Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

عمر چار دن کے بعد لوٹا تھا، اور ایک بار پھر اس کے چہرے پر وہی سکون اور اطمینا ن تھا جو انکل جہانگیر کے آنے سے پہلے اس کے چہرے پر تھا۔
رات کو کھانے پر وہ نانو کو ااسلام آباد میں اپنی مصروفیات کے بارے میں بتا رہاتھا۔
”چند ہفتوں تک ٹریننگ کے لئے سہالہ جانا پڑے گا۔ مجھے پھر پوسٹنگ ہو جائے گی۔” وہ نانو کو کہہ رہا تھا۔ ولید کے ڈیڈی سے میری بات ہوئی ہے وہ کہہ رہے تھے کہ اچھی پوسٹنگ دلوا دیں گے۔”
وہ اپنے ایک دوست کا نام لے رہا تھا۔
”تم خوش ہو نا؟”
نانو نے اس سے پوچھا۔
”خوشی ؟پتا نہیں…مگر ہاں مطمئن ہوں۔”
اس کے چہرے پر اب عجیب سی مسکراہٹ تھی۔
”اور وہ اس لئے کہ آپ کے بیٹے نے میری راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔”
” اچھا ! تم یہ سوپ تو تھوڑا اور لو، یہ میں نے صرف تمہارے لئے ہی بنوایا ہے۔”
نانو نے کمال مہارت سے بات بدل دی۔
”میں پہلے ہی کافی لے چکا ہوں۔”
اس نے مسکرا تے ہوئے منع کیا ۔



علیزہ خاموشی سے کھانا کھاتے ہوئے ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سنتی رہی۔نانو مسلسل اس کے ساتھ گفتگو میں مصروف رہی تھیں۔ علیزہ بہت جلد کھانے سے فارغ ہو گئی جب وہ ، ایکسکیوز می کہہ کر کھڑی ہوئی تو نانو پہلی بار متوجہ ہوئی تھیں۔
”تم نے کھانا کھا لیا؟”
”جی!”
جواب انتہائی مختصر تھا۔
”تو بیٹھو نا علیزہ ! کافی پیتے ہیں اکھٹے۔”
”نہیں نانو مجھے کچھ کام ہے۔” اس نے کہا تھا۔
“بھئی عمر ! علیزہ کو تمہارے گفٹ بہت پسند آئے۔ بہت تعریف کررہی تھی۔”
نانو اس بار عمر سے مخاطب تھیں۔ علیزہ نے عمر کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔
”نانو ! پھر میں جاؤں؟”
اس سے پہلے کہ عمر جواباً کچھ کہتا علیزہ نے نانو سے کہاتھا ۔ نانو نے اسے کچھ خفگی سے دیکھا انہیں شاید علیزہ سے اس طرح کے رد عمل کی توقع نہیں تھی۔
”ٹھیک ہے جاؤ!”
”تھینک یو!”
وہ ڈائننگ روم سے باہر نکل آئی۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!