Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

عمر کے واپس آجانے سے نانو کا رویہ یک دم بالکل ٹھیک ہو گیا تھا، اور اس پر علیزہ نے خدا کا شکر ادا کیاتھا۔
عمر کے پیپرز شروع ہو چکے تھے اور ان دونوں کا سامنا بہت کم ہی ہوتا تھا۔ خود علیزہ بھی کالج جانا شروع کر چکی تھی، اور اپنے سمیسٹر کی تیار ی میں مصروف تھی۔
اس رات جب دو بجے کے قریب عمر سونے کی تیاری میں مصروف تھاجب پیاس لگنے پر اس نے ریفریجریٹر میں پڑی ہوئی بوتل کو خالی پایااور پھر پانی پینے کے لئے وہ کچن کی طرف آیا تھا لاؤنج میں سے گزرتے ہوئے وہ ٹھٹھک کر رک گیا۔ لاؤنج میں ہلکی روشنی کا بلب آن تھا اور اس کی روشنی میں اس نے کسی کو لاؤنج کا دروازہ کھولتے دیکھا اسے پہچاننے میں دیر نہیں لگی، وہ علیزہ تھی۔
”مگر رات کے اس وقت لاؤنج کے دروازے پر وہ کیا کر رہی ہے؟” اس نے حیرانی سے سوچا اور آگے بڑھ کر لائٹ آن کر دی۔ اس کا خیال تھا کہ علیزہ واپس پلٹ کر دیکھے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔ واپس پلٹے بغیر وہ دروازہ کھول کر لاؤنج سے نکل گئی تھی۔
”علیزہ!” عمر نے کچھ حیران ہو کر اسے آواز دی مگر وہ متوجہ نہیں ہوئی۔ عمر کچھ حیران ہو کر خود بھی اس کے پیچھے لاؤنج کا دروازہ کھول کر باہر نکل آیا تھا۔ علیزہ آہستہ آہستہ مین گیٹ کی طرف جا رہی تھی۔
”علیزہ !”



عمر نے ایک بار پھر اسے آواز دی مگر وہ متوجہ نہیں ہوئی۔ عمر کچھ اور حیران ہوا۔ وہ اب بھی گیٹ کی طرف چلتی جا رہی تھی۔ وہ کچھ پریشانی کے عالم میں اسے جاتا دیکھتا رہا۔ وہ اب گیٹ کے پاس پہنچ چکی تھی۔ گیٹ پر موجود چوکیدار کرسی سے اٹھ کر اس کے پاس آگیا اور اس سے کچھ کہہ رہا تھا مگر وہ گیٹ کی طرف بڑھ گئی تھی اور اب گیٹ کھولنے کی کوشش کر رہی تھی۔ عمر تیز قدموں کے ساتھ گیٹ کی طرف بڑھ آیا۔ چوکیدار کچھ سراسیمہ نظر آرہا تھا۔
”جناب! یہ علیزہ بی بی گیٹ کھولنے کے لئے کہہ رہی ہیں۔” چوکیدار نے عمر کے آتے ہی اس سے کہا عمر اس سے کچھ کہے بغیر علیزہ کی طرف بڑھ گیا وہ گیٹ پر لگے ہوئے تالے کے ساتھ الجھی ہوئی تھی۔
”علیزہ ! کیا بات ہے؟ کہاں جانا چاہتی ہو؟” اس نے علیزہ سے پوچھا۔
” گیٹ نہیں کھل رہا۔ باہر جانا ہے!”
وہ اب بھی گیٹ کھولنے کی کو شش میں مصروف تھی۔
”یہی تو پوچھ رہا ہوں کہ کہاں جانا ہے؟”
”پاپا کے پاس جانا ہے۔”
”علیزہ!”
عمر ساکت رہ گیا۔
”گیٹ کھول دوچوکیدار… گیٹ کھول دو۔”
وہ اب بھی اسی طرح کہہ رہی تھی۔ عمر نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ چند لمحے تک وہ کچھ بول نہیں سکا۔ خاموشی کے ان چند سیکنڈزمیں اسے جیسے ہر چیز سمجھ میں آنے لگی تھی۔ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس نے پوچھا۔
”پاپا کے پاس کیسے جاؤ گی؟”
”یہ باہر جاؤں گی نا……تو ادھر……وہ …پاپا ہوں گے!”
اس نے اٹک اٹک کر کہاتھا۔
”آؤ میں تمہیں پاپا کے پاس لے جاتا ہوں۔”
اس نے نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا، اور اسے واپس لے جانے لگا۔ وہ خاموشی سے اس کے ساتھ اسی طرح چلتی رہی۔ عمر جان چکاتھا کہ وہ نیند میں چل کر باہرآئی ہے، لیکن اس کے لئے جو بات پریشان کن تھی، وہ یہ تھی کہ علیزہ کب سے اس عادت کا شکار تھی اور کیا نانو اور نانا اس بات سے واقف تھے۔ وہ جب سے یہاں آیا تھا، آج پہلی بار علیزہ اسے اس حالت میں ملی تھی۔ وہ اسی طرح اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے اس کے کمرے تک لے آیا اور اسے اس کے بیڈ پر جا کر بٹھا دیا۔
اور وہ کچھ بھی کہے بغیر بیڈ پر لیٹ گئی۔ عمر کو اس سے کچھ بھی کہنا نہیں پڑا۔ اس نے خود ہی آنکھیں بند کر لیں تھیں۔ عمر کچھ دیر وہیں کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے آگے بڑھ کر اس پر چادر پھیلا دی۔ دوتین بار علیزہ کو آوازدینے پر بھی جب اس نے آنکھیں نہیں کھولیں تو وہ مطمئن ہو گیا۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!