”تمہیں کہا ہے نا۔ جاؤ یہاں سے!”
اس با ر اس نے بھرائی ہوئی آواز میں علیزہ سے کہا۔
”پلیز، میں آپ کے پاس رہنا چاہتی ہوں۔” اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
”مگر مجھے کسی کی بھی ضرورت نہیں ہے۔”
”پھر بھی… پھر بھی میں یہیں رہنا چاہتی ہوں۔”
وہ اس وقت کسی بھی قیمت پر عمر کو اکیلا نہیں چھوڑ ناچاہتی تھی۔
”علیزہ ! مجھے اس وقت یہ کمرہ بالکل خالی چاہئے ۔ ،میں تمہاری موجودگی برداشت نہیں کر سکتا۔ اس لئے یہاں سے چلی جاؤ۔”
اس نے تیز اور ترش لہجے میں اس سے کہا اوروہ بے اختیار رونے لگی۔ عمر اپنے سر کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔ وہ اب اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتی تھی لیکن اس کی ناک سے ٹپکتے ہوئے خون کے قطرے اب بھی اس کی قمیض پر گر رہے تھے۔ عمر دونوں ہاتھوں سے سر کو پکڑے بہت گہرے سانس لے رہا تھا۔ علیزہ کی سمجھ ہی نہ آیا کہ وہ کیا کرے۔ چند لمحے اپنے آنسو ؤں کو پونجھتے ہوئے وہ اسی طرح کمرے کے وسط میں کھڑی رہی۔پھر ایک خیال آنے پر وہ ڈریسنگ ٹیبل پر پڑے ہوئے کچھ ٹشو پیپر اٹھا لائی تھی۔
عمر کے بالکل بالمقابل گھٹنوں کے بل قالین پر بیٹھتے ہوئے اس نے ایک ٹشو سے اس کی ناک سے بہتا ہوا خون صاف کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ کرنٹ کھا کر پیچھے ہٹا تھا۔ علیزہ کو اس کے چہرے پر پہلے والی وحشت نظر نہیں آئی تھی۔ وہ اب تھکا ہوا لگ رہا تھا۔ چند لمحے وہ علیزہ کو دیکھتا رہا پھر اس نے اس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ٹشو لے لئے اور خود اپنا چہرہ صاف کرنے لگا۔ علیزہ بھیگی پلکوں سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ اس کی نظریں عمر کو ڈسٹرب کر رہی تھیں۔
”میں آپ کے لئے کچھ لے کر آؤں؟”
علیزہ نے اچانک ہی اس سے پوچھا۔ وہ چہرہ صاف کرتے کرتے رک گیا۔
”تمہیں میری پرواہ ہے؟”
اس نے عجیب سے لہجے میں علیزہ سے پوچھا۔ وہ ایسے کسی سوال کی توقع نہیں کر رہی تھی۔ چند لمحے حیرانی سے اس کا منہ دیکھتے رہنے کے بعد اس نے کہا۔
”ہاں ! سب سے زیادہ۔”
”ٹھیک ہے پھر تم میری بات مانو اور یہاں سے چلی جاؤ۔”
علیزہ کو اس کے مطالبے پر شاک لگا۔
”اس وقت مجھے صرف تنہائی درکار ہے۔”
اس نے ایک بار پھر کہا وہ چند لمحے کچھ بھی کہے بغیر اس کا چہرہ دیکھتی رہی، جو اس کے جواب کا منتظر تھا۔ پھر اس نے کہا۔
”اگر آپ وعدہ کریں کہ آپ… آپ نہیں کریں گے تو میں چلی جاتی ہوں۔”
”کیا نہیں کروں گا؟”
اس نے علیزہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے پوچھا ۔
”جوکچھ دیر پہلے آپ……!”
علیزہ نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑ دی۔ وہ خاموشی کے عالم میں اسے دیکھتا رہا۔
”آپ نہیں کریں گے نا؟!”
اس بار علیزہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر یقین دھانی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ”نہیں کروں گا۔” بہت دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے اس نے علیزہ سے آنکھیں چرالی تھیں۔ اسے عمر کی آنکھوں میں نمی کی ہلکی سی چمک نظر آئی۔ اگلے لمحے وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ سے ہٹا کر چہرہ جھکا چکا تھا۔
وہ بوجھل دل سے اس کے قریب سے اٹھ گئی۔ عمر ایک بار پھر اپنا خون بند کرنے کی کوشش میں مصروف تھا۔ بھاری قدموں سے چلتے ہوئے وہ باہر نکل آئی، اور پھر چند لمحوں کے بعد اس نے دروازہ لاک ہونے کی آواز سنی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اب وہ اندر کیا کر رہاتھا یا کیا کرنے والا تھا وہ وہاں سے نہیں جانا چاہتی تھی۔ علیزہ وہیں دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑی ہوگئی چند منٹ پہلے جو کچھ بھی ہوا تھا وہ اس کے لئے قطعی غیر متوقع تھا، لیکن غیر متوقع ہونے سے زیادہ ناقابل یقین تھا۔
انکل جہانگیر اور عمر کے درمیان ہمیشہ ہی اختلافات رہے تھے، اور ان سے کوئی بھی بے خبر نہیں تھا، لیکن یہ کسی کے لئے تشویش کا باعث بھی نہیں تھے۔ ایسے اختلافات صرف عمر اور جہانگیر کے درمیان ہی نہیں تھے، بلکہ خاندان کے تمام لوگوں کے درمیان تھے۔
٭٭٭