Blog

ghar aur ghata new

گھر اور کھاٹا ۔ عمیرہ احمد

”پھر گھاٹا ہوا ہے … پورے پچاس روپے کا۔” رضیہ نے اپنی کرخت آواز میں تقریباً چلاّتے ہوئے کہا تھا۔ اماں بختے نے اپنی موٹے شیشوں والی نظر کی عینک سے اپنی بہو کے دھندلے وجود کو بے حد بے بسی سے دیکھا اور بڑبڑائی ”گھاٹا؟… گھاٹا کیسے ہو گیا؟” اس کے جملے نے جیسے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔ رضیہ بُری طرح بپھری تھی۔ ”یہ میں بتاؤں گی یا تو بتائے گی؟” اماں بختے اس کی بات پر غور کئے بغیر صحن کے وسط میں رضیہ کی سلائی مشین کے قریب بچھی چادر پر پڑے اُ ن بسکٹ اور ٹافیوں کے ڈبوں کو دیکھ کر بڑبڑاتی رہی۔ ”گھاٹا تو نہیں ہونا چاہیے … یہ گھاٹا کیسے ہو جاتا ہے …؟” رضیہ نے ڈبے سے سارے کرنسی نوٹ نکال کر انہیں ترتیب سے کرتے ہوئے کچھ جھڑکنے والے انداز میں اماں سے کہا۔”جیسے روز ہوتا ہے … ویسے ہی آج ہوا ہے … ویسے ہی کل ہو گا … تیرا گھاٹا کہیں ختم ہو تا ہے اماں؟” اماں بختے نے چونک کر اُسے دیکھا۔ ”میرا گھاٹا ؟” وہ پھر بڑبڑائی۔ رضیہ اب ڈبے میں پڑے سکے گن رہی تھی اور سکوں کی تعداد نے اسے کچھ اور نا خوش کیا تھا۔ ”سارا دن تو باتیں کرتی رہتی ہے اماں … اگر منہ کو بند اور آنکھوں کو کھلا رکھے تو یہ گھاٹا بند ہو جائے گا۔” رضیہ نے بلند آواز میں بڑی بد تمیزی کے ساتھ کہا اورکرنسی نوٹوں کو سلائی مشین کا اوپر والا حصہ اٹھا کر اس میں پھینک دیا۔ سکوں کو اس نے ڈبے میں ہی رہنے دیا تھا۔ اماں نے اس بار کچھ نہیں کہا۔ رضیہ بڑبڑاتی ہوئی اُٹھ کھڑی ہوئی۔


”سویرے سویرے کیا شور مچایا ہے … کیا ہو گیا؟” عبدل تولیہ گلے میں ڈالے مسواک چباتا ہوا اور چپل گھسیٹتا اندر کمرے سے نکل آیا تھا۔ ”یہ تم اپنی اماں سے پوچھو … کہ کیوں سویرے سویرے تماشا ہوتا ہے اس گھر میں … آج پھر 50 کا گھاٹا ہوا ہے۔” رضیہ نے اسی تیز و تند لہجے میں عبدل سے کہا۔ ”میری سمجھ میں نہیں آتا اماں کہ تو کرتی کیا ہے … لوگوں کو چیزیں دیتے ہوئے دھیان سے پیسے کیوں نہیں لیتی … کوئی دو تین سو چیزوں کا کاروبار نہیں کر رہی … دس چیزیں بیچ رہی ہے تو … اور تجھ سے اُن دس کا حساب نہیں رکھا جاتا۔” عبدل منہ سے مسواک نکال کر ماں پر چڑھ دوڑا تھا۔ اماں بختے نے اپنی موٹے شیشوں کی عینک ٹھیک کی۔ ”ٹھیک ہی کہتا ہے عبدل … کوئی سو دو سو چیزیں تھوڑی ہیں … دس چیزیں ہیں … دس چیزوں میں تو گھاٹا نہیں ہونا چاہیے مجھے۔” وہ ایک بار پھر پاؤں میں پہنی ٹوٹی چپل کو دیکھ کر بڑبڑائی تھی۔ عبدل اور رضیہ دونوں میں سے کسی نے اس کی بڑبڑاہٹ پر دھیان نہیں دیا۔ ”مجھے لگتا ہے یہ خود کھاتی رہتی ہے ٹافیاں بسکٹ … ” رضیہ نے تند و تیز آواز میں الزام لگایا۔”خود کہاں کھائے گی چار دانت ہیں اماں کے … ” عبدل نے پتہ نہیں کیا خیال آنے پر اماں کا دفاع کیا۔ ”روٹی کھا سکتی ہے ان چار دانتوں کے ساتھ تو ٹافیاں اور بسکٹ بھی کھا سکتی ہے۔” رضیہ نے ترکی بہ ترکی کہا۔ اماں بختے نے چارپائی پر اپنے برابر بیٹھے چار سالہ سونو کو دیکھا۔ عینک سے بس اس کا چہرہ صاف دکھتا تھا … شاید اور کوئی اتنے قریب نہیں آتا تھا اماں کے … اس لئے … وہ چُپ چاپ چارپائی پر اماں کے برابر بیٹھا رنجیدگی سے اس سارے جھگڑے کو دیکھ رہا تھا … وہ خاموش تماشائی تھا۔
”میں نے تجھے پہلے ہی کہا تھا… یہ دکانداری اماں کے بس کی بات نہیں۔” عبدل نے اس بار اپنی بیوی کو جھڑکا تھا۔”ارے میں نے کب کہا کہ منافع کما کر لائے … گھر چلانے کی ذمہ داری تھوڑی سونپ دی ہے اماں کو … کوئی فائدہ نہ ہو … پر نقصان بھی تو نہ ہو۔” رضیہ نے اسی انداز میں کہا۔ عبدل نے اُس کی بات نہیں سنی تھی۔ ”روز 50,25,20 ہاتھ سے جاتے ہیں … اندر بیٹھی رہتی تو اتنے پیسے تو نہ لگتے اس پر۔” وہ اب بیوی سے جھگڑا کر رہا تھا۔ ”اندر بیٹھ کر کون سے تیر مار لینے تھے تمہاری اماں نے … سارا دن چارپائی پر پڑی رہتی تھی … ہر آنے جانے والے کے ساتھ باتیں کرنے بیٹھ جاتی تھی … یا یہ فرمائش ہوتی تھی کہ TV لگا دو … ایسے جیسے TVمفت میں چلتا ہے … یہ کوئی تاج محل تو ہے نہیں کہ جہاں مرضی اُٹھتی بیٹھتی … سلائی سکول چلا رہی ہوں میں اس گھر اور تمہاری اولاد کے لیے … کہاں بٹھاتی لڑکیوں کو … اگر اماں کو اندر بٹھائے رکھتی تو … اب کم از کم یہ گلی میں بیٹھتی رہتی ہے تو گھر میں جگہ تو ہوتی ہے۔” رضیہ نان سٹاپ بول رہی تھی۔ ”تو پھر بھگتو تم ہی … میں تو اس روز کی بک بک اور جھک جھک سے تنگ آ گیا ہوں … مجھ سے روز روز پورا نہیں ہوتا یہ گھاٹا۔” عبدل بولتاہوا صحن میں بنے غسل خانے میں چلا گیا۔
”آج خود آ کر دیکھو ں گی کہ کس طرح چیزیں بیچتی ہے تو … دو دفعہ پیسے گن کر ڈبے میں ڈالا کر … سارے عذاب میری جان کے لیے ہیں۔ بیٹے اپنی بیویوں اور اولادوں کے ساتھ کویت میں عیش کر رہے ہیں مگر مجال ہے انہیں کبھی ما ں کا خیال آ جائے … یہ گھاٹا ہمارے لئے رکھا ہے۔ ” رضیہ بولتی ہوئی اندر کمرے میں چلی گئی۔


ماں کے اندر جاتے ہی سونو پھرتی سے چارپائی سے اُتر گیا۔ ”اب دکان سجاؤں؟” اُس نے اماں بختے سے کہا۔ اماں بختے نے سر ہلا دیا۔ یہ روز کا معمول تھا۔ رضیہ اسی طرح بکتی چھکتی منظر سے غائب ہو تی اور سونو اپنا رول ادا کرنے لگتا۔ خاموش تماشائی یک دم تماشے کا حصہ بن جاتا تھا۔
وہ اب صحن کے ایک کونے میں پڑی لکڑی کی بینچ نما میز اور اُس میز کے اوپر پڑی بوری اٹھائے خوشی خوشی صحن کی دہلیز پار کر کے دروازے کے بائیں طرف نالی کے اوپر میز رکھ رہا تھا۔ میز اپنی مخصوص جگہ پر رکھنے کے بعد وہ اب دہلیز کے تھڑے کے ایک کونے میں اُس تہہ شدہ بوری کو رکھنے کے بعد اسی طرح بھاگتا اندر آیا۔ اماں بختے تب تک بمشکل ایک ہاتھ سے چارپائی کا سہارا لے کر دوسرا ہاتھ اپنے گھٹنے پر رکھ کرہانپتی کانپتی کھڑی ہوئی تھی۔ سونو تب تک اندر آ گیا تھا۔ ہمیشہ کی طرح اس نے اماں کا ہاتھ پکڑا اور اسے سہارا دیتے ہوئے دروازے کی طرف چل پڑا۔ اماں بختے اب بھی بڑبڑا رہی تھی۔ ”پتہ نہیں روز گھاٹا کیوں ہوتا ہے … یہ زندگی میں ہر روز ہی کیوں گھاٹا پڑتا ہے … کچھ سمجھ میں نہیں آتی کہ۔۔۔” وہ بڑبڑاتے بڑبڑاتے دہلیز کو پار کرنے سے پہلے سانس لینے کے لئے رُکی تھی۔ کھانسی کا ایک دورہ اُسے پڑا تھا … چند منٹ وہ وہیں کھڑی جھکی کمر کے ساتھ کھانستی رہی۔ اُس نے اب دروازے کے ایک پٹ پر ہاتھ رکھے سہارا لیا ہوا تھا۔ سونو کسی میکانکی انداز میں اماں کے پاس کھڑا اس دورے کے خاتمے کا انتظار کر رہا تھا … یہ روز کا معمول تھا صحن میں اپنی چارپائی سے یہاں دروازے تک آتے آتے اماں یہیں کھڑے ہو کر کھانستی تھی۔
کھانسی حسب معمول ختم ہو گئی۔ سونو نے دوبارہ اماں کا ہاتھ پکڑا۔ اماں نے دہلیز عبور کی اور سونو کی مدد سے وہ دہلیز کے سامنے بنے تھڑے پر بیٹھ گئی۔ سونو ایک بار پھر اندر چلا گیا تھا۔ اس نے کسی مشینی انداز میں اماں کی چارپائی پر پڑا بستر لپیٹا اور اندر برآمدے میں ایک کونے میں پڑے صندوق کے اوپر رکھ آیا۔ پھر اس نے صحن میں آ کر اماں کی چارپائی سیدھی کر کے دیوار کے ساتھ لگا دی۔ اس کے بعد وہ باری باری رضیہ کی زمین پر بچھی دری پر پڑے بسکٹ اور ٹافیوں کے ڈبے اٹھا کر باہر اماں کے میز پر جا کر رکھنے لگا۔ یہ اُس کا سب سے پسندیدہ کام تھا … دادی کی دکان سجانا۔
اماں بختے کا نام بختاور تھا … ماں کچھ اور نام رکھنا چاہتی تھی لیکن باپ نے بختاور رکھا … کیونکہ بختاور کی پیدائش پر اُسے دو ماہ کی بے کاری کے بعد کام ملا تھا … بختاور کے بعد اُس کے ماں باپ کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی لیکن اُس کے ماں باپ کے گھر کبھی فاقہ بھی نہیں ہوا … جب تک بختاور باپ کے گھر رہی … باپ کو کبھی بے روزگاری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ 19 سال کی عمر میں محلے کے سب سے کماؤ لڑکے کے ساتھ اُس کی شادی ہو گئی تھی۔ شریف درزی تھا اور قریبی بازار میں اُس کی ایک چھوٹی لیکن اپنی دکان تھی۔ بختاور باپ کی طرح شوہر کے لئے بھی بختاور ثابت ہوئی تھی۔ اُس سے شادی کے بعد شریف کا کام بڑھنے لگا تھا، اور شریف جہاں بختاور پر فدا تھا وہاں وہ اس بات کا اعتراف بھی برملا کرتا تھا۔ اوپر نیچے تین بیٹوں کی پیدائش نے جیسے بختاور کے واقعی بختاور ہونے پر مہر لگا دی تھی اور ایسے ماضی کے ساتھ اگر گھاٹے کا لفظ بختاور کو سمجھ نہیں آ رہا تھا تو سمجھ میں آتا بھی کیوں … وہ ہر روز گھاٹا کھاتی تھی اور ہر روز گھاٹا ڈھونڈنے بیٹھتی تھی … سارا دن وہ گلی میں بیٹھی بڑبڑاتی رہتی … ”یہ گھاٹا کیوں ہوتا ہے ؟… یہ گھاٹا کب ہوتا ہے ؟… یہ گھاٹا کون دیتا ہے …؟… یہ گھاٹا کیوں نہیں رکتا …؟” اس کے سوال گلی سے گزرتے کسی شخص کے پیر نہیں روکتے تھے … روکتے بھی کیسے … اماں بختے کا گھاٹا ان کا گھاٹا تھوڑی تھا …… ان کا گھاٹا تو ان کے اپنے گھر تھا۔
٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!