Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

دو دن کے بعد چھٹی کا دن تھا، اور علیزہ دس ، گیارہ بجے کے قریب لان میں اپنی ایک پینٹنگ مکمل کرنے میں مصروف تھی۔ آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا، اور ٹھنڈی ہوا چلنے کی وجہ سے خاصی خنکی تھی۔ مگر وہ جان بوجھ کر لینڈ اسکیپ مکمل کرنے کے لئے باہر آگئی تھی۔
پیلٹ کو ہاتھ میں تھامے ہوئے وہ برش کے ساتھ کینوس پر اسٹروکس لگا تی رہی۔ سورج کی روشنی نہ ہونے کی وجہ سے اسے شیڈز دینے میں بہت غور و خوض کرنا پڑ رہا تھا۔ شاید وہ ابھی کچھ اور دیر اسی انہماک سے اپنے کام میں مصروف رہتی۔ مگر کینوس پر پڑنے والے بارش کے ایک قطرے نے اسے چونکا دیاتھا۔ اس نے بجلی کی سی تیزی سے کینوس کو ایزل سے اتار لیا۔ پیچھے مڑتے ہی اس کی نظر عمر پر پڑی تھی۔ وہ لان کے بالکل ہی سامنے شیڈ کے نیچے برآمدے کی سیڑھیوں پر اس جگہ بیٹھا ہوا تھا۔ جہاں اس نے اپنے برش اور پینٹ باکس رکھے ہوئے تھے۔ وہ ایک لمحہ کے لئے ٹھٹھکی پتا نہیں وہ کب سے وہاں بیٹھا ہوا تھا۔ علیزہ کو اس کی آمد کا پتا نہیں چلا تھا۔ پھر اس نے کینوس کواپنے کلرز کے پاس جاکر رکھ دیا۔ واپس لان میں آکر اس نے اپنا ایزل اٹھایا اور اسے بھی وہیں لے آئی۔ عمر اب اس کی پینٹنگ دونوں ہاتھوں میں تھامے دیکھ رہاتھا۔ علیزہ خاموشی سے اس کے قریب آکر اپنی چیزیں سمیٹنے لگی تھی۔
”علیزہ ! تمہیں اب مجھے معاف کر دینا چاہئے ۔”



وہ پینٹ باکس اور برش اٹھاکر کھڑی ہو رہی تھی۔ جب عمر نے نظریں اٹھا کر اس سے کہا۔ وہ اس کے اس جملے پر حیران رہ گئی تھی۔
”میں آپ سے ناراض نہیں ہوں تو پھر معافی کس بات کی؟”
عمر نے کچھ کہنے کے بجائے نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے پاس بٹھا لیا۔
”میری بکواس پر غصہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔”
”آپ ناراض تھے مجھ سے ، میں تو ناراض نہیں تھی۔”
عمر کا رد عمل اس کے لئے بے حد حیران کن تھا۔ وہ یک دم کھلکھلا کرہنسنے لگا تھا۔ چند لمحے ہنسنے کے بعد اس نے کہا۔
”میں تم سے ناراض نہیں ہو سکتا علیزہ؟ تم سے؟”
”مگر آپ تھے!”
اس نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”نہیں، میں تم سے ناراض نہیں تھا۔ ناراض ہونے کے لئے شکایت کا ہونا ضروری ہوتا ہے اور مجھے تم سے کبھی کوئی شکایت نہیں ہو سکتی۔”
اس نے سر اٹھا کر بے یقینی سے عمر جہانگیر کو دیکھاتھا۔
”دنیا میں کوئی نہ کوئی ایسا ضرور ہوتا ہے جس کی کوئی بات آپ کو بری نہیں لگتی جس پر کبھی آپ کو غصہ نہیں آتا۔ جس سے کبھی آپ ناراض نہیں ہوتے۔ ناراض ہونا چاہیں تو بھی نہیں ہو سکتے۔ میرے لئے وہ کوئی نہ کوئی تم ہو۔”



”عمر کو کیا ہو گیا ہے؟”
علیزہ نے سوچاتھا۔
”یہ کیا کہہ رہا ہے؟”
اس کی بے یقینی میں کمی نہیں آئی تھی۔
”آفٹر آل آپ یہ تو ضرور چاہتے ہیں کہ آپ کے مرنے پر کوئی ایسا شخص آپ کے لئے روئے جسے آپ نے ساری زندگی رونے نہ دیا ہو۔”
”میں جانتا ہوں علیزہ ! میرے مرنے پرمیرے لئے رونے والی صرف تم ہو گی۔”
وہ ہونق بنی اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ وہ اب مسکرا رہا تھا۔
”آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟”
اس نے یکدم خوفزدہ ہو کر کہا عمر بے ساختہ قہقہہ مارکر ہنسا۔
”کچھ نہیں……میں کچھ بھی کرنا نہیں چاہتا۔”
”پھر آپ اس طرح کی باتیں کیوں کر رہے ہیں؟”
”کیسی باتیں؟”
”یہ جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں!”
”میں کیا کہہ رہا ہوں!”
علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اسے کیا کہے وہ جانتے بوجھتے ہوئے۔۔۔۔!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!