Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

امر بیل ۔ عمیرہ احمد

باب 1

”عمر آرہا ہے پرسوں۔ ”
لنچ پر نانو نے اچانک اس سے کہا۔ وہ کھانا کھانا بھول گئی۔
”پرسوں آرہا ہے آپ کو کس نے بتایا؟”
اس نے بے چینی سے نانو سے پوچھا۔
”تم اس وقت سو رہی تھیں،وہ بھی تم سے بات کرنا چاہ رہا تھا،مگر میں نے جب یہ بتایا کہ تم سو رہی ہو تو پھر اس نے جگانے سے منع کر دیا۔ ”نانو نے تفصیل بتائی تھی۔ علیزہ کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔
”چھٹیاں گزارنے آرہا ہے؟”
اس نے پوچھا۔
”ہاں یہی سمجھ لو ،فارن سروس چھوڑ رہا ہے۔ کہہ رہا تھا، چند ہفتے تک پولیس سروس جوائن کر لے گا۔ ”
علیزہ کو حیرت کا جھٹکا لگا۔
”عمر اور پولیس سروس،مجھے یقین نہیں آرہا نانو! اتنی اچھی پوسٹ چھوڑ کرآخر وہ کرے گا کیا یہاں۔ انکل نے اس سے کچھ نہیں کہا؟ ”
اسے ابھی بھی یقین نہیں آرہا تھا۔
”جہانگیر سے اس کا کوئی جھگڑا ہو گیا ہے۔ اس نے مجھے تفصیل نہیں بتائی لیکن
they are not on talking terms now-a-days.”
” اس میں کونسی نئی بات ہے ،یہ تو پچھلے کئی سال سے ہو رہا ہے۔ ”
علیزہ کو واقعی کوئی حیرانی نہیں ہوئی تھی۔
”ہاں مگر ابھی پھر کوئی جھگڑا ہوا ہے دونو ں میں۔ اب آئے گا، تو پتہ چلے گا کہ کیا ہوا۔ ”
نانو بھی زیادہ فکر مند نہیں لگ رہی تھیں۔
”یہیں رہے گا کیا؟”
اس نے نانو سے پوچھا۔




”ہاں ،کہہ رہا تھا کہ پوسٹنگ ملنے تک یہیں رہے گا۔ مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ تمہارے یا اپنے لئے کسی چیز کی ضرورت ہو تو اسے بتا دیں، وہ لے آئے گا۔ اپنے لئے تو میں نے کچھ نہیں کہا لیکن تمہارے لئے کچھ پرفیومز لانے کے لئے کہا تھا۔ میری بات پر وہ ہنسنے لگا۔ ”
علیزہ کے ذہن میں بے اختیار ایک یاد لہرائی۔
”کہہ رہا تھا یہ تو کوئی منگوانے والی چیز نہیں ہے ،جانتا ہوں علیزہ کے سامنے جاؤ ں گا تو پرفیومز کے بغیر کیسے جاؤں گا۔ پھر میں نے اس سے کہا کہ کچھ اچھی کتابیں لے آئے تمہارے لئے، خاص طور پر پینٹنگ کے بارے میں کوئی نئی کتاب۔ ”
نانو اسے بتاتی گئی تھیں۔
”آپ نے ایسے ہی تکلیف دی نانو۔ ”
”ارے نہیں وہ خود اصرار کر رہا تھا،خیر تم ذرا اس کے لئے کمرہ سیٹ کروا دینا، اور انیکسی بھی ذرا صاف کروا دینا۔ اس کا سارا سامان بھی آرہا ہے۔ ابھی فی الحال تو یہیں رکھوائے گا ،پھر جب پوسٹنگ ملے گی تو لے جائے گا۔ ”
نانو نے اسے ہدایات دیتے ہوئے کہاتھا۔ پھر وہ لنچ کرنے کے بعد اٹھ کر چلی گئی تھیں۔ وہ بہت دیر تک وہیں بیٹھے بہت کچھ سوچتی رہی تھی۔ ذہن میں بہت کچھ تازہ ہوتا جارہا تھا۔
”تو عمر جہانگیر آخر کار تم واپس آ ہی رہے ہو۔ ”




اس نے مسکراتے ہوئے سوچا۔ پھر کچھ ذہن میں آنے پر وہ اٹھ کر اس کمرے کی طرف آگئی جہاں وہ ہمیشہ ٹھہرتا تھا۔ دروازہ کھولتے ہوئے اسے بہت خوش گوار سا احساس ہوا تھا۔ وہ اکثر اس کمرے میں آ کر کچھ وقت گزاراکرتی تھی، اور ہمیشہ ہی یہاں آکر اسے یوں لگتا جیسے وہ یہیں کہیں موجود تھا۔
اس کی راکنگ چیئر اسے ساکت حالت میں بھی اسی طرح جھولتی ہوئی نظر آتی تھی۔ جس طرح وہ اسے جھلایا کرتا تھا۔ ہر چیز پر جیسے اس کا لمس تھا۔ ہر طرف اس کی جیسے آواز گونجتی تھی۔ وہی دھیما،گہرا اور ٹھہرا ہوا لہجہ۔ وہی پر سکون دل کے کہیں اندر تک اتر جانے والی آواز،اور پھر وہی کھلکھلاتے ہوئے بے اختیار قہقہے، اس کمرے میں آکر سب کچھ جیسے زندہ ہو جاتا تھا۔ الوژن عکس بن جاتا تھا، اور عکس حقیقت بن کر اس کے ارد گرد پھرنے لگتا تھا۔ کمرے میں وہی مخصوص خوشبو بسی ہوئی تھی۔ عمرکے استعمال میں آنے والی چھوٹی چھوٹی چیزیں اسی طرح اپنی جگہ پر تھیں جیسے انہیں کل ہی رکھا گیا ہو۔ اس نے یاد کرنے کی کوشش کی۔ پہلی بار وہ کب آیا تھا۔ اسے اپنے ذہن پر زور نہیں دینا پڑا۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ وہ کس سال ،کس تاریخ،کس دن اور کس وقت آیا تھا۔ بعض باتیں آپ کبھی بھولنا نہیں چاہتے۔ اور وہ کب گیا تھا، اسے یہ بھی یاد تھا بعض باتیں آپ کبھی یاد رکھنا نہیں چاہتے۔
علیزہ کے لئے تب سے آج تک وہ یہیں تھا۔ اسی کمرے میں ، کم از کم اس کے لئے۔ اسے اپنے پیچھے دروازہ کھلنے کی آواز آئی تھی وہ بے اختیار پلٹی۔
”اچھا کیا تم ابھی یہ کمرہ دیکھنے آ گئیں ،میں نے سوچا میں بھی ایک نظر ڈال ہی لوں۔”
نانو اندر آ گئی تھیں۔ چند لمحے تنقیدی نظروں سے وہ کمرے کا جائزہ لیتی رہیں پھر جیسے مطمئن بھی ہو گئیں۔
”میرا خیال ہے، کہ سب کچھ ٹھیک ہی ہے لیکن پھر بھی تم ذرا ہر چیز کو اچھی طرح چیک کر لینا۔ میں نہیں چاہتی کہ اسے یہاں کوئی تکلیف ہو۔ ”
نانو مڑ کر کمرے سے نکل گئی تھیں۔ وہ ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھ گئی تھی، اور وہاں پڑا ہوا ایک پرفیوم اس نے ہاتھ میں لے لیا۔ آہستہ آہستہ اس نے پرفیوم کا ڈھکن اتار کر خوشبو کو محسوس کر نے کی کوشش کی۔ بے اختیار مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آئی۔ ایک بار پھر ایک امیج اس کے ذہن میں لہرایاتھا۔ اس نے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینہ کو دیکھا، وہاں یک دم کوئی اورنظر آنے لگا تھا وہیں اسی جگہ چند سال پہلے۔ وہ بے اختیار چند قدم پیچھے ہٹ گئی۔ اسے اپنی گردن اور بالوں پر پھوار پڑتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!