہ ناشتہ کی میز پر آئی اس وقت وہ وہاں نہیں تھا۔ علیزہ نے نانو سے عمر کے بارے میں پوچھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ خاموشی سے ناشتہ کر نے کے بعد وہ یونیورسٹی چلی گئی تھی۔
لیکن یونیورسٹی میں بھی سارا دن اس کا ذہن اسی انتشار کا شکا ر رہا تھا۔ جس کا سامنا وہ پچھلے دو، تین دن سے کر رہی تھی اور اس کی یہ کیفیت شہلا سے چھپی نہیں رہی تھی۔
”کیا ہوا ہے تمہیں؟”
تیسرے پیریڈ میں اس نے کتابیں اٹھا کر کلاس سے نکلتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
”کچھ بھی تو نہیں!”
”تو پھر اتنی خاموش کیوں ہو؟”
”میں ہمیشہ ہی خاموش رہتی ہوں!”
”ہاں مگر اس طرح نہیں؟” علیزہ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
”آؤ آج کینال پر چلیں!”
شہلا کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اس نے کہا۔
”کلاسز چھوڑ دیں؟”
”ہاں! کبھی کبھی تو ایسا ہی کرنا چاہئے۔”
”ٹھیک ہے چلو!”
شہلا نے مزید کچھ بھی نہ کہا تھا
نہر کے کنارے بہت دیر تک وہ کچھ کہے بغیر خاموشی سے بیٹھی رہی تھیں پھر خاموشی کو شہلا نے ہی توڑا تھا۔
”اب بتا دو کیا ہوا ہے؟”
علیزہ اس کے سوال پر چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگی تھی۔



”تم پریشان ہو؟”
”پریشان نہیں ہوں اداس ہوں !”
وہ ایک بار پھر نہر کے پانی کو گھورنے لگی تھی۔
”اداس کیوں ہو۔”
شہلا نے بڑی ملائمت سے پوچھا تھا۔
”پتا نہیں۔”
”گھر میں تو سب کچھ ٹھیک ہے ؟”
”ہاں!”
”پیرنٹس یاد آرہے ہیں؟”
”نہیں!”
”نانو نے کچھ کہہ دیا ہے؟”
”نہیں!”
شہلا جھنجھلا گئی۔” تو پھر کیا مسئلہ ہے پھر اداس کیوں ہو؟”
علیزہ خاموش رہی تھی۔
”عمر سے تو کوئی جھگڑا نہیں ہو گیا ؟”
شہلا کو اچانک خیال آیا تھا۔
علیزہ نے گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھا تھا۔ شہلا کو اس کی آنکھوں میں امنڈتے ہوئے آنسو نظر آگئے تھے۔
”عمر نے کچھ کہا ہے؟”
اس نے سر جھکا لیا تھا شہلا نے ایک گہری سانس لی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!