اگلے چند دن بھی اس کے اور عمر کے درمیان کوئی بھی بات نہیں ہوئی تھی ۔ وہ صبح جس وقت یونیورسٹی جاتی تھی اس وقت وہ سو رہا ہوتا اور جب وہ واپس آتی تو گھر میں موجود نہیں ہوتا تھا۔شام کو وہ گھر آیا کرتا تھا، اور اس وقت وہ اپنی پڑھائی میں مصروف ہوتی تھی۔ رات کے کھانے پر ان کا سامنا ہوتا تھا، اور اس کے بعد عمر واک پر نکل جایا کرتا تھا۔ اورعلیزہ ایک بار پھر اپنے کمرے میں آکر پڑھائی میں مصروف ہو جاتی تھی۔
اس نے اس واقعہ کے بعد کبھی بھی عمر کے کمرے میں جانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اب ملازم ہی اس کے کمرے کو صاف کیا کرتا تھا، اور وہی سارے پیغام لے کر اس کے کمرے میں جایا کرتا تھا۔ عمر سے گھر میں جب بھی اور جہاں بھی اس کا سامنا ہو تا وہ کترا کر گزر جاتی خود اس نے بھی بات کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی تھی۔
اس دن سہ پہر کا وقت تھا۔ نانو کسی کام سے باہر گئی ہوئی تھیں۔ خانساماں بھی اپنے کوارٹرمیں تھا۔ وہ کافی بنانے کے لئے کچن میں آئی تھی جب اس نے لاؤنج میں فون کی گھنٹی سنی۔ وہ لاؤنج میں چلی آئی فون عمر کے کسی دوست کا تھا۔
”ہاں ! وہ گھر پر ہیں ، آپ ان کے موبائل پر کال کر لیں۔”
اس نے فون سننے پر کہا تھا۔
”میں نے موبائل پر کال کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن موبائل آف ہے۔ آپ یا تو ان سے بات کروا دیں۔ یا پھر انہیں کہیں کہ موبائل آن کریں۔”
دوسری طرف سے کہا گیا تھا۔
”اچھا آپ ہولڈ کریں میں ان کو بلوا دیتی ہوں۔”
اس نے کچھ سوچنے کے بعد کہاتھا۔
ریسیور رکھنے کے بعد وہ سوچتی رہی کہ عمر تک پیغام کیسے پہنچائے۔ صرف پیغام اس تک پہنچانے کے لئے وہ کوارٹر سے ملازم کو بلواتی تو یہ بات نہ صرف ملازم کے لئے عجیب ہوتی بلکہ اس وقت تک بہت دیر ہو جاتی۔
چند لمحے سوچنے کے بعد اس نے خود ہی پیغام دینے کا سوچا۔ عمر کے بیڈ روم کے دروازے پر پہلی دستک دیتے ہی اندر سے آواز آئی تھی۔
”یس کم ان۔”
”آپ کی کال ہے۔”
اس نے بلند آواز میں کہا تھا۔
”علیزہ ! اندر آجاؤ۔”
اندر سے کہا گیا تھا۔
”آپ کے کسی دوست کا فون ہے۔”
اس نے اس کی بات کے جواب میں ایک بار پھر اپنا جملہ دہرایاتھا۔
”میں آرہا ہوں۔”
اس بار چند لمحوں کے وقفہ کے بعد اس نے کہا تھا۔
وہ واپس کچن میں آکر کافی میکر میں پانی ڈالنے لگی۔ چند لمحوں بعد اسے لاؤنج میں عمر کی آواز سنائی دی تھی۔ وہ فون پر باتیں کر رہا تھا۔ علیزہ اپنے کام میں مصروف رہی۔ وہ اس وقت فریج سے کریم نکال رہی تھی جب اس نے عمر کی آواز سنی تھی۔
”میں نے تم کو کمرے میں آنے سے منع نہیں کیا ۔”
اس نے مڑ کر دیکھا، وہ کچن کے دروازے میں کھڑا تھا۔
”آپ جب چاہیں میرے کمرے میں آسکتی ہیں۔”
وہ مڑکر دوبارہ کریم کا پیکٹ نکالنے لگی۔
”اس دن اعتراض مجھے صرف تمہارے آنے کے طریقے پر ہوا تھا۔ کیونکہ میرا خیال ہے کہ وہ زیادہ مناسب نہیں تھا۔”
وہ ایک بار پھر کہہ رہا تھا۔ علیزہ کریم کو پیالے میں نکالنے لگی۔ وہ خاموشی سے اسے دیکھتا رہا، وہ اس کے وہاں کھڑے ہونے سے الجھ گئی ۔
”میں اتنا برا بھی نہیں ہوں کہ آپ میری بات کا جواب دینا بھی پسند نہ کریں۔”
وہ کچھ کہے بغیر ہی کریم کو پھینٹنے لگی۔ عمر اسے کبھی بھی آپ کہہ کر مخاطب نہیں کرتا تھا۔ اسے حیرانی ہو رہی تھی اس وقت وہ اسے آپ کہہ کر کیوں مخاطب کر رہا ہے۔
”ٹھیک ہے جواب مت دیں کافی کا ایک مگ تو دے سکتی ہیں؟”
اس کی اگلی فرمائش نے علیزہ کو کچھ اور حیران کیا تھا۔
وہ اب آگے بڑھ کر کچن میں موجود ڈائننگ ٹیبل کی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ علیزہ کچھ دیر شش و پنج میں گرفتار رہی پھر اپنی سابقہ خاموشی کو برقرار رکھتے ہوئے اس نے ایک کی بجائے کافی کے دو مگ تیار کرنے شروع کر دیے۔
کافی تیار کرنے کے بعد اس نے دونوں مگ اٹھائے اور ایک مگ عمر کے سامنے میز پر رکھ دیا۔ دوسرا مگ لے کر وہ کچن کے دروازے کی طرف بڑھنے لگی تو اسے عمر کی آواز سنائی دی۔
”آپ کافی میرے ساتھ بیٹھ کر پئیں۔”
”مجھے کچھ کام کرنا ہے۔”
اس نے جواباً کہا تھا۔
”میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا۔ کافی پینے میں زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ لگیں گے۔”
اس نے ایک بار پھر کہا ۔
”نہیں۔ مجھے یونیورسٹی کابہت سا کام کرنا ہے۔”
اس نے سر جھکائے ہوئے ایک بار پھر انکار کر دیا۔ عمر اس بار پھر اصرار کرنے کے بجائے تیزی سے اٹھ کر کچن سے نکل گیا۔ علیزہ ہکا بکا اسے جاتا دیکھتی رہی۔ اسے عمر سے اس قسم کے رد عمل کی توقع نہیں تھی۔
کافی کا مگ اب بھی ویسے ہی میز پر پڑا ہوا تھا، اور اس میں سے نکلنے والا دھواں دیکھ کر علیزہ کو افسوس ہو رہا تھا۔ وہ اندازہ نہیں کر پارہی تھی کہ عمر ناراض ہو گیا ہے یا ویسے ہی اٹھ کر چلا گیا ہے۔
٭٭٭