Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

باب 15

علیزہ اس کے ہاتھ سے ریوالور چھین لینا چاہتی تھی۔ مگر وہ کوشش کے باوجود بھی اپنی جگہ سے ہل نہیں پائی۔ عمر سیفٹی کیچ ہٹا چکا تھا، اورریوالور اپنی کنپٹی کی طرف لے جارہا تھا۔ جب انکل جہانگیر بجلی کی سی تیزی سے لپکے اور اس کاہاتھ پکڑ لیا۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنا ہاتھ چھڑاتا۔ انہوں نے اس کے چہرے پر ایک زور دار تھپڑ مارا۔ تھپڑ اتنا زبردست تھاکہ وہ نہ صرف چند قدم پیچھے چلا گیا ، بلکہ ریوالور پر اس کے ہاتھ کی گرفت بھی کمزور پڑگئی۔
انکل جہانگیر نے ایک جھٹکے کے ساتھ ریوالور اس سے چھین لیا اور اس کے چہرے پر ایک اور تھپڑ مارا۔ علیزہ نے اس کی ناک میں سے خون بہتے دیکھا۔ انکل جہانگیر اب اسے گالیاں دے رہے تھے۔ نانو نے یک دم آگے بڑھ کر انہیں پیچھے کھینچ لیا۔ عمر اب سامنے کھڑا پلکیں جھپکائے بغیر انہیں دیکھ رہا تھا۔ علیزہ نے کبھی کسی کے لئے اس کی آنکھوں میں اتنی نفرت نہیں دیکھی تھی۔ جتنی وہ اس وقت عمر کی آنکھوں میں انکل جہانگیر کے لئے دیکھ رہی تھی۔ اس کی ناک سے ٹپکتا ہوا خون اس کی سفید شرٹ پر گر رہا تھا۔ مگر وہ جیسے اس سے بالکل بے خبر تھا۔



”مجھ پر چلائیں مت۔” اس نے اب عمر کو انکل جہانگیر سے کہتے سنا۔
”مجھ پر اب ہاتھ اٹھا کر بہت پچھتائیں گے۔”
”کیا کرو گے تم؟ یہ ڈرامہ جو ابھی کیا ہے؟ خو د کشی کرنا چاہتے ہو تو جاؤ باہر سڑک پر جا کر کرو۔ وہاں جا کر شوٹ کرو اپنے آپ کو لیکن میرے گھر میں نہیں۔”
”نہیں ! ویسے ہی مروں گا جیسے مرنا چاہتا ہوں۔”
”اس سے کیا ہو گا۔ مجھے کوئی بھی فرق نہیں پڑے گا۔ چار چھ دن لوگ بات کریں گے پھر بھول جائیں گے۔ جہانگیر معاذ کو کچھ بھی نہیں ہو گا۔”
”چار ، چھ دن ہی سہی مگر بات تو کریں گے آپ کے بارے میں۔”
اس سے پہلے کہ انکل جہانگیر اس کی بات کے جواب میں کچھ کہتے نانو نے انہیں کہا تھا۔
”جہانگیر !بس کرو ۔ اس بحث کو بند کرو۔ یہاں سے باہر نکلو۔”
انہوں نے انکل جہانگیر کو بازو سے پکڑ کر باہر لے جانے کی کوشش کی تھی۔
”نہیں، مجھے یہاں سے باہر نہیں جانا، کیا سمجھتا ہے یہ خود کو؟ میں ایسی بلیک میلنگ میں نہیں آؤں گا۔”
انہوں نے خود کو نانو سے چھڑاتے ہوئے کہاتھا۔
”پلیز جہانگیر ! فی الحال یہ سب ختم کرو۔مجھے اس طرح پریشان مت کرو۔ ابھی اسے اکیلا چھوڑ دو۔”
نانو نے ایک بار پھر ان کا بازو پکڑ کر التجائیہ انداز میں کہا تھا، لیکن انکل جہانگیر بالکل ہی بپھرے ہوئے تھے۔
”آپ اس کو نہیں جانتی ہیں۔ یہ تماشا اس نے پہلی بار نہیں کیا ہے۔ اس سے پہلے بھی یہ دو بار اسی طرح لڑنے کے بعد سلیپنگ پلز کھاچکا ہے۔”
انہوں نے انکشاف کیا، علیزہ نے شاک کے عالم میں عمر کو دیکھا وہ اب بھی اسی طرح باپ پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔
”مجھے شرم آتی ہے اسے اپنی اولاد کہتے ہوئے!”
”آپ کو باپ کہتے ہوئے مجھے بھی اتنی ہی شرم آتی ہے۔” اس نے انکل جہانگیر کو سرد لہجے میں جواب دیا۔
”جہانگیر ! خدا کے لئے دوبارہ جھگڑا شروع مت کرو۔ میرے ساتھ باہر آؤ!”



نانو نے انکل جہانگیر کے کچھ کہنے سے پہلے ہی انہیں باہر کھینچنا شروع کر دیا۔ انکل کچھ کہنا چاہتے تھے مگر نانو کسی نہ کسی طرح انہیں کھینچتے ہوئے کمرے سے باہر لے گئیں۔ عمر اپنی جگہ پر پر بے حس و حرکت کھڑا ا نہیں باہر جاتا دیکھتا رہا۔ کمرے کا دروازہ بند ہوتے ہی اس کی نظریں علیزہ پر جم گئیں۔
”تم بھی یہاں سے جاؤ!”
اس نے درشتی سے علیزہ سے کہا تھا۔ وہ اب ہاتھ کی پشت سے ناک صاف کر رہا تھا، اور شاید تب ہی اسے پہلی بار احساس ہوا تھا کہ اس کی ناک سے خون بہہ رہاہے۔ علیزہ اس کے کہنے کے باوجود بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلی۔ عمر نے ایک بار پھر سر اٹھا کر اسے دیکھا اور اسے وہیں کھڑے دیکھ کر اس کے چہرے کی ناگواری بڑھ گئی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!