Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

اگلی صبح چھٹی تھی علیزہ گھر پر ہی تھی۔ ناشتہ کی میز پر عمر سے اس کی ملاقات ہوئی۔ عمر نے بیٹھتے ہوئے بڑے غور سے اسے دیکھا۔ وہ بالکل نارمل نظر آرہی تھی۔ عمر کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ وہ رات کے بارے میں اس سے کیسے بات کرے۔ ناشتہ کرتے ہوئے اس نے جان بوجھ کر اپنی رفتار ہلکی رکھی۔ جب نانا کے بعد نانو بھی ٹیبل سے اٹھ گئیں تو عمر نے علیزہ سے بات کرنے کا سوچاتھا۔
”علیزہ ایک بات پوچھوں ؟”
عمر نے بڑے نارمل انداز میں کہا۔
علیزہ نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا اور پھر کارن فلیکس کھاتے ہوئے کہا۔
”ہاں!”
”تمہیں نیند میں چلنے کی عادت ہے؟”
علیزہ کے ہاتھ سے چمچ چھوٹ کر ٹیبل پر گرگیا۔ عمر نے اس کی آنکھوں میں بے تحاشا خوف دیکھا۔ وہ بالکل ہی بے حس و حرکت تھی۔ عمر چند لمحے میز پر پڑے چمچ کو دیکھتا رہا پھر پر سکون انداز میں اس نے علیزہ سے کہا۔
”یعنی ہے……اٹس آل رائٹ بہت سے لوگوں کو یہ…۔۔۔”عادت”ہوتی ہے۔”
وہ روانی میں بیماری کہتے کہتے رک گیا۔ وہ اب بھی اسی طرح بے حس و حرکت تھی۔
” علیزہ ! کب سے ایسا ہے؟”
عمر نے جوس پیتے ہوئے بڑے عام سے انداز میں اس سے پوچھا۔
”کیا؟”
وہ اب بھی خوفزدہ تھی۔
”نیند میں چلنے کی عادت !”



علیزہ نے بے بسی سے سر جھکا لیا اور عمر کچھ دیر اسے دیکھتا رہا۔
”مجھے نہیں پتا ۔”
اسے علیزہ کی مدھم سی آواز سنائی دی تھی۔
”گرینی اور گرینڈ پا جانتے ہیں کیا اس بات کو؟”
علیزہ نے اس کے سوال پر سر ہلا دیا وہ چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔
”کل رات تم باہر گیٹ پر تھیں میں تمہیں وہاں سے لے کر آیا تھا۔ پہلے تو میری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا……لیکن پھر میں سمجھ گیا۔”
وہ اسے بتا رہا تھا اور علیزہ کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ وہاں سے غائب ہو جائے۔
”کیا عمر سے میری کوئی بات بھی راز نہیں رہے گی؟”
اس نے بے بسی سے سوچا۔
”سونے سے پہلے تم کمرہ اچھی طرح لاک کر لیا کرو پھر سلیپنگ پلز لے لیا کرو۔ بلکہ بہتر ہے کہ کوئی سکون آور گولی لے لیا کرو، لیکن ڈاکٹر سے پوچھ کر۔ اس طرح رات کو باہر نکل جانا کافی خطرناک ہے۔ ابھی تم چھوٹی ہو، اس کا ٹریٹمنٹ بہت آسانی سے ہو جائے گا۔ اگر ابھی اگنور کرو گی تو بعد میں پرابلم ہو گا۔”
وہ ہلکی آواز میں اسے سمجھا رہا تھا۔
”تم سن رہی ہو نا ،میں کیا کہہ رہا ہوں؟”
عمر نے اس سے پوچھا اور اس نے جھٹکے سے سر کوہلا دیا۔
”ٹھیک ہے!”
یہ کہہ کر وہ ٹیبل سے کھڑا ہو گیا۔
”پلیز آپ نانا کو اس بارے میں نہ بتائیں۔”
اس نے اچانک علیزہ کی التجائیہ آواز سنی تھی۔
”لیکن تم نے کہا کہ وہ یہ بات جانتے ہیں!”
”ہاں وہ جانتے ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ میں ٹھیک ہو چکی ہوں۔ وہ پریشان ہوں گے پلیز آپ ان سے بات نہ کریں۔”
عمر کو اس پر ترس آگیا۔



”انہوں نے کسی سے تمہارا ٹریٹمنٹ کروایا ہے۔”
”ہاں وہ… وہ ایک سائیکاٹرسٹ سے سیشن کرواتے رہے ہیں۔”
اس نے الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
”پھر ؟”
”پھر میں ٹھیک ہو گئی تھی!”
”تواب کیوں؟” عمر نے بات ادھوری چھوڑی دی۔
”پتا نہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا مگر آپ نانو سے بات نہ کریں۔”
”ان سے بات کرنے کا فائدہ ہی ہوگا۔ سائیکاٹرسٹ سے دوبارہ سیشن ہوں گے تو تم پھر ٹھیک ہو جاؤ گی۔”
عمر نے اسے تسلی دی۔
”میں یہ سب نہیں چاہتی۔”
وہ سر پکڑ کر دبی ہوئی آواز میں چلائی تھی۔
”آپ سمجھتے نہیں میرے ایگزامز شروع ہونے والے ہیں ، میں ٹینشن میں تھی، اسی لئے ایسا ہوا۔ اب میں ریلیکس ہونے کی کوشش کروں گی تو سب کچھ ہی ٹھیک ہو جائے گا۔ نانو اور نانا فضول میں پریشان ہوں گے۔ مجھے بھی ڈسٹرب کریں گے۔ میں بھی اپنے پیپرز پر توجہ نہیں دے پاؤں گی۔ پلیز آپ ان کو کچھ مت بتائیں!”
اس کے لہجہ میں اتنی بے چارگی تھی کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی بات ماننے پر مجبور ہو گیا۔
”ٹھیک ہے میں ان سے بات نہیں کروں گا۔”
اسے یک دم علیزہ کے چہرے پر اطمینان نظر آیا۔
”تھینک یو!”
اس نے بے اختیار عمر سے کہا۔
”کوئی بات نہیں !”
وہ کہتے ہوئے وہاں سے چلا گیا تھا۔ علیزہ خاموشی سے اسے جاتا دیکھتی رہی۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!